خوفزدہ کرنے بجائے گذشتہ پندرہ سالہ حکومت کا تقابلی جائزہ ضروری!

خبر در خبر (611 )
شمس تبریز قاسمی
بی جے پی کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد مسلمان قلم کاروں ،تجزیہ نگاروں ،قائدین اور مفکرین کی جانب سے مسلسل اس طرح کی تحریریں سامنے آرہی ہے کہ یہ خطرناک حالات ہیں ۔ مسلمان عزم وحوصلہ رکھیں ۔ اس سے بھی زیادہ سخت حالات کا ہم نے سامنا کیاہے ۔ پانچ سال ہم نے گزارے ہیں یہ پانچ سال بھی گز ر جائیں گے ۔ ہمارے بزرگوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیاتھا ۔
یہ جملے ،تجزیے اور پیغامات نفسیاتی طور پر مسلمانوں کو حوصلہ دینے کے بجائے خوف زدہ کررہے ہیں ۔ ان کے ذہنوں کو مزید پراگندہ کرنے اور مخصوص شخصیات اور پارٹیوں سے متنفرکرنے کی کوشش ہے جس سے مسلمانوں کا صرف نقصان ہوگا۔ انہیں احساس ہوگا کہ واقعی بی جے پی ہماری دشمن ہے ۔ کانگریس ہی ہماری بھلائی کرسکتی ہے ۔ہندوستان کے موجودہ حالات ہمارے لئے ساز گار نہیں ہیں ۔
ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے ۔ ہندو یہاں اکثریت میں ہیں۔ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے ۔ کسی کی بھی حکومت بن سکتی ہے ۔ مسلمان صرف 14 فیصد ہیں جوتنہا اپنی بنیاد پر کبھی حکومت نہیں بناسکتے ہیں ہاں حکومت بنانے میں اپنا کردار اداکرسکتے ہیں ۔اپنے کچھ مخصوص نمائندوں کو کامیاب بناسکتے ہیں ۔ اس لئے اس ملک میں مسلمانوں کی بھلائی او ر کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے لئے ہمیشہ متباد ل اختیار کرے۔ آپش رکھے لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا ۔ کانگریس کے علاوہ مسلمانوں نے کسی بھی پارٹی پر توجہ مبذول نہیں کی ۔ آباءپرستی کے شکار مسلمانوں نے کانگریس کے تئیں وفاداری نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔دوسری طرف بی جے پی کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی ۔اسے مسلمانوں کی دشمن پارٹی باور کرایا۔ بی جے پی نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو 2 سے 302 تک پہونچادیا ۔ اس نے بہت آسانی کے ساتھ تمام ہندﺅں کو متحد کردیا ۔ دلتوں ،آدی واسیوں ، یادو اور سبھی ذاتیوں کو ہندتوا کے نام پر ایک کردیا ۔ انتخابات کے تنائج بتارہے ہیں کہ سیکولر پارٹیوں کو صرف مسلمانوںنے ووٹ دیا بقیہ کسی ذات اور برداری کے لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ۔ راشٹریہ جنتا دل ، سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج وادی پارٹی کا ووٹ بینک بی جے پی میں شفٹ ہوچکاہے ۔
عام انتخابات 2019 میں کچھ پارٹیوں کی شکست ہوئی ہے ۔ راہل گاندھی ، اکھلیش یادو ، مایاوتی ، تیجسودی یادو کی سیاست خطرے میں پڑ گئی ہے ۔مسلمانوں کو خوف زدہ کرکے جو ہمارا ووٹ لیکر حکومت کررہے تھے اب وہ خود خوفزدہ ہوگئے ہیں ۔مسلمان جہاں کل تھے وہاں آج بھی ہیں ۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ہوئی ماب لنچنگ اور دیگر واقعات کی بنیاد پر ہم تشویش میں مبتلا ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت بننے کے سنگین حالات بتارہے ہیں لیکن کانگریس کے گزشتہ ستر سالہ دور حکومت بالخصوص 2004 سے 2014 تک کی دس سالہ حکومت کا آپ تقابلی جائزہ لیں ۔ مودی کے پانچ سال اور یو پی اے کے دس سال کا موازنہ کریں ۔دونوں حکومت میں مسلمان خوف او ر دہشت میں مبتلا رہے ہیں ۔ یوپی اے میں دہشت گردی کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کو گرفتارکرکے خوف کا ماحول بناگیا ۔ ان دنوں مسلمانوںمیں مسلسل یہ بے چینی تھی کہ کب کو ن آفیسر آئے اور گرفتار کرے جیل میں ڈال دے ۔ بی جے پی حکومت میں اس طرح گرفتار ی نہیں ہوئی ۔ ایک دو کی ہوئی بھی تو جلد رہائی ہوگئی البتہ اس حکومت میں ہجومی تشدد او رماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف زدہ کیاگیا ۔ شہروں کے نام تبدیل کئے گئے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیئے گئے۔ اس سے قبل فسادات کراکر مسلمانوں کو خوفزدہ کیاگیا ۔ سچائی یہی ہے کہ ہندوستان میں شروع سے مسلمانوں کو خوفزدہ رکھنے شش رہی ہے البتہ طریقے بدلتے رہے ہیں۔
پانچ سالہ بی جے پی حکومت ہم دیکھ چکے ہیں ۔ مسلمانوں کیلئے یہ حکومت یو پی اے کے دس سالہ حکومت سے کچھ مختلف نہیں تھی ۔اب ایک مرتبہ پھر بی جے پی کی مضبوط حکومت بنی ہے ۔ کانگریس کی واپسی کے امکانات اب دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں ۔ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ اب وہ کانگریس کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لیں ۔ بی جے پی سے رابطہ ہموار کرنے کیلئے غور وفکر کریں ۔ جمہوری ملک میں ایک منتخب حکومت کو نظر انداز کرنے اور دشمن باور کرانے کی پالیسی ختم کریں۔ گذشتہ رات ذاکر نگر میں کپڑے کے ایک دوکاندار نے مذاقیہ انداز میں مجھ سے کہاکہ آخر آپ نے مودی کو جتاہی دیا! ۔میں نے ان سے پوچھاکہ کسے ووٹ دیئے تھے یہاں عام آدمی کو یا کانگریس کو ؟اس نے برجستہ کہا:کس کو دیا چھوڑ و !اب تو جوا ب یہی ہوگا کہ مودی کو دیا ۔یہ معمولی جملہ بہت اہم اور ایک پیغام پر مبنی ہے کہ جیتنے والے کے ساتھ آپ رابطہ ہموا ر کریں ۔ تعلقات بنائیں ۔
یہ سوال بہت ہم کہ منموہن سنگھ کے وزیر اعظم بننے اور راہل گاندھی کے کانگریس صدر بننے پر جب مسلمان مہینوں مبارکباد دیتے رہتے ہیں تو مودی کے پی ایم بننے پر وہ خاموش کیوں ہیں؟ ۔ نظریاتی لڑائی جاری رہنی چاہیئے ۔ا س سے کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے لیکن جمہوری نظام میں ایک منتخب حکومت کو مبارکباد اور دوسری پارٹی سے نفرت کا اظہار ہماری کامیابی میں رکاوٹ ہے ۔ مودی کے سب سے بڑی حریف راہل گاندھی ہیں لیکن انہوں نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔

بابری مسجد ۔رام مندر ، این آرسی۔ مسلم پرسنل لاءاور وہ تمام ایشوزجسے بی جے پی موضوع بحث بناکر مسلمانوں کو پریشان کرنے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ سارے کے سارے کانگریس کے پیدا کردہ ہیں ۔ بی جے پی صرف اس کا پھل کھارہی ہے ۔ ا س لئے ہم نہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور بی جے پی کی حکومت پر افسوس کررہے ہیں نہ ہی کانگریس کی حکومت اور راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے پر خوشی ہوتی ۔ہم خو د کہاں کھڑے ہیں ۔ مسلمانوں کی پوزیشن ک یا ہے اور مسلمان کیسے اپنا تعلیمی،سماجی اور سیاسی مقام حاصل کرسکتے ہیں اس پر بات کرنے کی سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اور بس ۔
ایک مرتبہ پھر یہ ذہن نشیں کرلیں کہ ہندوستان کے تقریبا سبھی ہندو متحدہ ہوچکے ہیں ۔ یادو دلتجاٹ ،کوئری ، سہنی اور آدی واسی سمیت سبھی نے اکھلیش یادو ، لالو پرساد ، مایاوتی ، مانجھی ، مکیش شہنی ،کشواہا کو چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام لیاہے۔ ان کے ساتھ اب صرف مسلمان باقی رہ گئے ہیں ۔اگر آپ تنہاءسیکولرزم کو بچاسکتے ہیں ۔اپنے ووٹوں کی بنیاد انہیں اقتدار تک پہونچاسکتے ہیں تو ضرور ان سے وابستہ رہیے اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر ابھی سے سوچنا شروع کردیجئے کہ اگلے انتخابات میں آپ کو کیا کرناہے ،کہاں جاناہے اور کیسے اپنا سیاسی مقام بنانا ہے ۔
stqasmi@gmail.com