مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے علماء اور اہل فکر سے چند باتیں

ڈاکٹرعبدالقادرشمس

ابھی چنددنوں سے ہندوستان اور پاکستان میں نوزائیدہ مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے گرماگرم بحثیں چل رہی ہیں،اس حوالے سے یہ معروضات زیرقلم آگئیں جو آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں۔

اب وقت آگیاہے کہ مغرب ومشرق کی کشمکش میں مدارس اسلامیہ حق وصداقت کی مشعل لے کرآگے بڑھیں اوردنیاکو اس روشنی سے روبروکریں جو نجات کی طرف لے جاتی ہے۔اب یہ کام فضلائے مدارس کو کرناہی ہوگا کیونکہ دنیامختلف ’مشن اور وژن ’کی بھول بھلیوں سے بے زارہوچکی ہے اوروہ حق کی متلاشی ہے۔سچ یہ ہے کہ سچائی اورحقانیت کی جو بنیادی اساس ہے وہ مدارس اوراہل مدارس کے پاس ہی ہے۔یہ بات اب محسوس کی جانے لگی ہے کہ تمام تر علم وفلسفہ کی بنیادیںمتزلزل ہوچکی ہیں اور اسلامی علوم وفلسفہ کے نقش ہائے ناتمام ہی ہےں جو انسانوں کوراہ مستقیم پر دوام واستحکام عطاکرسکتے ہےں۔ ظاہرہے یہی وہ موقع ہے جب علوم اسلامی کے خوشہ چیں اوردین وشریعت کے غواص کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ تمام ازم ،جملہ تہذیبی افکاراور علم وسائنس کی اساس کو منہدم کیے بناآگے بڑھناہوگا اوردور اور بہت دورنظر آرہی حق کی روشنی تک دنیاکو لے جاناہوگا۔ ظاہرہے یہ کام پل صراط کی مانندہے ،یا پھرمثل آتش دریا اورڈوب کرجانا ہے۔یہ کار نبوت کی ایک شاخ ہے جس پر چلتے ہوئے ہمیں ردوقدح سے بھی بچناہوگااور علم وفلسفہ کے بلند معیارسے بھی دنیاکو قائل کرناہوگا۔

اس حقیقت کاادارک ہر اس شخص کو ہے جس کی نظر دنیاکے بدلتے ہوئے حالات اور مغرب کی اس پیاس پر ہے جس کواسلام ہی بجھاسکتاہے۔ظاہر ہے علمائے اسلام کو جدیددورکے چیلنجوں کو جدید اسلوب اورلچکدارلہجوں سے ہی قائل کرناہوگا اور اسلام کے ان اساسی اصولوں سے مغربی کج فکری کو دورکرناہوگا جو اسلامی ذخیرہ میں روزاول سے موجودہے۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ علماءکی جماعت میں سے ایک طبقہ پوری روشن نظری کے ساتھ اٹھیں اور اسلام نے جو ’امت وسط ‘کانظریہ دیاہے اسی کے ساتھ ساری دنیاکے دل ودماغ کو مسخرکرتے چلے جائیں۔ اس کے لیے اسلام نے جس حدتک آزادی دی ہے وہاں تک کے لیے توسع کارویہ توروارکھناہی ہوگا ۔

 مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام کی گنجائشوں سے استفادہ کرنے والوں پر تقویٰ کے بلند معیار پرفائز افرادجائزوناجائز کی تلواریں چلاتے رہتے ہیں جس کانقصان دعوتی مشن کو ہوتارہاہے،لہٰذا اب ہمیں نئے سرے سے سوچناہوگا ۔

ظاہرہے جب اس نہج پر سوچنے کی بات کی جاتی ہے توشکوک وشبہات کے دروازے کھل جاتے ہیں اوریہ سمجھاجانے لگتاہے کہ اسلامی اصولوں سے سمجھوتہ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے ،جب کہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے اساسی اصولوں پر چٹان کی طرح قائم رہنے کے باوجود ہم دنیاسے راہ ورسم رکھ سکتے ہیں اوردنیاکی تمام تہذیبوں کو ایک نیاراستہ دکھاسکتے ہیں،اس کے لیے دنیاکی زبانوں کاعلم اور اسلام کی تعقل پسندی سے استفادہ ضروری ہے۔مگراس نہج پر سوچنے سمجھنے والوں کی راہ آسان بھی نہیں ہے ،کیونکہ ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مدارس کے فضلا کے لیے ’برج کورس‘متعارف کرایااور اس کے لیے ایک نیانصاب تیارکیاگیا تو شکوک وشبہات اور سوالات کے انبارلگ گئے ، اسی طرح کچھ دنوں سے امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے اشتراک سے ہندوستان اورپاکستان میں ’مدرسہ ڈسکورسز‘ نامی ایک کوشش شروع ہوئی تواس پر بھی بعض افرادنے سوالات اورشکوک وشبہات کے اتنے وارکیے ہیں اورمسلسل کررہے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ 

قرآن وحدیث سے واقف اورمقاصدشریعت سے آگاہ جواں سال علماءکی تربیت کے لیے سرگرم مدرسہ ڈسکورسز کامقصد علماءکی ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جوجدیددنیاکو جدیدلب ولہجے میں اسلام کی حقانیت سے ہم آہنگ کرسکیں،چنانچہ ایسے علماءکو فکری سطح پر اسلام کے علم وفلسفہ سے لیس کیا جاتا ہے مگراس تحریک پر ان دنوں تابڑتوڑحملے کیے جارہے ہیں ۔بعض احباب نے اس تحریک کے مقاصد اورافادیت سے قطع نظر اس کے ارباب حل وعقد پر تنقیدشروع کردی ہے۔تنقیدکی بنیاد اس تحریک کی جڑوں میں تلاش کی جارہی ہے اوراس کے کارندوں کی وابستگیوں کو موضوع بحث بنایاجارہاہے۔جن لوگوں نے بھی اس پر تنقید کی ہے ان کابنیادی ومرکزی عنصر یہ ہے کہ اس مہم کے پیچھے امریکہ کی جس یونیورسٹی کی فکرکارفرماہے وہ پلورلزم پر یقین رکھتی ہے ۔ تنقیدکرنے والے اس لفظ کا لغوی اوراصطلاحی معنیٰ تلاش کرکے یہ نتیجہ اخذکررہے ہیں کہ چونکہ اس لفظ کامعنی تمام مذاہب کوحق پر سمجھناہے اس لیے یہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہونے کے نظریہ کے خلاف ہے اور ایسی تمام کوششیں سازش ہوسکتی ہیں۔

یوں تومعترضین کے گروہ میںبہت سے نام ہیں مگران میں زیادہ ترکومیں مرفوع القلم تصور کرتا ہوں البتہ کچھ صاحبان فکرونظربھی ہیں جن کے غوروفکرکی کچھ بنیادیں بھی ہیں اوران کے اعتراضات لائق اعتنابھی،ایسے ہی لوگوں میں ہیںجواں سال فاضل اورصاحب علم وقلم مفتی یاسرندیم واجدی،جن کی تحریر سب سے زیادہ طویل اور تفصیلات پر مبنی ہیں۔انہو ںنے جو تحریرلکھی ہے اس کو پڑھنے کے بعدمیں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ ان کی تحریر کوپڑھنے والایقینی طورپر مدرسہ ڈسکورسز سے بدگمان ہوسکتاہے۔دراصل مفتی یاسرندیم نے پورے مضمون میں جن شکوک وشبھات کو پوری طاقت سے ابھارنے کی کوشش کی ہے اس کاتعلق حقائق سے کم اور قیاس واندیشہ سے زیادہ ہے۔دراصل ان کی تحریرایک لفظ کے اردگردگھومتی ہے اوروہ لفظ ہے ”پلورلزم “۔انہو ںنے لکھاہے کہ چونکہ مدرسہ ڈسکورسز نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کاپروجیکٹ ہے اوراس یونیورسٹی کااعتقادپلورلزم پر ہے اورپلورلزم کا لفظی معنیٰ سبھی مذاہب کو برحق تصورکرناہے اس لیے یہ اسلام کے خلاف سازش ہوسکتی ہے کیونکہ اہل اسلام کااس پر پختہ یقین ہے کہ اسلام ہی برحق ہے۔محترم یاسرندیم صاحب نے مدرسہ ڈسکورسز پر شکوک وشبھات کے جتنے تانے بانے بیان کیے ہیں وہ دراصل اسی ایک لفظ کاشاخسانہ ہےں۔ اسی لفظ کو مرکز میں رکھ کر شکوک وشبھات کے اتنے دریچے کھولے گئے ہیں کہ پڑھنے والے کااندیشہ ہائے دوردرازمیں مبتلا ہونا یقینی ہے۔میراصرف اتناکہناہے کہ کسی بھی چیز کا اتنی سختی سے محاسبہ نہیں کرناچاہیے کہ وہ بلاوجہ مشکوک ہوجائے،میراخیال ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے کچھ ایسا ہی ہواہے کہ آج ایک بڑاطبقہ اس کے حوالے سے جانناچاہتاہے اوراس کی وجہ صرف شکوک وشبہات ہیں۔مفتی یاسرندیم نے جس طرح پلورلزم کی وضاحت کرتے ہوئے نصف درجن افرادکی شخصیت کو شکوک کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی ہے اگر وہ سیکولرزم کی لغوی اوراصطلاحی معنی ومفہوم کاتنقیدی جائزہ لیں گے تو یہاں بھی انہیں اسی قسم کی چیزیں دریافت ہوں گی مگر ہم سیکولر زم کو عین دین سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کو اسلامی تقاضہ تصورکرتے ہیں اور پلورلزم کے نام پر مدرسہ ڈسکورسز کی پوری عمارت کو ایک ہی ہتھوڑے سے منہدم کردیناچاہتے ہیں۔ 

پروفیسر ابراہیم موسیٰ ،مہان مرزااور کئی دیگر افراد کے حوالے سے مفتی یاسرندیم نے یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ لوگ دین میں تجدد پیداکرنے کے درپے ہیں جو گمراہی کی طرف لے جانے والاہے،چنانچہ انہو ںنے اپنے ردعمل کے طورپر جو مضمون جاری کیاہے اس کامقصد توتھاکہ مدرسہ ڈسکورسزکی قباحتوں کو بیان کیاجائے اوردین میں جدت کو شرعی دلائل سے ثابت کریں مگر پورے مضمون میں وہ مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ افرادکی بے دینی اوران کے عقل وعقیدہ پر حملہ آور ہوگئے۔ یہ صحیح ہے کہ فکراسلامی کے سامنے پیداشدہ چیلنجز کاسامناکرنے اوراسلام کو ایک تعقل پسندمذہب ثابت کرنے والوں کی بات سننے کاماحول ومزاج ابھی مسلم سماج میں پیدانہیں ہوابلکہ ہرنئی چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کاسلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔کبھی دعوت اسلامی کے جدیدطرز واداکی حمایت کرنے والے جماعت اسلامی کے لوگوں سے مسلمانوں کاایک بڑا طبقہ دور دور رہا، کبھی اہل حدیث سے تعلق رکھنے والوں سے کھنچے کھنچے نظرآئے توکبھی عصری دانشگاہوں کے داعیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا،یہ رویہ زیادہ تر ہمارے اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کار اورعلماءمیں پایاجاتاہے۔

 گزشتہ چندبرسوںقبل جب مرکز المعارف نے فضلاءکوانگریزی زبان سکھانے کی مہم شروع کی تواس پر بھی کافی اعتراضات ہوئے لیکن دھیرے دھیرے لوگ خاموش ہوگئے،اب کچھ عرصہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مدارس کے فضلا کے لیے قائم ’برج کورس‘ پر اعتراضات ہورہے ہیں اورتازہ معاملہ مدرسہ ڈسکورسز کاہے جو ہندوستان اورپاکستان میں یکساں طورپر جاری ہے۔

حیرانی اس بات کی ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کے تحت کیاپڑھایاجارہاہے اورا س کے کیامقاصدہیں اس پر کوئی بحث نہیں کررہابلکہ اس با ت کوموضوع بحث بنایاجارہاہے کہ آخر ایک امریکن کیتھولک یونیورسٹی کو مدارس سے کیالینادیناہے ،کیوں وہ مدارس کے فضلا پر فنڈ خرچ کررہی ہے۔یہ سوال واقعی بادی النظر میں سنگین معلوم ہوتاہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کوئی ہندوستان کی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں نہایت اہم موضوعات پر بھی کسی پروجیکٹ کومنظورکرانے میں وزرااورحکام تک کی پیروی کرانی ہوتی ہے۔امریکہ کی ناٹرے ڈیم یونیورسٹی میں جو فنڈنگ ایجنسیاں کام کرتی ہیں ان کے مقاصدواہداف کاپتہ چلے تو ہندوستان کے علماءہی نہیں بلکہ یہاں کے روشن خیال دانشور بھی حیران رہ جائیں گے۔خود پروفیسرابراہیم موسیٰ کہتے ہیں کہ وہاں ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی پروجیکٹ بنتے اورمنظورکیے جاتے ہیں ،وہاں سانپ بچھو کے مسائل کاجائزہ لینے کے لیے پروجیکٹ منظورکیے جاتے ہیں اور ایسے موضوعات کے مطالعہ کے لیے فنڈنگ ہوتی ہے جن کے بارے میں جان کرحیرانی ہوگی ۔چنانچہ پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے مدارس کے فضلا کی فکری افق کو نئی روشنی اورنئی اڑان عطاکرنے کےلئے اپنا پروجیکٹ پیش کیا جسے یونیورسٹی نے منظور کرلیا۔ ظاہرہے اس پروجیکٹ کے پیچھے نہ یونیورسٹی کا کوئی خفیہ مفادچھپاہواہے اورنہ امریکی حکومت کو اس پروجیکٹ سے کوئی مطلب ہے ،البتہ پروفیسر ابراہیم موسیٰ کامفاداس سے ضروروابستہ ہے کہ وہ اس پروجیکٹ سے فضلائے مدارس کے اندرایک فکری انقلاب برپاکرناچاہتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ نوجوان فضلاکی ایک ایسی کھیپ ضرور تیار ہو جائے جو اس مشن کا نمونہ بن کرابھریں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسی فنڈنگ مسلم تنظیمیں کیوں نہیں کرتیں یاہندوستان کی بنارس ہندویونیورسٹی کے پاس ایسے پروجیکٹ کیوں نہیں ہیں ،ان سوالات کے بجائے امریکہ کی یونیورسٹی پر سوال کھڑے کرنااوراس پرشک کرنا نامناسب معلوم ہوتاہے ،دراصل ہم نے ہر اس چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی عادت بنالی ہے جوامریکہ کے راستے ہم تک پہنچے۔یہ رویہ کسی بھی واضح اورمدلل دین کے حاملین کے لیے صحیح نہیں ہے ،یہ بھی شوشہ کہ نئے فضلا مدرسہ ڈسکورسز کے ذریعے گمراہ ہوسکتے ہیں ،یہ ایسا مضحکہ خیز معاملہ ہے جس پر ہنسی ہی آسکتی ہے ،حیرانی ہے کہ مدارس میں دس سال تک تعلیم اورپختہ عقیدہ کی تربیت کے بعدمحض دوبرسوں میں فضلاکو اگرکوئی پروجیکٹ متاثراور گمراہ کردیتاہے تویہ سوال مدارس کے نظام تربیت پر اٹھناچاہیے ۔

راقم الحروف کابراہ راست مدرسہ ڈسکورسزسے کوئی تعلق نہیں ہے البتہ اس کے اولین پروگرام میں مجھے شریک ہونے کاموقع ملااورخود پروفیسرابراہیم موسیٰ صاحب سے بھی ملاقات رہی ،دوسری طرف ہندوستان میں ا س پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر وارث مظہری میرے گہرے دوست ہیں ،میں ان کے علم وفضل کامعترف ہوں اور دینی جذبے کابھی قائل ہوں، وہ ایک مثبت فکرکے ساتھ اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم ہیں اورمیں سمجھتاہوں کہ وہ اس مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس پر دہائیو ںقبل علما ئے اسلام کو اپنی محنت شروع کردینی چاہیے تھی۔آخر میں مفتی یاسرندیم یا غلط فہمی کے شکار دیگراحباب سے اپیل کروں گا کہ وہ محض اندیشے کی بنیادپر کسی مثبت فکر کی رفتارپربریک لگانے کی کوشش کی بجائے مدرسہ ڈسکورسزکے نتائج کاانتظارکریں۔