ڈاکٹر عبدالقادر شمس
یوں توہندوستان میں مودی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعدسے ہی ملک کی مختلف سرحدوں کے راستے دراندازی کرنے والے لوگوں کی شناخت اوران کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ٹھوس حکمت عملی اپنائی جارہی ہے، سنسنی خیز اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی وزارت داخلہ نے تمام ریاستوں کو ایک سرکلر جاری کیا ہے جس کا مقصد ملک کے ہرضلع میں کم از کم ایک ایسا عقوبت خانہ (Detention Center) تعمیر کرنا ہے، جہاں غیرملکی پناہ گزینوں کو دار و گیر اور سخت پہرے میں رکھا جاسکے۔
مرکزی وزارت داخلہ نے تمام ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام علاقوں کی حکومتوں کو 11صفحات پر مشتمل سرکلر بعنوان ” ماڈل ڈیٹنیشن مینول – 2019 “ بھیجا گیا ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ ہرضلع میں کم ازکم ایک نئے قسم کی جیل تعمیر کی جائے، تاکہ چلائے جارہے خصوصی آپریشن کے دوران گرفتار دراندازوں کو اس میں رکھاجاسکے۔ بلاشبہ غیرقانونی طورپر ہندوستان میں رہ رہے لوگوں کو ان کی وطن واپسی کی کوشش پر انگشت نمائی نہیں کی جاسکتی، مگر نہ این آرسی کے نام پر کسی ہندوستانی کی شہریت پر سوال اٹھایاجاسکتاہے اورنہ ہی ملک کے ہرضلع میں عقوبت خانوں کی تعمیر کے ذریعے خوف وہراس کاماحول بنایاجاسکتاہے۔
حکومت کے رویے اورفیصلوں کاجائزہ لیں تو زیادہ تر فیصلوں سے عصبیت کی بو آتی ہے،کیونکہ جب فوجی جوانوں کی شہادت اورپڑوسی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی بات کی جاتی ہے توا س کے پیچھے ملک کی اکثریت کے جذبات کو تسکین پہنچا کر ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، اسی طرح طلاق ثلاثہ پر قانون سازی کامقصد مسلم خواتین کو انصاف دلانانہیں، بلکہ یہ باورکراناہے کہ حکومت اس ملک کے مسلمانوں کی دنیاتنگ کرنے کے لیے غیرعلانیہ طور پر سرگرم ہے اور اب پور ے ملک میں عقوبت خانوں کی تعمیر کامنصوبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ان عقوبت خانوں کی تعمیر کے بعد میانماراوربنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے خلاف جو کریک ڈاﺅن کی مہم تیز کی جائے گی، اس کی آنچ سے ہندوستان کے مسلمان شاید نہیں بچ پائیں گے۔ فی زمانہ آسام میں این آرسی کے نام پر لاکھوں ایسے مسلمان بھی مشکوک نگاہی کا شکار ہیں، جن کی کئی پشت سے اہل خانہ ہندوستان میں آبادہیں۔ایسے میں ہم کس طرح یقین کرلیں کہ جب گاؤں گاؤں میں غیرقانونی طورپر یہاں رہ رہے لوگوں کی فہرست سازی شروع ہوجائے گی تو جینون لوگ عقوبت خانوں کے آپریشن سے بچ جائیں گے۔
وزارت داخلہ کی کمان سنبھالنے کے بعد امت شاہ کے 2 منصوبے ایسے ہیں جن پرعمل آوری سے یہاں کے مسلمانوں کے اندربے چینی اوراذیت کی سی کیفیت فطری امرہے۔معاملہ صاف ہے کہ میانمار کے پناہ گزینوں کو گلی کوچوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالنے کی بات ہویا بنگلہ دیشی دراندازوں کی دنیاتنگ کرنے کامنصوبہ ہو،اس کاردعمل یہاں کے مسلمانوں میں لازمی طور پر ہوگا،کیونکہ ان کلمہ گو افرادسے ان کی جو فطری ہمدردی ہے، اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ظاہر ہے کہ اس ملک میں جوبھی غیرقانونی طورپر رہ رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اوراس پر بھلامسلمانوں کو کیا اعتراض ہوسکتاہے مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ اس آپریشن کی زدمیں یہاں کے وہ مسلمان بھی آسکتے ہیں جو اس ملک کے شہری ہیں۔ایسے خدشات اس لیے ہیں کیونکہ اس ملک کے مسلمان مفلسی کی وجہ سے غریب الوطنی کے بھی شکار ہیں اورتلاش معاش انہیں آج یہاں توکل کہیں اور جانے پر مجبورکرتی ہے،ایسے لوگوں کی شہریت پر سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ چند دنوں قبل تھانہ بھون اور جلال آبادسے گرفتار طلبا اور علما کے پاس کئی شناختی کارڈ موجود تھے، اس کے باوجود انہیں جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہونا پڑا۔
حکومت جو عقوبت خانے تعمیرکرانے کی تیاری کررہی ہے، اس کامقصدجوبھی ہو لیکن تاریخ کے اوراق میں اس طرح کے عقوبت خانوں کی ایسی خونچکاں داستان محفوظ ہے کہ ان کے تصورسے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ہٹلر کی ہیبت آج تک اسی لیے دنیاپر طاری ہے کہ وہ ایسے عقوبت خانوں میں اپنے مخالفین کونہ صرف قید کرتا تھا، بلکہ وہاں ظلم وزیادتی کے تمام تجربے انجام دیے جاتے تھے۔حال کے دنوں میں امریکہ کی نگرانی میں قائم گوانتاناموبے کے قیدخانے کی رونگٹے کھڑے کرنے والی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، اس لیے تشویش ہونا فطری ہے۔
گرچہ حکومت نے اپنے سرکلر میں کہاہے کہ ڈیٹنیشن سینٹروں کوجملہ سہولتوں سے آراستہ کیا جائے، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت درج ہے کہ ایسے سینٹروں کے گرد 10 فٹ اونچی اونچی دیواریں تعمیر کی جائیں اور ان بلند و بالا دیواروں پر خاردارباڑھ بھی لگائی جائے، یہ ہدایت اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ وہ عقوبت خانے کوئی گیسٹ ہاؤس نہیں ہوں گے، بلکہ وہاں سختیوں اوراذیتوں کے لیے اہلکاروں کے ہاتھ بندھے نہیں رہیں گے۔ واضح ہوکہ کچھ ایسے سینٹر آسام کے بعض اضلاع میں پہلے سے قائم ہیں، جہاں کی خراب صورتحال اوروہاں رواغیرانسانی سلوک کو دیکھتے ہوئے مشہور ایکٹیوسٹ اورسابق آئی اے ایس افسر ہرش مندرنے مفادعامہ کی ایک عرضی سپریم کورٹ میں دائرکی ہے، جس میں کہاگیاہے کہ آسام میں قائم پناہ گزیں کیمپوں کی حالت نہایت خراب ہے، جہاں انسانی حقوق کی پامالی کھلے عام ہورہی ہے۔خیال رہے کہ آسام میں ہی سب سے زیادہ پناہ گزیں کیمپ ہیں، جہاں مشکوک بنگلہ دیشیو ںکو رکھاگیاہے۔
اب تک ہندوستان کے مختلف مقامات پر جو پناہ گزیں کیمپ ہیں وہ یا تو اقوام متحدہ کے تعاون سے چلتے ہیں یاپھر انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیموں کی مددسے وہاں مقیم لوگوں کی رہائش و دیگر امور انجام پاتے ہیں، زیادہ تر کیمپ مقامی جیلوں کی نگرانی میں ہیں، حکومت ہند ان کی بازآبادکاری کے تئیں نہایت سردمہری کا ثبوت دیتی رہی ہے، مگراب نئے سرے سے حکومت نے ایسے پناہ گزیں کیمپوں کے قیام کا خاکہ پیش کیاہے جو جیلوں کے کیمپس سے باہر ہوں گے اوروہ پولیس کی سخت نگرانی میں رہیں گے، تاکہ جب وہاں رکھے گئے لوگوں کو جلاوطن کیاجائے تو حکومت کو انہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
حکومت کے اس منصوبے کو مثبت انداز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، مگر منظر وپس منظر اورحکمرانوں کے رویے کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتاکہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اس لیے حکومت کے اس اقدام کا معروضی جائزہ لینا اوراس کے نفع و نقصان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے اہل وطن کو باخبر کیا جاناضروری ہے۔اس کے لیے ملک کی اپوزیشن جماعتوں، حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور صحافیوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں ایک واضح موقف سے ہم وطنوں کو بھی واقف کرائیں اور حکمرانوں کو بھی اس کے نتائج سے باخبرکرائیں۔
shams.sahara@gmail.com