فرقہ واریت کا سنسنی خیز سروے

ڈاکٹر عبد القادر شمس

تیز رفتار ترقی کرنے ولا ہندوستان اب تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کیوں شامل نہیں ہوسکاا س کی سب سے بڑی وجہ کچھ لوگ یہاں ناخواندگی کو مانتے ہیں ،کچھ گروپوں کا خیال ہے کہ صحت کی ناگفتہ بہ حالت نے اس ملک کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے،ایک حلقہ غربت کو قصوروارمانتاہے توکچھ لوگ اس کاٹھیکرا قدرتی آفات پر پھوڑتے نظرآتے ہیں،ایک گروہ ایسابھی ہے جن کا خیال ہے کہ اس ملک کو آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے لیکن ایک بہت بڑاطبقہ وطن عزیز کی ترقی میں بدعنوانی اورکالابازاری کو سب سے بڑی رکاوٹ قراردیتاہے لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ ملک کی تعمیر وترقی کی راہ میں فرقہ واریت کاایک جنونی بھوت کھڑاہے جو بظاہرنظرنہیں آتا لیکن وہ گھن کی طرح اس ملک کے تمام سماجی رشتوں کے تانے بانے کو تباہ کرنے پر مصرہے،میرے اس خیال کی تصدیق چنددنوں پہلے سامنے آئے سینٹر فاردی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی(CSDS) کی سروے رپورٹ سے ہوتی ہے جس میں صاف طورپریہ بات سامنے آئی ہے کہ فرقہ واریت کی آگ اس ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو مٹانے پر آمادہ ہے اوراگر جلد ا س پر توجہ نہیں دی گئی توپھر یہ آگ جھونپڑیوں کو بھی جلائے گی اورقصرسلطانی کوبھی۔
’’سوسائٹی اینڈ پولیٹکس بٹوین الیکشنس ‘‘نامی تازہ سروے نے پورے ملک کے باشعور اورفکرمندلوگوں کو ہلاکررکھ دیاہے ،سی ایس ڈی ایس کے تحت ہوئے اس سروے کے مطابق ہندوستان میں دوستی اوردشمنی کامعیارمذہبی بنیادیں بنتا جارہا ہے۔سی ایس ڈی ایس کے مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگ دوستی کرتے وقت ایک دوسرے کے مذہب کودیکھ کرہی آگے بڑھتے ہیں،اس میں ہندوؤں کی سوچ کافی تنگ ذہنی پر مبنی ہے جب کہ مسلمان کچھ وسیع القلب واقع ہوئے ہیں۔سروے کے مطابق دوسرے مذہب کے ماننے والے سے دوستی کرنے کے معاملے میں صرف 33فیصدہندو ہی مسلمانوں کو اپنا دوست بنانا پسندکرتے ہیں جب کہ 74فیصد مسلمان ہندوؤں سے دوستی کے خواہاں ہیں۔ اس ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگ اپنے اپنے مذہب کے لوگوں سے ہی دوستی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔سی ایس ڈی ایس نے مختلف نکات کو سامنے رکھ کر جو نتائج اخذکیے ہیں ان کے مطابق گجرات، ہریانہ، کرناٹک اور اڑیسہ میں صورتحال بے حدخراب ہے،کیونکہ ان ریاستوں میں مذہبی بنیادوں پر کافی دوریاں محسوس کی گئی ہیں اورگنگاجمنی تہذیب کے جملہ راہ ورسم یہاں ہواہوتے نظرآرہے ہیں۔سروے میں اس بات کو بھی محسوس کیاگیاہے کہ مسلمانوں میں عدم تحفظ کااحساس بڑھاہے جس کی وجہ سے وہ آبادی کے لحاظ سے مرتکزہوگئے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اس منفردمطالعہ میں مذہب کی بنیاد پر حب الوطنی کوبھی ناپنے کی کوشش کی گئی ہے ۔چنانچہ ملک بھر کے صرف 13 فیصد ہندو ہی ایسے ہیں جو مسلمانوں کو سچا محب وطن تصورکرتے ہیں جبکہ 20 فیصد ہندو، عیسائیوں کو اور 47 فیصد سکھوں کو محب وطن سمجھتے ہیں۔اس مطالعہ میں یہ بھی دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں کے تئیں ہندوؤں سے زیادہ اعتدال پسند رویہ عیسائیوں کا ہے جب کہ26 فیصد عیسائی مسلمانوں کو سچا محب وطن سمجھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ ظاہرکیاگیاہے کہ 66 فیصد سکھ ہندوؤں کو سچا محب وطن تصورکرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دکھایاگیاہے کہ خود کو کون کتنا حب الوطن سمجھتاہے، اس کے مطابق 77 فیصد مسلمان خود کو محب وطن ہونے کادعویٰ کرتے ہیں۔ریسرچ میں بہت سے سوالات قائم کیے گئے تھے تاکہ مختلف رجحانات کو اخذکیاجاسکے،چنانچہ یہ بھی پوچھاگیاتھاکہ گائے کے ذبیحہ پر کیا سزا ملنی چاہئے، قومی ترانہ پر کھڑانہ ہونے والے ، وندے ماترم گانے سے احترازکرنے والے یا گوشت کھانے والے لوگوں کے ساتھ حکومت کاکیارویہ ہوناچاہیے ،ان جیسے متعدد سوالات پر لوگوں کاکیاردعمل ہے ،اس کی روشنی میں ایک نتیجہ اخذکرنے کی اس رپورٹ میں کوشش کی گئی ہے۔ تقریبا 72 فیصد لوگوں کا ردعمل نہایت سخت اورجارحانہ تھا جبکہ ان میں17 فیصد لوگوں کو کم اعتدال پسندقراردیاجاسکتاہے اور محض 6 فیصد لوگوں کو اعتدال پسند کہاجاسکتاہے ۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ جس ملک کی مٹی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی رچی بسی تھی اسے آخرکس کی نظرلگ گئی کہ صورتحال اس قدرخراب ہوگئے ہے۔آخر ایسی نوبت کیوں آگئی ہے کہ کسی ہندوکودیکھ کرمسلمان آپس میں سرگرشیاں کرنے لگتاہے اورکسی مسلمان کودیکھ کر ہندوؤں کارویہ اچانک تبدیل ہوجاتاہے۔آخر وہ دورکہاں چلاگیاجب مندرکے پیاؤ سے مسلمان پانی پیتے تھے اورمسجدوں کے باہر ہندوعورتوں کی قطاررہتی تھی جو اپنے بچوں کی صحت وتندرستی کی دعاکراتی تھیں۔ہندواورمسلمان ایک دوسرے کی تقریبات میں کس طرح گھل مل کر خوشیاں بانٹتے تھے وہ مناظر کہاں غائب ہوگئے ۔اگرہم جائزہ لیں تواندازہ ہوتاہے کہ کچھ سیاست دانوں نے ووٹوں کی صف بندی کے لیے سیکڑوں سالہ الفت ومحبت کو تاراج کردیااوراس میں سبھی سیاسی جماعتیں یکساں طورپر ذمہ دارہیں،اسی طرح فرقہ وارانہ فسادات نے بھی دونوں طبقوں میں دوریاں پیداکی ہیں ۔فسادات کانگریس کے عہدمیں زیادہ ہوئے لیکن گجرات فسادات نے فرقہ واریت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی،پھر تویہ دوریاں مٹنے کانام نہیں لے رہی ہیں ۔
اگرہم انتخابی سیاست کاجائزہ لیں تواندازہ ہوتاہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوارکے طورپرنریندرمودی نے نہایت تکنیک سے ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کی تھی۔انہوں نے فیض آبادجاکرنہ صرف رام راج کی بات کی بلکہ رام مندرکاماڈل دکھاکریہ پیغام بھی دیاکہ انہیں اگراقتدارسونپاگیاتووہ ضروربھویہ رام مندرتعمیرکرائیں گے۔وہ جب بہارگئے توانہوں نے وہا ں’پنک ریولیوشن‘کی بات کی اورواضح طورپرگوشت خوروں اوراس کاکاروبارکرنے والوں کو چیلنج بھی کیااوراشاروں اشاروں میں گؤہتھیاکی بات بھی اچھال دی،اسی طرح جب وہ آسام گئے تووہاں انہوں نے بوڈولینڈ کے حامیوں کی پیٹھ تھپتھپائی اوربنگلہ دیشی گھس پیٹھ کی بات اٹھاکر ہندواورمسلم رائے دہندگان کے درمیان ایک لکیرکھینچ دی۔نریندرمودی نے بنارس سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی سوچ سمجھ کرکیا،کیونکہ ہندوآستھاکے اس مرکز سے وہ پورے ہندوستان میں نہایت خاموشی سے فرقہ واریت اورہندوتوکاپیغام دینا چاہتے تھے۔انہوں نے کاشی جاکرکہاکہ مجھے نہ کسی نے بھیجاہے اورنہ میں خود آیاہوں بلکہ مجھے تو گنگانے بلایاہے ،اسی طرح انہوں نے ’ہرہرمودی ،گھرگھرمودی‘کے بھی نعرے لگوائے جن کا صاف مقصدیہی تھا کہ وہ رائے دہندگان کی فرقہ وارانہ صف بندی چاہتے تھے۔ظاہرہے کہ ووٹوں کے لیے اس قسم کی کوششیں دوفرقوں میں دوریاں ہی پیداکرسکتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کے لیے صرف نریندرمودی سرگرم رہے ہیں بلکہ اس کام میں بہوجن سماج پارٹی،آرایل ڈی،سماجوادی پارٹی اورکانگریس کے لیڈران بھی کچھ کم نہیں ہیں،انہوں نے بھی کہیں مذہب کے نام پر توکہیں ذات برادری کے نام پر ووٹروں کی صف بندی کی ہے ۔
سیکڑوں سالہ ہندوستانی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں کبھی ایسی کیفیت دیکھنے کو نہیں ملی جن سے آج کا ہندوستان دوچارہے۔اس ملک میں شہنشاہوں ،راجہ رجواڑوں اوربھانت بھانت کے نظریات والے حکمرانوں کا بھی دورآیا اور انگریزوں کے اقتدارکاسورج بھی طلوع ہوا لیکن فرقہ واریت کو کبھی اتنا عروج حاصل نہیں ہواجتنا فی زمانہ نظرآرہاہے۔
کہاجاتاہے کہ فرقہ واریت عام طورپر کسی بھی اقلیتی اکائی کے درمیان ابھرتی ہے اوراس کی وجہ بھی ہوتی ہے کیونکہ اقلیتوں کو حرماں نصیبی ،ناانصافی اورعدم تحفظ فرقہ واریت کے خول میں جانے پر مجبورکرتی ہے لیکن ہندوستان میں فرقہ واریت اکثریتی طبقہ کا طرۂ امتیاز بن گیاہے اوراب تو اکثریتی طبقہ فرقہ واریت اورتعصب کی گنگامیں ہرروز غوطے لگارہاہے۔فرقہ واریت نہ صرف انتخابی میدانوں تک محدودہے بلکہ اب تو ہرمیدان میں اس نے اپنی جگہ بنالی ہے۔آج فرقہ واریت کا زہر تمام شعبۂ حیات میں سرایت کرگیاہے، تعلیم کا شعبہ ہویا سیاست کا ،مقننہ ہویا منتظمہ ہرجگہ فرقہ واریت کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اس کے باوجود سیکولرمزاج لوگوں کی ایک بڑی تعدادہے جن کی وجہ سے یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ ایسے سیکولرذہن لوگوں کے افکارونظریات سے حکومتیں فائدہ اٹھائیں اور ملک میں فرقہ واریت کی جڑوں کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کے ساتھ ساتھ سیکولراقدارکے فروغ کے لیے تیزگام ہوجائیں۔ورنہ فرقہ واریت کے جنونی اس ملک کو خطرناک موڑ پر لے جاکر بے یارومددگار چھوڑ دیں گے۔
(کالم نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سیئنر سب ایڈیٹرہیں)