حفیظ نعمانی
2014 ءسے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مکمل اکثریت کے ساتھ اگر بی جے پی کی حکومت آئے گی تو وہ حکومت کے لئے اتنا گھٹیا معیار پسند کرے گی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ دس سال پہلے پارٹی کے سرتاج اٹل بہاری باجپئی چھ سال وزیراعظم رہے اور انہوں نے ہر وزیراعظم سے زیادہ اس کی کوشش کی کہ اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات ہوں اور ملک میں بھائی چارہ ہو وہ پاکستان جس کی مخالفت میں جیسی آتش فشانی کبھی اٹل جی نے کی تھی اتنی سب نے مل کر نہ کی ہوگی۔ مگر وزیراعظم بننے کے بعد وہ کیا جو نہ پنڈت نہرو کرپائے نہ اندرا گاندھی اور نہ راجہ وشوپرتاپ سنگھ۔ اور ان کی یہی ادائیں تھیں کہ اپنی سیاسی زندگی میں جتنے وہ مسلمانوں پر برسے اور کشمیر کے بارے میں جیسے جیسے زہریلے بیان دیئے لیکن جب وزیراعظم یعنی پورے ملک کے سربراہ ہوئے تو اتنا پیار لٹایا کہ ہر مسلمان اچھے الفاظ میں ان کو یاد کرتا ہے اور ہر کشمیری صرف ایک بات کہتا ہے کہ جو اٹل جی کہتے تھے وہ کرو۔
اب یہ بات یا تو وہ لوگ جانتے ہوں گے جو اُن کے قریب تھے یا ان کی فطرت ہی ایسی تھی کہ اگر ان کو موقع ملا ہوتا تو وہ ایک مثالی ہندوستان بناکر دنیا سے جاتے۔ 460 دن مودی جی کی حکومت دیکھنے کے بعد ہم اب اپنے آپ سے اس لئے شرمندہ ہیں کہ 2004ء میں جب اٹل جی نے مسلمانوں کو آواز دی تھی اور دل کے درد کے ساتھ کہا تھا کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہے اس وقت ان کی مخالفت کرنے والوں میں ہم بھی پیش پیش تھے۔ آج یہ سوچ سوچ کر افسردہ ہیں کہ وہی وزیراعظم بن کر بیمار ہوتے تو وہ جن ہاتھوں میں حکومت چھوڑکر جاتے وہ حکومت کو اور ہندو سماج کو اتنا تو ہرگز نہ گراتے کہ بھانگ، چرس اور گانجے کے دم لگاتے اور جسم کو آدھے کپڑوں سے بے نیاز کرتے بھنگڑہ ڈالتے ہوئے کانوڑیوں کے جلوس پر ڈی ایم اور ایس پی کو ہرگز حکم دیتے کہ وہ ان کے اوپر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائیں اور نہ یہ برداشت کرتے کہ جو مسلمان گائے کی رسّی پکڑے خریدی ہوئی گائے لئے جارہا ہے اسے قصائی یا اسمگلر کہہ کر پہلے لوٹ لو پھر پیٹ پیٹ کر مار ڈالو۔
اٹل جی خود آر ایس ایس کے پروردہ تھے یہ تو ظاہر ہے کہ وہ موہن بھاگوت کے شاگرد تو نہیں ہوسکتے اور اٹل جی کے زمانہ کے نہ جانے کتنے جن سنگھی ہمارے پریس میں چھپوانے آتے تھے اور اگر کام زیادہ ہوتا تھا تو گھنٹوں گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے اور ہم سے سیاسی باتیں کیا کرتے تھے۔ انہیں اس سے انکار نہیں تھا کہ نئے لڑکوں کو مسلمانوں کی جو تصویر دکھاتے تھے وہ بھیانک ہوتی تھی۔ لیکن ایسی نفرت نہیں ہوتی تھی کہ یہ سکھایا جائے کہ ان کو مارو سارا زور اس پر ہوتا تھا کہ اگر وہ کانگریس کو ووٹ نہ دیں تو حکومت اپنی بن سکتی ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ حالات اتنے خطرناک نہیں تھے کہ بزرگوں میں سے کسی نے آر ایس ایس کے سربراہ سے اس معاملہ میں گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن آج صورت حال اس لئے زیادہ تشویش ناک ہے کہ نوجوان ہندو کو بے ادب اور بے لگام بنایا جارہا ہے اور پولیس میں بھی جو نئی بھرتی ہورہی ہے اسے بھی اس کی فکر نہیں ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ کس نے کس کو مارا اور جب اپنی رپورٹ دے رہی ہے تو مقتول کو ہی گناہگار قرار دے رہی ہے۔ راجستھان میں پہلو خان اور اکبر کے معاملہ میں ہندو غنڈوں سے زیادہ بڑی مجرم پولیس ہے۔ راجستھان کی موجودہ حکومت اس کی کوشش کررہی ہے کہ ملک کو یہ تاثر دیا جائے کہ پہلے حکومت انسان دشمنی تھی اور اب انصاف پسند ہے لیکن وہ بھی پولیس کے دماغ سے یہ کہاں نکال سکتی ہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی اب ہم وہ لکھیں گے جو حقیقت ہے۔ چند ریاستوں میں حکومت تبدیل ہونے سے ملک کا مزاج تبدیل نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم کا پارلیمنٹ کے اندر یہ کہنا کہ 2014ء میں ہم جیل کے پھاٹک تک لائے تھے اور اب ان کو جیل کے اندر کرنا ہے۔ اور یہ کہہ کر خود روس چلے جانا اور سی بی آئی جج کے ذریعہ چدمبرم کو جیل کے اندر بھجواکر دل کی آگ بجھانا۔ شاید اٹل جی یہ کبھی نہ کرتے ۔
اب اگر مولانا ارشد میاں نے آر ایس ایس کے سربراہ سے ملک کے حالات پر بات کرنا ضروری سمجھا تو یہ بروقت مبارک قدم ہے۔ اس وقت پورے ملک میں اکیلے مولانا ارشد میاں ہیں جو ہر مورچہ پر تنہا لڑرہے ہیں مولانا سے کسی نے نہیں کہا تھا کہ مسلم دشمنی اور مسلم کشی کے جذبہ کے تحت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مسلمانوں کو ہر صوبہ اور ہر شہر میں انتہائی خطرناک دفعہ کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے ان کے لئے کچھ کیجئے۔ حضرت مولانا نے خود ہی سوچا اور پھر نہ جانے کتنے کروڑ روپئے خرچ کرکے سپریم کورٹ سے ان کو باعزت رہا کرایا اگر مولانا نے یہ قدم نہ اٹھایا ہوتا تو نہ جانے کتنے جیل میں مرگئے ہوتے اور سیکڑوں مزید بند کردیئے جاتے یہ حکومت کی بے انتہا ذلت ہوئی ہے کہ اس کے کارندوں نے جتنوں کو پکڑا سب باعزت بری ہوگئے۔
چھ سال پرانے مظفرنگر کے جاٹوں کے ہاتھوں بے گھر کئے جانے والے مسلمانوں کو برابر مکان بناکر دیئے جارہے ہیں۔ ان میں مولانا محمود میاں نے بھی حصہ لیا اور مکان بنائے لیکن جو بات پہلے ہوجانا چاہئے تھی کہ مولوی محمود میاں اپنے چچا صاحب کو مولانا اسعد میاں کا جانشین مان لیتے تو نہ جانے کیا کیا ہوگیا ہوتا؟ بہرحال اب جمعیۃ کے تمام حضرات دیکھ رہے ہیں کہ مولوی محمود میاں سمٹتے جارہے ہیں، درمیان میں انہوں نے استعفیٰ بھی دینا چاہا تھا جو نہیں دینے دیا گیا لیکن رفتہ رفتہ مولانا ارشد میاں اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کا علمی مقام لے رہے ہیں جو مولانا اسعد میاںؒ اپنی کم علمی کی وجہ سے کبھی نہ لے سکے اور وہی جمعیۃ علماء ہند کے ایسے ہی صدر بننے والے ہیں جیسے شیخ الاسلام تھے۔ پورے شمالی ہند میں شاید ہی کسی نے کیرالہ کے پچھلے اور اس سال کے سیلاب میں ان کی کوئی مدد کی ہو لیکن مولانا ارشد میاں نے ثابت کردیا کہ وہ پورے ملک کے مسلمانوں کے سرپرست ہیں اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ انہوں نے نہ بریلوی دیکھا نہ خانقاہی نہ وہابی دیکھا نہ قبر پرست جسے مسلمان سمجھ کر بند کیا مولانا نے اسے باعزت بری کرایا اس کے بعد بھی اگر کسی کو یہ مداخلت اچھی نہیں لگی تو دو چار مقدمے وہ لڑکر اسیروں کو رِہا کرادے کون راستہ روکتا ہے؟
رابطہ: 9984247500