ایک تعلیمی سفر

امتیاز نوارنی 

دس بارہ سال قبل جب ہندستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں، شری ملائم سنگھ کی حکومت ہوا کرتی تھی اور محترم اعظم خان صاحب ، اس وقت اترپردیش کے نائب وزیر اعلی ہوا کرتے تھے، اعظم خان صاحب نے مسلم امہ هند،خصوصاً مسلمانان رامپور اتر پردیش کے سامنے، ہندستان کے ما قبل آزادی هند کے مسلم رہنما المحترم مولانا محمد علی جوہر کے نام نامی سے ایک مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کا حسین خواب دکھایا تھا. ہاں یہ وہی مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمۃ ہیں، جنہیں انگریزوں کی طرف سے انگلینڈ میں 12 نومبر 1930 سے 19 جنوری 1931 تک ارستھ دن پر مشتمل،تین سیشن میں رکھی گئی، مختلف نششتی گول میز کانفرنس کے لئے انگریز سامراج کے ریاست هند کی نمائندگی کرنی تھی، اس وقت تو تقریبا آدهی دنیا پر حکومت کرنے والے انگریزوں نے، هندستان کے مغلیہ دور حکومت میں، هند کی ترقیات و تعلیم یافتگی کی بڑی شہرت سنی تھی.جب مائیک پر ہندستان کی طرف سے نمائندگی کے لئے مولانا محمد علی جوهر کو، مسٹر انڈیا کے طور، اسٹیج پر، بلایا گیا اور انگریزوں کی توقعات کے برخلاف لمبی شیروانی زیب تن کئے، ٹوپی داڑھی کے ساتھ اسٹیج پر، پہلی دفع مولانا نمودار ہوئے تو، پورا ہال، مسلمانوں کی تضحیک میں کھل کھلا کر ہنس پڑا. ان کے خیال میں یہ مولانا ان انگریزوں کے سامنے لب کشائی کی بھی جرآت نہیں کرپائے گا، مولانا محمد علی جوهر کو اپنی تضحیک پر غصہ تو بڑا آیا تھا لیکن انہوں نے، دل ہی دل میں درود ودعا پڑھنے کے بعد، اپنے خطاب کو کچھ اس طرح شروع کیا تھا “یو برٹشر، ہوس مدر ٹنگ از انگلش، ناؤ مسٹر انڈیا از گو انگ ٹو اسپیک وتھ یو. آئی چیلنج، یو برٹشر . یو هیو تو اوپن آپ یور ڈکشنریز، ایٹ لیس تهرائز”

  “You Britishers, who’s Mother tongue is Eglish, now Mr India is going to adress you,I challenge، you Britishers، has to open up your dictionaries at least thrice”  

“تم انگریزی زبان بولنے والے برطانوی شہری،اب مسٹر انڈیا تم سے مخاطب ہونے جارہا ہے۔ہم تمہیں چیلنج کرتے ہیں کہ تم اپنی مادری زبان انگریزی کے جاننے والے ہونے کے باوجود، ہمیں سمجھنے کے لئے، تم تین تین بار ڈکشنری کھولنے پر مجبور ہوجاؤگے”

 چونکہ مولانا محمد علی جوہر 1923 ہی میں آنڈین نیشنل کانگریس کے صدارت کے منصب پر براجمان رہ چکے تھے اور 1930 تک آزادی ھند کی جدوجہد اور برٹش حکومت سے عدم تعاون زوروں پر تھا اس لئے اس وقت اپنی تقریر کے اختتام پر مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمہ نے، ملکہ برطانیہ کو مخاطب کر یہ الفاظ بھی کہے تھے جو تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہ گئے ہیں ۔ مولانا نے اس وقت کہا تھا “میں اپنے ہی جائے پیدائش،ملک ھندستان، جو اس وقت انگریزوں کی غلامی کی ایک ریاست ہے، میں اس غلام ملک میں زندہ رہنے کے بجائے،پردیس کی، آزاد فضا میں،مرنا پسند کرونگا”۔ اللہ رب العزت کو اپنے بندے کی یہ ادا شاید پسند آگئی تھی یا بارگاہ ایزدی نے اپنے محبوب کی زبان سے نکلی بات کو سچ کرنا مناسب سمجھا تھا کہ کانفرنس کے اختتام سے صرف 15 دن قبل، عارضہ قلب کے شکار بن، 4 جنوری1931 کو مولانا انتقال کرجاتے ہیں۔ انکی موت کے بعد، انکے اہل خانہ کے مشورہ سے، ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے، انکا جسد خاکی، یروشلم فلسطین میں لے جاکر دفن کر دیا جاتا ہے۔ آج بھی یروشلم فلسطین میں، انکی قبر پر انکا نام “السید محمد علی الھندی” لکھا ہوا ملیگا۔ مولانا محمد علی جوہر ہی کی جائے پیدائش رام پور یوپی کے مردآہن، ہم مسلمانوں کے سیاسی لیڈر المحترم اعظم خان صاحب نے، آزادی ھند کے لیڈر محمد علی جوھر علیہ الرحمہ کے نام سے، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور ہم مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے، محمد علی جوھر یونیورسٹی کے قیام کا جو بیڑا صرف اٹھایا ہی نہیں بلکہ عملی طورعالیشان یونیورسٹی قائم کر، اپنے خواب کو شرمندہ بھی کیا ہے، یقینا مولانا محمد علی جوھر کے ساتھ ہی ساتھ اعظم خان کا نام نامی بھی، مستقبل کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تاریخ میں سنہرے لفظوں سے لکھا جائیگا۔                

          محترم اعظم خان صاحب ہمیشہ، اپنی تقریر میں, ایک بہت ہی پیاری بات کہا کرتے ہیں جو آج تک ہمارے ذہن میں محفوظ ہمیں، یعنی مسلم امہ کی خامیوں کے لئے کچو کے لگاتی رہتی ہے۔

  اعظم خان صاحب نے، ان کی سیاسی حریف، بہن مایاوتی کا نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ، بہن جی کی خوبیوں کے ساتھ ہی ساتھ، تمام تر اس کی خامیوں کو نظر انداز کر، اس کی دلت قوم، پوری شدت کے ساتھ اس کی پشت پر کھڑی ملتی ہے، اسی لئے وہ آج بھی کامیاب سیاست دان ہیں۔جب کہ ہماری قوم مسلم، اپنے لیڈروں کی خوبیوں کو پس پشت رکھا کرتی ہے، قوم کے تئیں ان کی قربانیوں کو یکسر فراموش کردیا کرتی ہے، ان میں پائے جانے والی ایک آدھ بشری خامیوں پر، بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے، ہمہ وقت انکے خلاف، مخالفت کا بازار گرم کئے،ان کے پاؤں کھینچنے میں مست و مصروف  پائی جاتی ہے۔

{{ اس تمدنی ترقی یافتہ دنیا کو، تعلیم یافتہ بنانے کے لئے، سب سے پہلی اور دوسری عالمی یونیورسٹیز، خلیفہ راشدہ اسلامیہ کے دور میں آج سے بارہ سو سال قبل مسلم حکمرانوں نے بنائی تھیں۔ لیکن اب عالمی معیار کی انورسٹیز میں، کسی مسلم یونیورسٹی کا نام, دور دور تک نہیں لیا جاتاہے۔ ہندستان  کی مسلم یونیورسٹیز جامعہ ملیہ،جامعہ عثمانیہ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، یہ تینوں مسلم یونیورسٹیز ماقبل آزادی ھندکے دور کی ہیں۔ آزادی ھند پر آج ستر سال گزرنے کے باوجود، آج تک سوائے محمد علی جوہر یونیورسٹی کے،کوئی بھی مسلم یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی ہے۔ }}

آزادی بند کے بعد سے اب تک، پورے ہندستان میں بیسیوں نامور سیاست دان گزرے ہیں۔ اپنے اپنے وقت میں ان کی خدمات اپنی جگہ، لیکن بعد آزادی ھند،ستر سال بعد، تعلیمی اعتبار سے چمنستان ہندستان کی، اب تک کی سب سے پس ماندہ قوم مسلم کو، تعلیمی آگہی دلاتے ہوئے، ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے، زیرک سیاست دان، اعظم خان نے، آزادی کے ھیرو، محمد علی جوہر کے نام نامی سے، عالمی معیار کی تعلیمی یونیورسٹی بنانے کے مشن کو، اپنی زندگی کا مقصد حیات بنا لیا تھا۔

اعظم خان صاحب اگر چاہتے تو اپنی آل کے بہتر مستقبل کے لئے، بہت بڑے تاجر، یا انڈسٹریلسٹ بن کر، شاندار عیش و عشرت والی زندگانی جی سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے قوم مسلم کو، تعلیمی آگہی کا پاٹھ پڑھانے کا، خاردار راستہ اپنے لئے چنا۔  اپنے سیاسی اقدار کے حوالے سے،ان سے مستفید ہونے والوں سے بھیک میں، چندہ مانگ مانگ کر، عظیم الشان محمد علی جوھر یونیورسٹی کے اپنے خواب کو پورا کیا ہے۔

 

{{ محمد علی جوھر یونیورسٹی کی عالیشان عمارتیں، ان عمارتوں کے بلند دروازے ،  ہندستانی پارلیمنٹ اور صدارتی محل کی مماثلت کرتے، ہم ہندستانیوں کو فخر سے اپنا سر اونچا کر، جینے کی ہمت  عطا کرتے ہیں۔ ایسے میں محمد علی جوھر یونیورسٹی، بھلے ہی محترم اعظم خان نے قائم کی ہو،  لیکن یہ انکی ذاتی ملکیت نہیں ہے، یہ ہندستانی قوم  مسلم کا سرمایہ حیات ہے، مسلم امہ کے شاندار تعلیمی سفر کی تمثیل ہے، قوم کے غریب و پس ماندہ نوجوان نسل کی تعلیمی تربیت گاہ ، اور ہمارے روشن مستقبل کی چمکتی دمکتی جولان گاہ ہے۔ }}

2014 کے بعد سے ھند پر قابض سنگھی حکمرانوں کے لئے، ایسا  خاردار  نصب العین ہے، جو وہ کسی بھی صورت زیر ہوتے دیکھنے کے متمنی ہیں۔اسے نیست و نابود کرنے کے لئے،بے قرار ان سنگھئوں کا چین و سکون، کسی بھی قیمت پر، محمد علی جوھر یونیورسٹی کو، قفل بند حسرت ویاس کا منبع بنانے پر مضطرب و مضمحل ہے۔

ابھی چند دنوں قبل ہی کی بات ہےجب میں نے خبروں میں اعظم خان کے تعلق سے پڑھا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اقیلت کا ایک ایسا ادارہ جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں طالب علموں نے اپنے آپ کو مستفیض کیا اور دینا کے ہر گوشے میں پہنچ کر وطن عزیز کا نام روش کر رہے ہیں ایسے ادارے پر حکومت کی بری نظر ایسے پڑی کہ اقیلت کا ایک منفرد ادارہ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا، لہٰذا احقر کے دل میں ایک عجب و غریب کیفیت طاری ہوئی اور پھر اپنی ایک ٹیم لیکر رام پور پوری یونیورسٹی کا جائزہ لینے پہنچ گیا ۔ قوم و ملت کا درد اپنے گلو میں لئے دہلی سیاست کی مشہور شخصیات، عالیجناب امان اللہ خان صاحب ایم ایل اے، اوکھلا اور چیرمین دہلی وقف بورڈ، واجد خان صاحب اور عبدالرحمن صاحب کونسلر دہلی ایم سی ڈی،بھی میرے ساتھ رہے، ہم سب یونیورسیٹی کیمپس پہونچے لیکن اعظم خان صاحب وہاں نہیں تھے لہذا ان سے ملاقات ممکن نہ ہو سکا لیکن عبد اللہ اعظم سے یونیورسیٹی کیمپس میں ملاقات ہوئی ۔

  اس سر زمین ھندستان میں کون سا ایسا ایک ادارہ ،ایک صنعتی یا تجارتی گھرانہ، ایسا ملے گا؟ جو صد فی صد قانون کی پاسداری کرتا پایا جارہا ہے،یقینا قانون وقت کی پاسداری ہم سبھوں کے لئے نہایت ضروری ہے، لیکن ان عظیم مقاصد کے حصول کے لئے، جانے انجانے میں ہوئی لغزشوں کو نظر انداز کر آگے بڑھا جاتا ہے۔لیکن مودی یوگی سنگھی دور میں، جس منظم انداز سے سنگھ مخالف اداروں پر، حکومتی اداروں کی گاز گر رہی ہے، وہ کسی بھی عام و خاص سے مخفی نہیں ہے اور مسلم امہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے اعظم خان صاحب کے، اس عظیم مقصد سے، مسلم امہ کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ونچت و محروم رکھنے کی ہی خاطر، اعظم خان صاحب اور ان کی محمد علی جوہر یونیورسٹی کے خلاف ان سنگھئوں نے سازشوں کا جو مکڑی کا جالا بنا ہے اور ستر اسی کے قریب کیسز میں انہیں الجھانے کی سازش رچی گئی ہے ، اس وقت مسلم امہ کا بھرپور ساتھ،اگر اعظم خان صاحب کے ساتھ نہ رہا تو،اللہ نہ کرے محمد علی جوھر یونیورسٹی کے ساتھ بہت بڑا انرتھ ہوسکتا ہے

ایسے میں ھندستانی، ہر مسلمان کو چاہئیے  کہ وہ اپنے شاندار مستقبل کی آماجگاہ، محمد علی جوھر یونیورسٹی کے حق دفاع میں، محترم اعظم خان کے پیچھے کھڑے پائے جائیں۔ہمارے اپنے آپسی ہزار اختلافات  اپنی جگہ،ہم اپنے اختلافات کبھی بھی بیٹھ کر، حل کر سکتے ہیں، لیکن آج قوم مسلم کے تعلیمی مستقبل کی شاندار نشانی، محمد علی جوہر یونیورسٹی کے دفاع میں، ہمیں احتجاج کرنے، سڑکوں پر اترنا پڑیگا۔ 2014 اس حکمرانی سے قبل، کانگریس راج میں، معمولی معمولی باتوں  پر، عوامی احتجاج کا بازار گرم کر، سیاسی طور مستحکم ہونے والے ہی، آج ہندستان پر حکمرانی کررہے ہیں۔ جب تک اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سراپا احتجاج، ہم سڑکوں پر نہیں اتریں گے تو، ہمیں اپنے گھروں میں محو خواب، ہم مسلمانوں کو، ہمارے حقوق لاکر کوئی نہیں دیگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنے حقوق کی دستیابی کی جہد مسلسل، خاردار راہ پر، طویل سفر کے مصداق ہے، ان سنگھی حکمرانوں کے اشاروں پر امن و آمان قائم رکھنے والا پولیس کا عملہ، ہمیں اپنی لاٹھیوں، آنسو گیس کی گولوں، یا بندوق کی گولیوں سے استقبال  کرتا، ہم پائیں گے، لیکن ہمیں اپنے شاندار مستقبل کے لئے جد جہد کرنی ہوگی۔ان سنگھیوں کو ہمیں اپنے حقوق  دینے، انہیں مجبور کرنا پڑیگا۔بصورت دیگر ہماری تساہلی،ہمارا مضمحل انداز، اپنی  آل اولاد کی فکر میں، ہمارا صدا غرق رہنا ، اور اپنے حقوق سے دستبردار ہوتے ہمارے جذبات، ہم سے یکے بعد دیگرے، بہت کچھ چھینتے چلے  جائیں گے۔ محمد علی جوھر یونیورسٹی کے بعد، دار العلوم دیوبند کا نمبر آنے والا ہے اور اسکے بعد یکے بعد دیگرے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ دہلی، پھر ندوةالعلماء لکھنو، پتہ نہیں اور کیا کیا ہم سے چھینتے ہوئے، ہمیں بے دست و پاء مفلوج، ان شدت پسندوں کے رحم و کرم پر، انکی ٹھوکروں پر، ذلت و رسوائی والی زندگی جینے پر مجبور کردیا جائیگا۔ کیا اس کے لئے ہم تیار ہیں؟ یا ڈربے میں بند مرغیوں کی طرح، مالک کے ہاتھوں کٹ کر، ان کا نوالہ بننے والی مرغی کو دیکھ کر بھی، اپنے محفوظ ہونےکی، اندرون خانہ خوشی منا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ ہی رحم کرے ہم مسلمین پر، اور ہماری تنگ دست سوچ پر، اور ہمیں آگہی بخشے اور ہم سے، حقوق مسلمین کے لئے جہد کا کام لے،اور ہماری آنے والی نسلوں کو، عصری تعلیم و دینی حمیت کے ساتھ اصلی شان مسلمانی کا مظہر بنتے، جینے کی توفیق دے۔

(◾چیرمین کریبس گروپ آف ہاسپٹل )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں