حضور! ذرا سنبھل کر

قاسم سید 

ہم اس وقت تیزی سے تغیر پذیر نیو انڈیا کو دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف تبدیلیوں کا طوفان بلا خیز خس و خاشاک کی طرح بہالے جارہا ہے۔ یہ ناقابل یقین سیاسی جغرافیائی تبدیلیاں نا گاساکی اور ہیروشیما پر گرے ایٹم بم اور پومپی آئی کے پھٹنے والے آتش فشاں کے حادثہ سے زیادہ ہلا ڈالنے اور دماغی توازن کھو دینے تک کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ حالات مظہر ہیں کہ ابھی اور کئی زلزلے آئیں گے۔ کئی طوفان اپنی آمد کی خبر دے رہے ہیں جس میں ہماری خوبصورت توقعات اور امیدوں کا جزیدہ غرقاب ہوسکتا ہے۔ پائپ کے دھوئیں اور ڈرائنگ روم کے گدے دار مخملی صوفوں کے سہارے ’عالمی اور قومی مسائل‘ پر غوروفکر کرنے والوں کی دنیا بھی تہ وبالا ہو رہی ہے۔ سکہ بند مراعات یافتہ طبقہ‘ مسائل پر آگ اگلنے اور چنگاریاں برسانے والا بھی ٹک ٹک دیددم‘ نہ کشیدم کی تصویر بن گیا ہے۔ بہت سے طالع آزما دنیا پالا اور قبلہ بدلتے نظرآرہے ہیں۔ بدحواسی چہرے پر عیاں ہیں۔ سجدوں کی بڑھتی تعداد ان کی بی بے بسی وبدحواسی کو عیاں کرتی ہے کہ اب کس طر منہ کرکے ’صدائے حق‘ لگائیں۔ تاویلات کے پہاڑ سے سوالوں کا منہ بند کرنے کی کوششیں ان کی بے چارگی پر تر س کھانے کا جی کرتی ہیں۔

یہ تبدیلیاں ہر سطح پر ہیں عوام زلزلوں کے جھٹکوں کو شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلا زلزلہ نتائج کے اعتبار سے زیادہ سخت وتباہ کن تھا یا وہ زلزلے جن کے آنے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ بے یقینی کے ماحول نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے اس لئے جو ردعمل سامنے آرہا ہے اس میں جھنجھلاہٹ‘ تشویش ‘ اندیشے اور خوف غالب ہے۔ حقائق کے ادراک کا مظاہرہ کم۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت ہو یا اس تکثیری سماج کی بڑی اقلیت وہ خود کو اس کے لئے شاید تیار نہیں کرسکی۔ موجودہ سرکار کے تیوروں سے صاف ہے کہ اسے نہ آئین کی پروا ہوگی اور نہ ہی سیاسی روایات کی اس میں سب کچھ کرگزرنے کا خطرناک ارادہ اور قوت ارادی جنون کی حد تک موجود ہے۔ اسی طرح قیادت کے ایک طبقہ کی طرف سے جس طرح تابڑ توڑ یوٹرن لے گئے ہیں اور مستقبل میں ایسے مزید فیصلے لئے جانے کا امکان خارج نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے بھی دماغ ماؤف کردیا ہے۔ شاید اس لئے کہ برسوں سے جس نہج پر ذہن سازی کی جارہی تھی اس نے خیالات کو پختہ کردیا تھا اگر اچانک اس کے برخلاف کچھ سامنے آجائے تو ذہن فوری طور پر ایسی کوئی بھی ناقابل یقین تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ چنانچہ ردعمل میں بے قراری‘اضطراب اور شکوہ کا عنصر اور پہلو نمایاں ہوجاتا ہے یعنی آپ تو ایسے نہ تھے والا شکوہ آنسوؤں کے جزیرے میں تیرتا ہوا صاف دکھائی دے جاتا ہے۔ عوام کو نہیں تو عقیدت مندوں‘خیر خواہوں اور نیک خواہشات رکھنے والوں کی ذہن سازی کرکے کوئی فیصلہ لیا جائے تو وہ حیرت تعجب اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا کرنے والا نہیں ہوتا پھر ہم ہمیشہ سے ایک بھیڑ رہے ہیں جو صرف لبیک کہنا جانتی ہے سوالات کرنا‘ اشکال کو رکھنا اور آزادی رائے کے حق کے تحت مافی الضمیر کی ادائیگی کو بے ادبی‘ گستاخی اور نافرمانی سے تعبیر کرتی ہے اور ایسا کرنے والوں کو قابل گردن زدنی سمجھتی ہے جیساکہ ہم سوشل میڈیا پر اس کا نظارہ دیکھتے رہتے ہیں جو قوت برداشت تحمل اور دوسرے کو آزادی رائے کا حق دینے کی کسی بھی سطح پر آمادہ نہیں اس کا ضمیر بھی کبھی کبھی جاگ جاتا ہے اور اسے اپنے اوپر شرم آنے لگتی ہے۔ سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اقدامات کو ٹائمنگ کی ترازو میں تولا جاتا ہے اور ان پر ردعمل کیا جاتا ہے۔ ہم جن کے لئے اور جن کے نام پر سیاست کرتے ہیں اگر وہ جواب مانگتے ہیں تو انہیں ادب و لحاظ اور خاندانی حسب ونسب کے نام پر جھڑک کر خاموش کردینے کی کسی جمہوری تہذیبی معاشرہ میں ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے بشرطیکہ ہم اپنے اختلافات اور نکتہ نظر کو سلیقہ سنجیدگی ومتانت اور سوال کو سائل کے انداز میں رکھیں نہ کہ گریبان ہاتھ میں لے کر دھمکی آمیز انداز میں۔

نئی نسل کے ذہن میں بہت سے سوالات ہیں وہ ان کاجواب تلاش کر رہی ہے اسے کہیں سے اطمینان نہیں ہو رہا ہے۔ وہ حضرت جی والی سیاست سے بیزارہے نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کھلے معاشرہ میں کھلی سیاست دیکھنا چاہتی ہے ۔ سوشل میڈیا نے اس کے ذہن کو وسیع اور ہاتھوں میں ایک ہتھیار دے دیا ہے اب کوئی چیز مخففی نہیں رہ گئی۔ نہ خفیہ و ذاتی ملاقاتیں‘ نہ سرکار کےدربارمیں حاضری۔ سڑکوں پر لگے کیمروں سے راستے بھی ناپ لئے جاتے ہیں۔ نئی نسل اور قیادت کے درمیان بڑھتے فاصلے جھنجھلاہٹ پیداکر رہے ہیں۔ یہ رابطوں کا فقدان اور اس کو نہ دی جانے والی اہمیت اسے باغی کر رہی ہے۔ان کو قریب کرنے سینہ سے لگانے اور دل ودماغ میں امڈتے طوفان کو تھامنے کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں ہے اس لئے سرکار‘ قیادت اور نوجوان سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہماری قیادت ذاتی مسائل سلجھانے کے لئے کسی بھی حد تک تتمستک ہونے کے لئے تیار ہے اور ہمیں تنہا حالات کا مقابلہ کرنے کو چھوڑ دیا گیا یہ احساس غلط ہے تو اس کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ اعتماد کے رشتوں میں پڑتی دراریں اچھی علامت نہیں ہیں۔

دراصل ہم نے مودی سرکار کو دیگر حکومت کی تبدیلی کی طرح لے لیا ہے۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سرکار نہیں نظریہ کی تبدیلی ہے۔ عوام کے مسائل سے سروکار نہیں۔ وہ تمام بڑے مسائل کو ہندوتو اور راشٹر واد کی چار میں چھپانے میں کامیاب ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بے حدضروری ایشوز بھی غیر اہم ہوگئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ سنگھ پریوار دہائیوں سے بوئے جارہے دائیں بازو کے احساسات کو ہوا دینے میں کامیاب ہوگیامتنوع آوازوں کو چپ کرادیا گیا۔ مودی اور بی جے پی نے انتخابی نقشوں کو نہیں بدلا بلکہ سماجی تانے بانے میں توڑ پھوڑ شروع کردی ہے۔ ان کے لئے آئینی اقدار کے عہدصرف نمائشی ہے۔ آئین کے معماروں کے بنائے گئے دفاقی ڈھانچہ اور ادارہ جاتی کنٹرول وتوازن کو الٹ پلٹ دینے میں کوئی ہچک نہیں۔ تیسرے وہ ہندوستانی جمہوریہ کو مذہب کی بنیاد پر اکثریت کادیش بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے مذہبی اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کو داخلی دشمنوں اور باہری ایجنٹوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے اندھی راشٹر بھکتی اور ہندوتو نے نیا اوتار لیا ہے۔ اس سے پیدا جنون کو اپنے حق میں کرنے اور میڈیا کی خود سپردگی سے صاف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔نفرت اور دھرم کا سنگم ‘کارپوریٹ اور ہندوتو کے درمیان گٹھ بندھن ‘قانون کا ڈر ختم کرنے آئینی اداروں کی بے توقیری اور ڈر کی ماحول سازی کے خمیرسے نیو انڈیا بن رہا ہے جس میں آئین کی جگہ منوسمرتی لے گی۔ منوکی واپسی ہو رہی ہے۔نفاذ کے طریقے سے نیوانڈیا کا تصور اور واضح ہوجاتا ہے ایسے میں اگر یہ پیغام جائے کہ سرکار سے دوستی اور آر ایس ایس کواچھ سمجھنے سمجھانے کی حکمت عملی گوشہ عافیت ڈھونڈنے کی ہے۔ تو اس کے تاثر کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر آتی ہے۔ حالانکہ یہ سرکار کسی کو بخشنے پر یقین نہیں رکھتی ایسا نہ ہو کہ دونوں طرف سے نقصان ہو۔ خدا کے لئے اس بے چینی کو ختم کیاجائے۔ آپسی سرپھٹول‘ دشنام طرازیاں اور پگڑیاں اچھالنے اور میری قمیض تیری قمیض سے اجلی ہے کی مہم چھوڑ کر آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے کچھ کرکے دکھائیں کہ ٹھیکیداری سیاست کا بستہ لپیٹ دیا گیا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں