نیوز چینلوں کی ”دہشت گردی“ جواب کیا ہے؟

قاسم سید
بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ملک میں میڈیا کے ایک بڑے سیکشن خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا پر نفرت کا کاروبار دھڑلے کے ساتھ جاری ہے۔ این بی ایس اے کے رہنما خطوط ردی کی ٹوکری میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ نیوز چینلوں کے لئے فرقہ وارانہ حساسیت کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ ٹی آر پی ہے ‘ بعض دیدہ طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل نیز کاروباری مفادات کی خاطر پورے ملک کو ذہنی ہیجان میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کے بنیادی موضوعات ہندو ‘ رام‘ کشمیر‘ پاکستان‘ مسلمان کے اردگرد بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بابری مسجد فیصلہ کے موقع پر تلواریں خریدنے ‘ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی دھمکیاں اور انہیں سبق سکھانے جیسے اشتعال انگیز بیانات پرائم ٹائم کا موضوع بنائے جاتے ہیں اس میں آج تک اے بی پی نیوز اور ٹی وی نائن بھارت جیسے نسبتاً اعتدال پسند مانے جانے والے نیوز چینل بھی معقولیت کی کھال اتار کر ڈراکیولا بن گئے ہیں۔ زی نیوز اور ری پبلک بھارت نامی بدنام زمانہ چینلوں سے آگے نکلنے کی لڑائی نے ان کی اصلیت کو بے نقاب کردیا ہے۔
انسپکٹر سبودھ کانت سے لے کر کملیش تیواری کے قتل تک ان نیوز چینلو ں کا کردار فائر بریگیڈ کا نہیں بلکہ آگ لگانے والا رہا ہے۔ بغیر کسی شرم ولحاظ کے ان کی ساری توپوں کا رخ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی طرف ہے۔ ٹی وی اینکرس نے پبلک انٹلیکچول کی جگہ لے لی‘ بحثوں میں شریک پینلسٹوں کی زبانوں سے زہر ٹپکتاہے جو سماجی تانے بانے کو تباہ کررہا ہے۔ نیوز چینلوں کی نظریاتی دہشت گردی کا دائرہ لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔نفرت کی اونچی ہوتی دیوار اگلے کئی سالوں تک نہیں ٹوٹ سکے گی ‘ ایک ہی اسکرپٹ ایک ہی کردار‘ پینلسٹوں کی مخصوص فہرست وہی مولانا وہی پنڈت‘ روزگار‘ مندی ‘ تعلیم ‘ صحت جیسے ایشوز غائب ہوگئے ہیں۔ میڈیا سرکار کے بنائے ایجنڈے پر اپنے آپ کو ڈھال چکا ہے۔ وہ ہر معاملہ کو راشٹر واد اور ہندوتو کے چشمہ سے دیکھتا ہے اور ہمیں بھی یہی چشمہ پہننے پر زور دیتا ہے۔
بابری مسجد ملکیت تنازع پر تاریخی بحث ختم ہونے کے بعد پورا ملک سانس روکے فیصلہ کی گھڑی کا انتظار کررہا ہے۔ درمیان میں تیواری قتل جیسے واقعات اس کے اندیشوں اور فکر میں اضافہ کر رہے ہیں جیسے جیسے تاریخ قریب آرہی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہندو مسلم منافرت کی خلیج بڑھانے اور ہم آہنگی کی جڑوں پر نفرت و تشدد کا تیزاب ڈالنے میں تیزی آگئی ہے۔راشٹر واد کے خمیر سے تیار نفرت ‘ تشدد ‘ خوف ‘ ایک خاص فرقہ کو اینٹی نیشنل قرار دینے کی مہم اور اس کے ذریعہ فرقہ وارانہ صف بندی کی آگ کو مستقل بھڑکانے کی حکمت عملی میں نیوز چینلوں کی اکثریت اہم اور کلیدی رول ادا کر رہی ہے۔ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ بھارت جیسے مذہبی ‘ ذات پات کی تفریق ‘ رنگ و نسل ‘ زبان اور تہذیبی تنوع رکھنے والے ملک کے لئے یہ کتنا خطرناک اور بھیانک ہوسکتا ہے جس کا خمیازہ ماضی میں ہمارا ملک بھگت چکا ہے۔ شاید غیرمرئی سازوں پر تھرکنے ‘ ناچنے ‘ گانے اور خواجہ سراؤں کی طرح تالیاں بجانے والے خود ساختہ راشٹر وادی چینلوں کو وطن عزیز کی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ ہی رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرت کی گود میں پلنے والے ملکوں کے انجام کا۔ انہیں روانڈا اور جرمنی کی نسلی تطہیر کا پس منظر معلوم ہوتا تو اس گناہ اور سفاکانہ رویہ سے خود کو الگ کرلئے۔ اس پر مستزاد مسلمانوں کی نمائندگی کے نام پر جانے والے محترم مولویان کرام مبینہ دانشور حضرات اور نیوز چینلزوں کے اسلامی اسکالر ‘ (الا ماشاء اللہ) لاکھ منع کرنے ‘ اپیلوں اور منتوں سماجتوں کے باوجود خود نمائی‘ شہرت اور دیگر معاملات کی چاہ میں مسلمانوں کی رسوائی اور اپنی جگ ہنسائی کا پرلطف سامان بن گئے ہیں۔ اس دہری مار نے جس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے نام پر بلائے گئے حضرات کی علمی صلاحیت اور دانشوری کی پرتیں اتاری جاتی ہیں اینکر اور دوسرے پینلسٹ مذاق اڑاتے ہیں تو دل پر چھریاں چل جاتی ہیں۔ جب انہیں مولانا ‘ ملا ‘ آتنک وادی‘ آئی ایس آئی کے ایجنٹ‘ آئی ایس کا مخبر‘ اینٹی نیشنل اور پاکستانی دلال و غدار جیسے ہتک آمیز الفاظ سے پکارا جاتا ہے‘ ٹوپی داڑھی کا مداق اڑتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سربازار ہمیں برہنہ کررہا ہے مگر ان کی استقامت کی داد دینی چاہئے کہ اتنی گالیاں ملنے اور رسوائی کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اس طرح شعوری‘ غیر شعوری طور پران کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے میں مددگار ہی ہو رہے ہیں۔
سوال ہے کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہئے۔ الیکٹرانک میڈیا کی نظریاتی دہشت گردی کا مقابلہ کیسے کیا جائے اس کے تین جواب ہیں۔ متبادل میڈیا کے لئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں سوشل میڈیا پر موجودگی میں اضافہ کیا جائے جو لوگ اس میدان میں پہلے سے سرگرم ہیں۔ ان کی ہر طرح سے مدد اور حوصلہ افزائی کی جائے بدقسمتی سے مسلم جماعتوں اور سرمایہ داروں نے میڈیا کی ضرورت کو کبھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ پتہ نہیں کس کو فرض کفایہ ادا کرنے کی توفیق ملے گی۔ مین اسٹریم میڈیا کو گالیاں دینے ‘ برا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے۔ اب بھی کچھ اچھی خبریں وہیں سے ملتی ہیں۔ آپسی اختلاف اور دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے شوق کو عارضی طور پر ہی سہی لپیٹ دیا جائے ۔ اس نازک وقت میں منافرت کی بھڑکتی آگ کو اپنے عمل سے بجھانے میں مدد کریں۔
بارہا گذارش کی گئی کہ خوشحال مسلم جماعتیں اور این جی اوز جن کو اللہ نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے کانفرنسیں اور اجلاس کرنے کے ساتھ قانونی سطح پر کوئی میکنزم بنائیں اور نیوز چینلوں کی مانیٹرنگ کی جائے۔ اشتعال انگیز مواد کا نوٹس لے کر قانونی کارروائی کی جائے۔ تمام متعلقہ اداروں میں اس کی شکایت کرکے توجہ مبذول کرائی جائے۔ کم از کم ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ ایسے چینلوں کو دیکھنا ہی بند کردیں۔ رضاکارانہ طور پر ہرفرد اس کام کو کرے تاکہ ان کی ٹی آر پی پر فرق پڑے۔
سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ نیوز چینلوں پر خود کو کھلونا بننے سے روکنے اور فرقہ وارانہ سفاکیت کی سازشوں سے الگ رکھنے کی سخت ضرورت ہے جو نیوز چینل اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے ‘ نیچا دکھانے اور رسوا کرنے کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں کم از کم وہاں جانے سے تو ضرور گریز کیا جائے۔ بابری مسجد پر فیصلہ آیا چاہتا ہے میڈیا کا بڑا حصہ رام مندر کے حق میں مسلسل مہم چلا رہا ہے۔ اس کے مخالفوں کو اینٹی نیشنل کہا جارہا ہے۔ جب وہ سیاسی پارٹیوں کو بخشنے کو تیار نہیں تو پھر سیاسی اعتبار سے صفر ہوچکے مسلمان کس شمار میں ہوں گے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ڈبیٹ میں جانے والے معصوم ‘ سازشوں سے انجان ہیں۔ اس لئے لازمی ہے کہ آگ میں گھی ڈالنے‘ ان کے ایجنڈے کا حصہ بننے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہرطرح سے اخلاقی دباؤ ڈالا جائے پھر بھی یہ قوم کا مزاج سمجھنے کو تیار نہ ہوں‘ عاجزانہ اپیلوں‘ درخواستوں اور منتوں کو ٹھکرانے پر ہی بضد ہوں تو پھر کوئی تو راستہ ہوگا۔ کم از کم بابری مسجد پر فیصلہ آنے تک غیر محرم اینکروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے‘ ان کے چہرے پر نظر ڈالنے کے گناہ عظیم سے محفوظ رکھیں ( کیونکہ اکثر معزز پینلسٹ بات بات پر شریعت کا حوالہ دیتے ہیں) چینلوں کو از خود رضا کارانہ طور پر اپنی عظیم خدمات اور ملفوظات عالیہ سے محروم کردیں۔ یہ ملت ان کے احسان گراں قدر کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ مسلمانوں کو اس آگ کا ایندھن بنانے کا وسیلہ و ذریعہ نہ بنیں کیونکہ ’ راشٹر واد ‘ کی اس مہم کا انجام جلد سامنے آنے والا ہے۔