ہمارے پاؤں کا کانٹا …..

قاسم سید  

جب کسی فوج یا اس کی ٹکڑی کو چاروں طرف سے گھیر لیا جاے تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرکے ہتھیار ڈال دے۔ خودسپردگی کردے کم از کم جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرے حالانکہ ناقابل اعتبار، نیت میں فتور اور ذہن میں نفرت کا بارود بھری مخالف فوج سے یہ توقع کرنا بھی غلط ہوگا کہ وہ خود سپردگی کے بعد اپنی یقین دہانیوں اور عہد کا پاس رکھے، یہ رخصت کا راستہ ہے۔ اس میں زیادہ سوچنے سمجھنے اور دماغ لگانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ آخری دم تک لڑے، مزاحمت کرے بھلے ہی جسم زخموں سے چور ہوجائے اور لڑتے لڑتے جان دے دے، خود سپردگی اور غلامی کی ہزار سالہ زندگی کو، آزادی کی ایک دن کی زندگی پر ترجیح نہ دے یہ عزیمت کا راستہ ہے، اس میں مایوسی، قنوطیت، مرعوبیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ہر قدم پر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھی ہوتی ہے۔ رخصت اور عزیمت دونوں کی شریعت میں گنجائش ہے، اسلام میں آسانی تو ہے لیکن تن آسانی نہیں ؛ حکمت تو ہے لیکن مصلحت نہیں؛ مصلحت ہزاروں چور دروازے تلاش کرتی ہے، جواز کے ہزاروں بہانے ڈھونڈ لیتی ہے۔ راہ فرار کی سیکڑوں راہوں کی نشاندہی کردیتی ہے جبکہ حکمت صبرو استقلال کے ساتھ ڈٹے رہنے اور ایک قدم آگے یا پیچھے ہٹنے کا مشورہ تو دیتی ہے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اسلام کی پوری تاریخ میں خود سپردگی کا کوئی باب نہیں۔ وسائل کی کمیابی کا رونا نہیں بلکہ جو کچھ میسر ہے اس کے ساتھ جدوجہد کی گئی نتائج کا بار خداکے پاس ہے اس کی مرضی وقدرت پر ہے ہاں جیت کے عزائم کے ساتھ لڑنے والے ہی فاتح ہوتے ہیں۔ ڈھلمل یقین کی سرے سے ہی کوئی گنجائش نہیں۔

اگر دیکھاجائے تو اس وقت مسلم اقلیت بہت عرصہ بعد چاروں طرف سے حصار میں ہے۔ نت نئے چیلنجز منہ پھاڑے کھڑے رہتے ہیں ایک سے تھوڑی فرصت ملے تو دوسرا اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے اب مسئلہ ترجیحات کا بھی نہیں رہا۔ بظاہر جو ماحول ہے اور بحیثیت مجموعی معزز برگزیدہ قیادت یا تو خاموش ہے یا پھر اپنے اپنے معاملات کو سلجھانے میں مصروف ہے یہ تاثر کیوں پیدا ہورہا ہے یا پیدا کیا جارہا ہے۔ کہنا مشکل ہے مگر ظاہری عوامل کچھ ایسی ہی نشاندہی کرتے ہیں۔ سوچ میں اتنا زبردست اختلاف ہے کہ مسلمان کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نظرنہیں آتے۔ کسی نے بھاگوت کا دامن تھام لیا ہے تو کوئی سرکار سے مل کر چلنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ کوئی دو دوہاتھ کرنے پر اکساتا ہے تو کوئی گردن ڈال کر تماشہ دیکھنے اور چپ چاپ رہنے کی تلقین کر رہا ہے۔ کوئی حالات کو بھیانک خوفناک بتاکر پہلے سے ہی سمٹی سکڑی حیران پریشان بھیڑ کو مزید دہشت زدہ کر رہا ہے تو کوئی انجام کی پرواہ کئے بغیر ابھی نہیں توکبھی نہیں والی پالیسی پر عمل کرنے پر زور دے رہا ہے، پرہول سناٹا ہے لیکن بحر کی موجوں میں اندرونی سطح پر زبردست اضطراب ہے جو سوشل میڈیا پر زیادہ طاقتور انداز میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ایک بات صاف ہے کہ نئی نسل کے اندر زبردست ہیجان ہے۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی ہی نہیں غصہ بھی ہے۔ وہ باشعور ہے۔ تعلیم یافتہ ہے، نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو سمجھتی ہے۔ وہ 4جی کے دور میں لینڈ لائن استعمال کرنے پر حیرت زدہ ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے، کیا کرے، کیسے کرے، ڈر یہ ہے کہ وہ کسی ایسے راستے پر نہ چل پڑے جس میں تباہی کے سامان پوشیدہ ہیں پانی کو راستہ کی تلاش ہے اسے روک کر نہیں رکھاجاسکتا۔ بی جے پی نے سیاست کے روایتی اصولوں اور راستوں کو تہس نہس کرکے نئی عبارت لکھ دی ہے کہ اب سیاست اس طرح کی جائے گی۔ ہم اپنے پرانے گھسے پٹے رویوں کو گلے سے لگائے ہیں اور روش بدلنے کو آمادہ نہیں۔ وفود بناکر ملاقاتیں کرنے، میمورنڈم دینے اس کے ساتھ اپنی فائلیں کھسکادینے سرکاری درباروں میں حاضری سے قدوں کو بڑھانے اورنمبرات میں اضافہ کرنے، پریس ریلیزوں کے ذریعہ خدمات جلیلہ کے پہاڑ بنانے اور ڈرا دھمکاکر بھیڑ بکریوں کی طرح کسی پارٹی کی طرف ہنکا دینے کو ہی سیاست و خدمت سمجھتے ہیں حالانکہ کب کا یہ دور ختم ہوگیا، مگر ہم ہیں کہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔

قیادت و نمائندگی کے دعویدار ایک وکیل کو اپنا کہنے پر دست گریباں ہیں اور کروڑوں کی ملت کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی تلقین کرتے ہیں، تو کہیں سے بھی اچھے نہیں لگتے جو لوگ مل بیٹھ کر ایک مقدمہ کی کارروائی کو مشترکہ طور پر افہام و تفہیم سے نہیں سلجھا پائے، ان سے کسی خیرکی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ہمیں مقدمات میں بھی ناکامی ونامرادی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طلاق کیس کا دیکھ چکے ہیں آثار و قرآئن بتارہے ہیں کہ بابری مسجد کیس میں بھی خوش گمان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس کا فیصلہ 18اکتوبر کے بعد کبھی بھی آسکتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کیا تیاری ہے، فیصلہ کے عواقب و نتائج کا سامنا کرنے کے لئے کیا سامان ہے، اس کے متوقع ری ایکشن سے نمٹنے کے لئے کیا کیا جائے۔ کچھ نہیں پتا۔ آزمائش کا وقت ہے تو سب نے ہاتھ کھڑے کرلئے۔ خاموشی اختیار کرلی ہے یا پھر صرف اپنے اپنے ریوڑ کو محفوظ کرنے کی حمایتیں حاصل کرنے کی مہم میں لگ گئے۔ بات کسی ایک کی نہیں ہر طرف ایک سا منظر ہے جو دکھائی دے رہا ہے وہ بہت اچھا نہیں ہے۔

شریعت میں مداخلت برداشت نہ کرنے کا نعرہ لگانے والے اپنی افادیت اور اثرات ثابت نہیں کرسکے۔ آگے کیا ہوگا کہنا مشکل ہے۔ بابری مسجد کیس اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ ہر طرف خاموشی و سناٹا ہے۔ سب نے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا ہے۔ ملائی کھانے والے بوریہ بستر لپیٹ رہے ہیں سب کو اپنی پڑی ہے، دور دراز دیہاتوں قصبوں میں رہنے والوں پر کیا قیامت گذر رہی ہے کسی کو پرواہ نہیں۔ ٹی وی پر بحثوں سے آگ کو بھڑکانے میں گھی ڈالنے میں تعاون کرنے والوں کو کوئی نہیں سمجھا سکا۔ این آرسی کے خوف نے سانس لینا مشکل کردیا ہے۔ وزیرداخلہ امت شاہ اور بھاگوت کے بیان نے بہت سوں کی خوش فہمیاں دور کردی ہوں گی۔ شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے۔بہرحال قیادت کے سواد اعظم سے شکایت اپنی جگہ مگر جو ہے جیسا ہے غنیمت ہے ہمیں ان کی مجبوریاں سمجھنی ہوں گی۔ مایوسی، ناراضگی شکایات کے باوجود ان کی رہنمائی چاہیے وہ بتائیں کیا کریں۔ حالات کا کیسے مقابلہ کریں۔ خود سپردگی یا جدوجہد، رخصت یا عزیمت، سمجھوتہ یا معاہدہ، مصلحت یا حکمت، خوف یا حراست، بے بسی یا عزم اتحاد یا انتشار، نجی ضرورتیں اور پارٹی مفادات تسلیم مگر کچھ تو مل بیٹھ کر کیا جاسکتا ہے۔ اللہ واسطے کچھ کیجئے اس ہیجانی طوفان کو تھامئے جو ذہنوں، دلوں میں آیا ہوا ہے۔ کوئی تو راستہ بتائیں کہ بس نجات اجتماعی قیادت اور باہمی مشاورت میں ہے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا، کوئی اور نکالنے نہیں آئے گا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں