ضرورت کے وقت اور عدل کی شرط کے ساتھ مردکے لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی گنجائش ہے، ترغیب نہیں

مفتی مطیع الرحمن قاسمی

 آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں (تفہیم شریعت) کے تحت جاری سلسلہ وارمحاضرات کا ستائیسویں موضوع ایک سے زائدنکاح- حقائق اور غلط فہمیاں پرگزشتہ سنیچر کو جناب مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ بھیونڈی کیڈی مسجد ناگپاڑہ ممبئی میں تفصیلی محاضرہ پیش کیا، جس میں آپ نے بتایاکہ بیک وقت ایک سے زائدنکاح ہرقوم اورہرمذہب میں رہاہے، اوریہ فطرت انسانی کے مطابق ہے، یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبرحضرت داؤد، حضرت سلیمان،حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اوراخیرمیں حضرت محمد ﷺ نے ایک سے زیادہ نکاح کئے، انھوں نے مزیدبتایاکہ غیرمسلموں کی محترم شخصیات جن میں سے بعض تو ان کے نزدیک بھگوان کی حیثیت رکھتے ہیں مثلامہاراجہ دشرت، راجہ پانڈو،سنگرم سنگھا، راجہ رائے سین وغیرہ کی ایک سے زیادہ بیویاں اوررانیاں تھیں، شری کرشن جی کی توسولہ ہزاررانیاں تھیں، مفتی صاحب نے مزیدبتایاکہ یہ تو اسلام ہے جس نے اس کی حدبندی کرکے چارسے زیادہ کو منع کردیا،اس کے اصول وضوابط بیان کئے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کرناواجب ہے،ورنہ ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرنے کاحکم دیا گیاہے،انھوں نے مزیدبتایاکہ ایک سےزیادہ نکاح کرنے کی اسلام میں صرف گنجائش ہے ترغیب نہیں، چنانچہ قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں اس کی تفصیلات مذکورہیں،مفتی صاحب نے کہاکہ ہندوسان میں ہندومیرج ایکٹ١٩٥٥ء کےمطابق شادی شدہ ہندومرد کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں۔یعنی اگر کوئی ہندودوسری شادی کرتاہے تو یہ غیرقانونی ہے،اس کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتاہے، اورآئی، پی، سی،کی دفعہ ٤٩٤اور٤٩۵ کے تحت کارروائی ہوگی۔اورسات یادس سال تک کی سزا ہوسکتی ہےاورجرمانہ بھی لگ سکتاہے۔اس کے باوجود ہندؤں میں دوسری یاتیسری شادی کارواج بھی ہے اوراس کاتناسب بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے، چنانچہ١٩۶٩ء میں The Indian Statistical Institute کے ایک محقق نے سروے کیااوررپورٹ دی جوہندوستان ٹائمس میں شائع ہوئی تھی،وہ یہ ہے کہ غیرمسلموں میں کثرت ازواج کی شرح 7.2 فیصد ہے،جب کہ مسلمانوں کوقانونی اعتبارسے ایک سے زیادہ بیوی چارتک رکھنے کی اجازت ہے اس کے باجود مسلمانوں میں اس کاتناسب بہت کم ہےیعنی ان کے یہاں تعددازدواج کی شرح محض 2.31 ہے۔پھر بھی مسلمانوں کے ساتھ لعن طعن کرناان پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کرناکہاں تک رواہے؟ قاضی محمد فیاض عالم قاسمی نے کہا کہ جب لیو ان ر لیشن کے طور پر ایک سے زیادہ خواتین کو اپنے گھر میں رکھنا درست ہے نکاح کرے بیوی بناکر، عزت واحترام کےساتھ اپنے گھرمیں لانااوران کے سارے حقوق کو اداکرناکیوں کرغلط ہوسکتاہے؟

عورت کے لیے بیک وقت ایک سے زیادہ شوہررکھنے کے تعلق سے محاضرہ کے کنوینرجناب مفتی محمد فیاض صاحب نے کہاکہ یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے،اورکسی بھی زمانہ میں اورکسی بھی سماج میں اس کاتصور بھی نہیں رہاہے،ایک مرد اپنی بیوی کی ساری کوتاہیوں کو برداشت کرسکتاہے مگراس کی بیوی کاتعلق کسی دوسرے مرد سےہو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتاہے، انھوں نے کہاکہ ایک عورت کاصرف ایک ہی شوہرکے پاس رہنااس کی عصمت وعفت اورعزت وقارکاضامن ہےاور اس کاکئی مردوں کی بیوی بنناخود اس کی عزت وناموس اورغیرت کے خلاف ہےاورخطرہ جان ہے،اس سے حسب ونسب کامقدس نظام کاتانہ بانہ ٹوٹ جائے گا،صنف نازک پر کئی مردوں کے گھریلوذمہ داریاں عائدہوجائیں گی، جس سے یقینا گھریلوزندگی کانظام درہم برہم ہوجائے گا،اس لیے قدرت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ واضح رہے کہ مسلم پرسنل لا سے متعلق مسائل پر کیڈی مسجد ناگپاڑہ ممبئی میں محاضرہ دینے کا نظام بنایاگیا ہے، مزید جانکاری کےلئے اس نمبر 8080607348 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔