طیب اردگان نے امریکی صدر کا خط کچرے میں پھینک دیا ۔ ٹرمپ نے شام میں عسکری کاروائی کرنے پر معاشی پابندی کی دھمکی دی تھی

انقرہ: (ملت ٹائمز) ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا ایک خط ‘کچرے کے ڈبے‘ میں پھینک دیاہے ۔۔۔ تفصیلات کے مطابق 9اکتوبر کو امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے طیب اردگان کے نام ایک خط روانہ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ‘چلو ایک عمدہ معاہدے پر کام کرتے ہیں۔ آپ ہزاروں افراد کے قتل کے ذمہ دار نہیں بننا چاہیں گے، اور میں ترک معیشت کی تباہی کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا۔‘
‘اگر آپ درست اور انسانی بنیادوں پر اس مسئلہ کو حل کریں گے تو تاریخ آپ کے حق میں ہو گی۔ اور اگر اچھے اقدامات نہ ہوئے تو تاریخ آپ کو ہمیشہ کے لیے ایک ظالم کے طور پر دیکھے گی۔‘ اس خط میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر اردوغان سے یہ بھی کہا تھا کہ ‘زیادہ بڑے بننے کی کوشش نہ کرو، احمق مت بنو۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس خط کے مضمون پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ٹرمپ کے باتوں کو وہ باکل خاطر میں نہیں لائے اور اس خط کو ڈسٹبین میں پھینک دیا ۔یہ نیوز بی بی سے اردو نے شائع کیا ہے ۔ بی بی سی نے اپنی خبر میں دعوی کیا ہے کہ ترکی میں صدر کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو یہ خبر دی ہے کہ صدر اردوغان کی جانب سے اس خط کو ‘مکمل طور پر رد کر دیا گیا تھااور کوڑے دان میں ڈا دیاتھا ۔اس خط پر نو اکتوبر کی تاریخ درج ہے اور یہ شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھیجا گیا تھا۔ ترکی کو یہ خط 10اکتوبر کو موصول ہواتھا اور اسی دن اس نے سرحد پار ک ±ردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
شمالی شام میں پی کے کے کے خلاف ترکی کی فوجی کاروائی مسلسل جاری ہے ، اس کاروائی کا نام آپریشن چشمہ رحمت ہے ۔ ترک حکومت کا دعوی ہے کہ ہم اب تک راس العین سمیت متعدد علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں اور پی کے کے کی پسپائی ہورہی ہے ۔
ترکی کے رہنما چاہتے ہیں کہ شام کی سرحد کے اندر 32 کلومیٹر وسیع ایک ‘محفوظ علاقہ’ تشکیل دیا جائے جہاں کرد جنگجوو ¿ں وائی پی جی کا کوئی وجود نہ ہو اور ترکی میں موجود 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں میں سے 20 لاکھ کو اس محفوظ علاقے میں منتقل کیا جائے۔
ترک حکومت کو اس اقدام کی وجہ سے امریکہ سمیت متعدد ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے معاشی پابندیاں عائد کرنے کی بھی دھمکیاں دے رکھی ہے تاہم طیب اردگان کسی بھی دباﺅ میں نہیں آرہے ہیں ۔ امریکہ اور تمام عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ باتیں کررہے ہیں ۔ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ترکی کو کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے لیے گرین سگنل ملا۔صدر ٹرمپ پر زیادہ تنقید ان کی اپنی پارٹی کی جانب سے کی جا رہی ہے۔بدھ کو ایک ووٹ میں صدر ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی کے 129 ممبران نے ڈیمو کریٹس کے ساتھ مل کر صدر کے اس اقدام کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
اس سے پہلے بدھ کو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو شام میں ترکی کے ملٹری آپریشن میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور یہ کہ امریکہ کے سابق اتحادی ک ±رد ‘فرشتے نہیں ہیں۔