سپریم عدلیہ کے پاس ہندوستان کی نئی انقلابی تحریک کا حصّہ بننے کے لئے ابھی بھی وقت ہے

 مشرّف عالم ذوقی  

سپریم عدلیہ کا فیصلہ شہری ترمیمی قانون کو لے کر کیا ہوگا ، یہ سب کو پتہ تھا . یہ بھی وہ نازک کڑی ہے کہ سپریم عدلیہ کو یہ غور کرنا چاہیے کہ عوام کو اسکے فیصلے پر اعتبار کیوں نہیں ہے ؟ کیا سپریم عدلیہ کسی مذہبی تنظیم یا کسی خاص پارٹی کی سیاست کا حصّہ بن رہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھیانک ہے . اس وقت میرے سامنے عالمی انقلابات کے ساتھ غلام ہندوستان کا وہ صفحہ بھی ہے جب گاندھی اور آزاد جیسے رہنماؤں کی قیادت میں ایک انقلاب بلند ہوا اور انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا . شہری ترمیمی قانون کا مقدمہ کویی معمولی مقدمہ نہیں تھا کہ سپریم عدلیہ نے جلد بازی میں اپنا موقف سامنے رکھتے ہوئے نہ ہندوستان کے انقلاب کی آواز سنی ، نہ روس اور فرانس کے انقلاب کا جائزہ لیا . یہ ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام کا مقد مہ تھا اور اس سے پہلے کہ ہمارے جج صاحبان تاریخی کردار ادا کرتے ، مذہبی اور سیاسی دباؤ کا حصّہ بن گئے . ایک دن قبل امت شاہ نے بیان دیا کہ کانگریس نے ناپاک مذہبی بنیاد پر ملک کا بٹوارہ کرایا تھا . اب ایسا لگتا ہے کہ امت شاہ نہ اس وقت کی تاریخ سے واقف ہیں نہ ان امور سے جو تقسیم کی بنیادی وجہ ثابت ہوئے . یہ بیان اس انتہا پسند رویہ کا بیان ہے کہ اب پاکستان بننے کے عمل کے بعد ہندوستان کو بھی مخصوص مذہبی رنگ میں شامل ہونا ہوگا اور اسی لئے امت شاہ ترمیمی قانون کو لے کر ایک انچ بھی ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں . شہری ترمیمی قانون کی مخالفت میں ١٤٠ سے زاید عرضیاں ہونے کے باوجود جو کمزور فیصلہ آیا ہے ، اس فیصلے میں بھی ایک مخصوص سیاست کے مذہبی رنگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے . کیا سپریم عدلیہ اس بات سے واقف ہے کہ ہندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اب انصاف کے اس عالیشان مندر کو بھی زعفرانی رنگوں میں دیکھ رہا ہے ؟ دنیا کے کسی بھی انصاف کے مندر کے لئے یہ کویی نیک شگن نہیں . یہ ایسا ہی ہے کہ بے بس عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ اب وہ انصاف مانگنے کہاں جائے ؟ اگر انصاف کا دروازہ بند ہے تو پھر انقلاب رہ جاتا ہے .

اور اب ملک کے عوام بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں .

جب وفادار آر ایس ایس انگریزوں کے پیچھے کھڑی تھی اور ساورکر انگریزی حکومت سے بار بار معافی طلب کر رہے تھے ، یہ صاف ہو گیا تھا کہ ملک کے لئے زعفرانی مشن کی حیثیت کیا ہے ؟ اور آزادی کے بہتر برس بعد اگر مشن قیادت کرتی ہے تو اسکا رجحان کیا ہوگا ؟ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ قیادت کے محض چھ برس گزرنے کے بعد ہی مسلمان گھس پیٹھیوں ( اس میں ملک کے تمام مسلمان شامل ہیں ) کو ملک سے نکال باہر کرنے کی کاروایی کچھ اس حد تک گستاخ ہو جائے گی کہ ایک جمہوری حکومت ( کیونکہ عوام نے منتخب کیا ہے ) آیین ، جمہوریت ، قانون ، انصاف سب کا قتل کر دے گی اور محض دو چہرے آر ایس ایس کی نمائیندگی میں پورے ملک کو آگ کی لپٹوں میں جھونک دینگے اور سپریم عدلیہ جب انصاف کرے گی تو یہ بھول جائے گی کہ اس وقت ملک کے ہر حصّے میں طوفان مچا ہے اور پورے ملک میں انقلاب کی نیی تاریخ لکھی جا رہی ہے .مجھے روس کے انقلاب کی یاد آ رہی ہے .زار کی حکومت تھی . عوام میں اس کے غیض و غضب کو لے کر غصّہ تھا . پر امن ریلیوں کے ساتھ احتجاج شروع ہوا .شاہی محل کے سامنے ایک پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا گیا .مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ 23 فروری1917ء کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک ختم ہو چکی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے . زار کا سورج غروب ہوا . ہندوستانی تاریخ میں جس دن پولیس نے جامعہ میں خون کی ہولی کھیلی ، یہ وہی دن تھا جب شاہین باغ کی عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا . پھر خوریجی اور سارے ہندوستان میں آزادی کے نعروں کے ساتھ انقلاب کی تحریک عورتوں کے ہاتھ میں آ گیی . طلبا تحریک میں قیادت کرنے لگے . اور ہر قوم و ملت کے لوگ انقلاب کا حصّہ بن گئے .

سپریم عدلیہ فرانس کے انقلاب پر بھی غور کر سکتی تھی .کبھی یہی صورت فرانس کی تھی . جب پانی سر سے بلند ہو گیا تو عوام نے غصّے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا جو فرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھا کرتے تھے . فرانس کا انقلاب ہمیں آواز دیتا ہوا نظر آتا ہے ..

فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے .اپنا عدالتی نظام تھا . ہر شعبے پر حکومت تھی .عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا .فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دے تھے . ۔دولت مند تاجر منصبوں اور عھدوں کو خریدتے تھے ۔اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں .جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے . رشوت خوری کا بازار گرم تھا . .۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا . ،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا .روزگار ختم کر ڈالے . معیشت کی کمر ٹوٹ گیی .ملک ہزارو برس پیچھے چلا گیا . اور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی .فرانس کا ۔بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور “ورسائی” کے محل میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔.شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ فرانس بھی دیوالیہ تھا . وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے.۔فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے.. فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گیی ۔ 14جولائی 1789کا دن ، انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ 

یہ افسوسناک ہے کہ سپریم عدلیہ اور بوبڈے نے عالمی تاریخ پر غور کیا نہ ہندوستان کی غلامی کی تاریخ کا مطالعہ کیا . آج ہندوستان جس انقلاب سے گزر رہا ہے ، بوبڈے کی بنچ تاریخی فیصلہ سنا سکتی تھی . ابھی بھی حکومت اور سپریم عدلیہ یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستانی انقلاب کی شمع کچھ دنوں میں بجھ جائے گی ، تو اس کی نا سمجھی ہے . یہ انقلاب وہی ہے جو ١٩٤٧ سے پہلے آیا . اس وقت انگریز تھے اب رنگ بدلے ہوئے فسطائی . فرق کچھ بھی نہیں . پہلے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنا تھا اب فسطائی طاقتوں سے آزاد کرنا ہے .اور اس لئے گلی کوچوں میں ، ہر طرف آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں . سپریم عدلیہ کے پاس ابھی بھی وقت ہے .وہ ملک کے عوام کی نبض کو سمجھے . انصاف کے مندر کا حق ادا کرے . اور اس نیی تاریخ کو رقم کرے جس میں فسطائی طاقتوں کے لئے کویی جگہ نہ ہو، سپریم عدلیہ سے ایسی امید تو کی ہی جا سکتی ہے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں