دلی فسادات: دلی پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان

شمال مشرقی دلی کے علاقے میں پیر کے روز ہونے والے تشدد کے واقعات کی تصاویر اور ویڈیو جیسے جیسے سامنے آ رہی ہیں امن و امان کے حوالے سے دلی پولیس کے کردار پر سوال تیز اور تیکھے ہوتے جا رہے ہیں۔

تشدد اور آتشزدگی کے واقعات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دلی آنا پہلے سے طے تھا۔

تشد اور آتشزدگی کی تصاویر اور وڈیوز میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مظاہرین نے پولیس چوکی ساتھ ہی ایک مزار کو آگ لگائی اس کے علاوہ پیٹرول پمپ، گاڑیاں، دوکانیں یہاں تک کے گھروں کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔

حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ پولیس کو حرکت میں آنے کا حکم نہیں تھا

کیا دلی پولیس کو اندازہ نہیں تھا کہ جعفر آباد علاقے میں پہلے سے جاری احتجاج کا انجام یہ ہو سکتا تھا۔

حزبِ مخالف اور خاص طور پر عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ پولیس کو حرکت میں آنے کا حکم نہیں تھا ورنہ ہجوم میں کوئی شحص پستول لہرانے کی ہمت کیسے کر سکتا تھا۔

دلی پولیس کے کردار پر سوال اس لیے بھی اٹھ رہے ہیں کیونکہ پولیس جامعہ کی طرح یہاں طاقت کا استعمال کرتی نظر نہیں آئی۔

دلی کے سابق پولیس کمشنر اجے رائے شرما کا کہنا ہے کہ پولیس سٹیٹ سبجیکٹ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت اس میں دخل نہیں دے سکتی لیکن دلی میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں پولیس مرکزی حکومت کے تحت ہے۔ دیگر ریاستوں میں وزیر اعلیٰ ہی پولیس کے لیے سب کچھ ہوتا ہے جبکہ دلی پولیس میں ایسا نہیں ہے۔

جامعہ ہو یا جے این یو پولیس کی مشکل کیا ہے؟

پولیس کو کسی بھی حکومت کا مضبوط بازو تصور کیا جاتا ہے کہ وہ درست وقت پر کارروائی کر کے فسادات کو روکے گی۔

سابق پولیس کمشنر اجے رائے شرما کہتے ہیں کہ پولیس ایک ایسا آلہ ہے جو ریاست حکومت کا ہتھیار ہوتا ہے۔دلی کے معاملے میں یہ ہتھیار مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔حالانکہ ملک کا قانون کہتا ہے کہ اگر پولیس کے سامنے کوئی جرم ہو رہا ہے تو اسے فوراً حرکت میں آنا چاہیے لیکن آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ہم جب سروس میں تھے تو پہلے ایکشن لیتے تھے اور بعد میں بتاتے تھے کہ حالات کے سبب ایکشن لینا پڑا لیکن اب حکومت سے پوچھا جاتا ہے کہ کارروائی کی جائے یا نہیں۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ پولیس حرکت میں کیوں نہیں آتی ۔ کیا انہہیں روکا گیا ہے یا پھر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں۔

اجے رائے شرما کا کہنا ہے کہ اگر پولیس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور پھر بھی وہ کارروائی نہیں کر رہی تو یہ سنگین بات ہے۔اس وقت پورے ملک میں قانون کی مخالفت کا ماحول بنا ہوا ہے اور ایسے میں کئی لوگ اس ماحول کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس میں مخالف پارٹیاں اور ملک دشمن ایجنسیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔

ایسے میں کسی طرح کا تشدد ہونے پر جگہ جگہ تعیناتی کر کے حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہاں سوال یہ ہے کہ پولیس نے کتنی کارروائی کی اور جتنی سختی برتنی چاہیے تھی اتنی سختی برتی یا نہیں لیکن اگر پولیس تشدد پر قابو نہیں کر پاتی تو یہ کہا جائے گا کہ پولیس کہیں نہ کہیں ناکام رہی ہے۔