احتشام الحق آفاقی
آج ہندستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا ، بصورت سیاسی میڈیا ، بھکت میڈیااور سیکولرزم میڈیا سرگرم عمل ہے، عصر حاضر میں میڈیا کی تین شکلیں رائج ہیں الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور شوسل میڈیا ۔ میڈیا میں جن بحثوں کو جگہ دی جاتی ہے ان سے آپ بخوبی واقف ہیں ، مطلب دو دونی پانچ ، حقیقت کچھ، دکھانا کچھ ، پس منظر کچھ اور انداز بیاں کچھ اور ہی ہوتا ہے ، آج الیکٹرونک میڈیا نے اپنے ضابطوں کو بدلتے ہوئے ملک میں جس طرح سے اقلیت فوبیا کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ اس سے نہ تو ملک کا فائدہ ہے اور نہ ہی یہاں کے باشندوں کا ، حالیہ دنوں میں ایک پاکستانی جاسوس کو لکھنؤ سے گرفتار کیاگیا ، اس معاملے کو میڈیا نے ایسا چھپایا کہ گویا کچھ تھا ہی نہیں ، ہاں اگروہ جاسوس کوئی مسلمان جس کا نام محبوب علی ، یا شیر خان ہوتا تو اس کے رویے کے بارے میں پھر کچھ نہ پوچھئے ، ایک چینل پر تقریباََ بیس منٹ کی ایک سنسنی خیز بحث دیکھنے کا موقع ملا ’’ پاکستان میں جانا جہنم میں جانے جیسا ‘‘ اینکر اور مباحثین لیڈر ایسا ڈرامہ کر رہے تھے جیسے یہ لوگ ابھی ابھی اس جہنم سے آیا ہے ۔
دلچسپ بات یہ کہ ملک آج مختلف کش مکش سے گزر رہا ہے ، اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ مارپیٹ، آئے دن ظلم و بربریت ہتھیاچار، کشمیر میں گزشتہ دو مہینے سے حالات کشیدہ ہیں ان تمام ضروری بحثوں کو چھوڑ کر ، الیکٹرانک میڈیا ماضی کی مہابھارت کو دکھاتی ہے ، طالبان اور القاعدہ کا کچھ پتہ نہیں کہاں سی آئی تھی اور کہاں گئی ،لیکن یہ میڈیا آج بھی ان کا افسانہ بیان کرتی ہے ۔ اور یہ میڈیا دعوی کرتی ہے کہ کشمیر ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ ہے ،لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں بسنے والے لوگ بھی اس ملک کے باشندے ہیں ، ان کا حقوق بھی یہاں کے لوگوں ہی جیسا ہے ۔
پرنٹ میڈیا کے لئے بھی جتنا ممکن ہوسکتاہے وہ عوام سے حق کوچھپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے ، اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار کھڑی ملتی ہے ،وہ بھی صرف ایک اشتہار کے نام پر ، آجکل پرنٹ میڈیا سے جڑے افراد نے بھکت میڈیا کی ایک خاص اصطلاح ایجاد کی ہے ، نہ جانے وہ اسے کون سے میڈیا کے لئے استعمال کرتے ہیں ، حالانکہ وہ بھی اسی کا حصہ ہے ، کچھ اخبار تو ایسے ہیں جو صرف سرکار سے روپے بٹورنے کے لئے ہے ، وہ چھوٹے چھوٹے اشتہار کے خاطر چاہے ان کو جتنا بھی جھوٹ لکھنا پڑے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں ۔
اس مضمون کی آخری کڑی ہے سوشل میڈیا ،جو سیکھنے والوں کے لئے علم و فہم کی آماجگاہ ہے اور شرپھیلانے والوں کے لئے غلبہ کی جگہ ، اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیاکا ربط تمام میڈیا سے ہے ، وہ اپنے اپدیٹس کو منٹوں اور سکنڈوں میں شیئر کرتے ہیں ، سوشل میڈیا کا پہلے لوگ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے ہی کے لئے استعمال کرتے تھے، لیکن اب وہاں کمائی کی راہ ہموار ہوگئی ہے ، میڈیا سے جڑے ننانوے فیصد افراد ایسے ہیں جو سوشل میڈیا سے جڑے ہیں مثلا اگر کوئی قلمکار ہے تو وہ اپنی تحروں کو وہاں زینت بناتے ہیں اور اپنی معلومات کود وسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔ اسلئے اگر کوئی شخص بطور صحافی یا دیگر میڈیا ذرائع سے وابستہ ہونے کی خواہش رکھتا ہوتو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے سوشل میڈیا سے وابستہ ہو اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے ہنر سے خوب اچھی طرح واقف کارہوجائے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال آج سب سے زیادہ اسلام کے خلاف ہورہاہے ، ۱۹/اگست روزنامہ راشٹریہ سہارا کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں دنیا بھر سے صرف انگریزی زبان میں سات ہزار اسلام دشمن ٹوئٹس بھیجی گئیں ،موجودہ دور کو اگر میڈیا کے دور سے منسوب کیا جائے تو غلط نہ ہوگا ، اب میڈیا زندگی کا ایک جز بن چکا ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ اب میڈیا کی قوت کو حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوں اسلامی تعلیمات اور اسلامی افکار و نظریات کو فروغ دینے میں جٹ جائیں قبل اس کے کہ جھوٹ عام ہوجائے ، حق زمانہ میں بدنام ہوجائے ۔ولاتلبسو الحق بالباطل و تکتمو الحق ۔