مہمان نوازی:کتاب وسنت کی روشنی میں!!

received_977961268997718
آصف تنویر مدنی
اچھے مسلمان کی پہچانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مہمان نواز ہوتے ہیں.اور مہمان نوازی دیکھاوے کے لیے نہیں بلکہ اسے دین اور ایمان کا حصہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں.مہمان نوازی کے لیے بہت زیادہ مال ودولت کی بھی ضرورت نہیں ہے،اللہ نے جس قدر بے نیازی عطا کی ہے اسی مطابق ضیافت کی جاسکتی ہے.امام اوزاعی(عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعی)سے دریافت کیا کہ”ما اکرام الضیف؟قال:طلاقة الوجه وطيب الكلام”.مہمان کی تکریم کیسے کی جائے؟فرمایا:خوش مزاجی اور اچھی گفتگو کے ذریعہ”.پتہ چلا ہر آدمی اپنی گنجائش کے مطابق ضیافت کرسکتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے کہا کرتے تھے:”یا نساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة” اے مسلمان عورتوں!تم میں کوئی کسی پڑوسن کو حقیر نہ سمجھے،اگرچہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو”.یعنی معمولی چیز میں بھی ہم اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھیں.
قرآن کریم کی تلاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے،ان کی مہمان نوازی کا تذکرہ قرآن کی متعدد سورتوں میں موجود ہے.سورہ ذاریات میں اللہ تعالی نے فرمایا:”هل اتاك حديث ضيف ابراهيم المكرمين،اذ دخلوا عليه قالوا سلاما قال سلام قوم منكرون،فراغ الى أهله فجاء بعجل سمين،فقربه اليهم قال الا تأكلون،فأوجس منهم خيفة قالوا لا تخف وبشروه بغلام عليم”.[کیا آپ کو ابراہیم(علیہ السلام)کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا،اور ابراہیم نے جواب سلام دیا(اور کہا یہ تو)اجنبی لوگ ہیں.پھر (چپ چاپ جلدی جلدی)اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے(کا گوشت)لائے.اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں؟پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے انہوں نے کہا:آپ خوف نہ کیجئے.اور انہوں نے اس (ابراہیم علیہ السلام)کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی].
مذکورہ آیات سے ہم ضیافت کے چند مسائل اخذ کرسکتے ہیں:ضیافت ایک مشروع عمل ہے.مہمان کو میزبان کے گھر داخل ہونے سے قبل اجازت لینی چاہئے،اور اجازت کا بہتر طریقہ سلام ہے.مسلمان جنہیں آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے سلام کرنا مستحب ہے.مہمان کے سامنے بلا خبر کیے ماحضر پیش کردینا چاہیے،اور اس میں جلدی کرنی چاہیے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا،مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.مہمان کے کھانے کا حتی المقدور بہتر بندوبست ہونا چاہئے،مگر تکلف سے پرہیز کرنا ضروری ہے.کھانے کو مہمان کے قریب رکھنا چاہیے تاکہ مہمان کو زیادہ دور ہاتھ بڑھانے کی ضرورت نہ پڑے.جب کھانا حاضر ہوجائے تو مہمان کو میزبان کی اجازت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے.
احادیث رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان نوازی کی کل مدت تین دن ہے،اور اس کے بعد میزبان کی طرف سے کھلایا جانے والا کھانا صدقہ ہوگا.
مہمان نوازی کی فضیلت سے متعلق کئی حدیثیں ہیں جن میں سے چند صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں.ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے مہمان نوازی کرنی چاہیے”.(متفق علیہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا:”ان لزورک علیک حقا”[ بے شک آپ کے پاس آنے والا کا آپ کے اوپر حق(ضیافت)ہے].(بخاری)
صحابہ کرام نے ضیافت کی اعلی مثالیں قائم کی ہیں،بسا اوقات انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے کھانے تک کو مہمان کو کھلایا دیا،اور خود بھوکے سو گئے.جیسا کہ بخاری میں ایک انصاری صحابی کا قصہ موجود ہے.ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم،ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جب بھوک سے نڈھال ہوکر نکلے،اور ابوالہیثم(مالک)بن التیہان رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے تو انہوں نے پیٹ بھر کر آپ کی ضیافت کی.یہ واقعہ بھی صحیح بخاری کے اندر بالتفصیل موجود ہے.
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں بہت سارے سبق ملتے ہیں ان میں سے ایک ضیافت اور مہمان نوازی ہے،جس میں آج افراط وتفریط نظر آتا ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتاب وسنت کے مطابق ضیافت کرنے کی کوشش کریں،مہمان نوازی کو مالداروں،یا اس میں گندی سیاست اور دنیاوی فائدے تک محدود نہ رکھیں جیسا کہ بد قسمتی سے ان دنوں دیکھا جارہا ہے،یہاں تک.کہ قربانی اور عقیقہ کی دعوت اور ضیافت کو بھی سیاست سے جوڑا جانے لگا ہے.اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے.(آمین)