ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف کاروائی کیوں ؟

 خبر در خبر (628)

شمس تبریز قاسمی

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین، معروف اسکالر اور سینئر صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف دہلی پولیس ملک سے غداری کا مقدمہ درج کر رکھا ہے ۔ ان پرتین روز قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ” اشتعال انگیز “ تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار کا کہنا ہے کہ مسٹر خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 A (بغاوت) اور 153 A (دوفرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا ) کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے ۔
مسٹر خان کے خلاف یہ مقدمہ اسی روز درج کیا گیا ہے، جس روز دہلی میں بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرکے انھیں اقلیتی کمیشن کی صدارت سے برخاست کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بی جے پی ممبران اسمبلی نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان پر ملک کی یکجہتی اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے، دنیا میں ہندوستان کی سیکولر امیج کو داغدار کرنے اور ہندو، مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کے الزامات لگائے تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً ایک سو سے زیادہ پروفیسروں نے وزیر اعظم مودی کے نام ایک خط لکھ کر کاروائی کی مانگ بھی کی تھی ۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے 28 اپریل کو ٹوئٹر اور فیس بک پر ایک پوسٹ لکھا تھا ۔ شکریہ کویت! ہندوستانی مسلمانوں کا ساتھ دینے کیلئے ۔ شدت پسند ہندو عناصر عرب دنیا سے بڑی رقم حاصل کرتے ہیں لیکن وہ بھارت میں مسلمانوں کے تحفظ کا خیال نہیں کرتے ہیں ۔ یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ مسلم علماء اور اسکالرس نے عرب اور مسلم دنیا میں اپنی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں جس میں شاہ ولی اللہ دہلوی، علامہ اقبال، مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی، مولانا وحید الدین خان، ڈاکٹر ذاکر نائک اور دوسرے علاقائی نام شامل ہیں ۔ ذہن نشیں رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اب تک مسلم اور عرب دنیا سے تمہاری نفرت انگیز مہم ، ماب لنچنگ اور فساد کی شکایت نہیں کی ہے جس دن ایسا ہوگیا زلزلہ آجائے گا ۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے اسی پوسٹ کے بعد ہنگامہ ہوگیا ۔ پہلے سوشل میڈیا پر بی جے پی آئی ٹی سیل نے انہیں ٹرول کیا اور اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا انہیں بدنام کرنے لگی اور میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا ۔
ہنگامہ کھڑا ہونے کے بعد 29 اپریل کو ڈاکٹر ظفر الاسلام نے اپنے فیس بک پر اردو میں ایک وضاحتی پوسٹ شیئر کیا ۔
کل 28 اپریل 2020 کو میں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ جاری کیا جس پر مجھے کوئی اضافہ نہیں کرنا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کو اس ٹویٹ میں کسی اضافے کا حق نہیں ہے۔ یہ ٹویٹ اس تناظر میں تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جا رہاہے ، چاہے وہ لنچنگ ہو یا فسادات یا میڈیا کے حملے یا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں سیاسی اور ادارہ جاتی رویے۔
 میں نے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں ایک محب وطن ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملکوں میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ ملک کے اندر میں نے ہمیشہ مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی طرح مسائل موجود ہیں لیکن ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔
 میں نے ہمیشہ ہی عربی میڈیا اور الجزیرہ جیسے چینلز پر اپنے ملک کا دفاع کیا ہے ۔ کارگل جنگ کے دوران ہندوستان کا میرا دفاع آج بھی عرب دنیا میں بہت سے لوگوں کو یاد ہے۔ جب کویت کے المجتمع میگزین نے برسوں قبل مجھ سے کشمیر کے بارے میں ہندوستانی مسلمانوں کے نقطۂ نظر کے بارے میں لکھنے کو کہا تو ایڈیٹر صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں نے ہندوستانی موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان سے کشمیر کی علیحدگی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہ مضمون پاکستان کے ایک شخص کے جواب کے ساتھ شائع ہوا تھا اور یہ آخری بار تھا جب میں نے اس میگزین کے لئے کچھ لکھا تھا۔
 میرے علم کے مطابق، ہندوستانی مسلمانوں نے عرب اور مسلم دنیا میں اپنے ملک کے خلاف بیرونی طاقتوں سے کبھی شکایت نہیں کی ۔ میں اور دوسرے ہندوستانی مسلمان قانون کی حکمرانی ، ہندوستانی آئین اور ہمارے ملک کے عظیم اداروں پر یقین رکھتے ہیں۔
میں اس موقع پر میڈیا کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ جس دن میری ٹویٹ سامنے آئی ، اسی دن امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان کی مذہبی آزادی میں بہت تیزی سے خرابی آئی ہے اور حکومت نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف تشدد کی مہمات جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ میں ہندوتوادیوں اور ان کے گودی میڈیا کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی کمیشن کے اس سنگین الزام کا نوٹس لیں۔ میرے خیالات کو بعض الیکٹرانک چینلوں نے بگاڑ کر پیش کیا ہے اور میری طرف غلط باتوں کو منسوب کیا ہے۔ میں ان کے خلاف مناسب قانونی اقدام کروں گا۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے اس پوسٹ کے بعد میڈیا نے خبر چلائی کہ شدید دباؤ کے بعدمسٹر خان نے معافی مانگ لی ہے ۔ اس بیچ کے ان کے خلاف کیس درج ہوگیا ۔ 3 مئی کو ڈاکٹر ظفر الاسلام نے پھر ایک ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹ کے ذریعہ وضاحت کی ہے میرا ٹوئٹ ڈیلیٹ نہیں ہوا ہے ۔ گودی میڈیا نے خبر چلائی ہے کہ میں ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیا ہے اور معافی طلب کرلی ہے۔ ایسا نہیں ہے ۔ میں معافی نہیں مانگی ہے ۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں ۔ یکم مئی کے بیان میں میں نے وضاحت کی تھی معافی طلب نہیں کی تھی ۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور آگے بھی اس پر قائم رہوں گا ۔ ہیٹ پولٹیکس کے خلاف آگے بھی میری لڑائی جاری رہے گی ۔ ایف آئی آر ، گرفتاری اور قید میرے اس مشن کو تبدیل نہیں کرسکتی ہے جو میں نے ملک کی حفاظت کیلئے اختیار کیا ہے ۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی حمایت میں ملک کے تقریباً سو دانشوران نے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا ہے جس میں ان کے خلاف غداری کے مقدمہ کو حقوق انسانی اور دستور کے خلاف بتایا گیا ہے ۔ جن لوگوں بیانات جاری کیا ہے ان میں سوامی اگنی ویش ۔ سابق راجیہ سبھا ایم پی محمد ادیب ، پروفیسر ارون کمار ، کمال فاروقی ۔ کویتا کرشنا ۔ اندو پرتاپ سنگھ ۔ڈاکٹر ڈینزل فرینڈیس ۔ روی نائر ۔ گوپال مینن ۔ اشوک چودھری ۔ پروفیسر شمس الاسلام ایم کے فیضی کے نام سر فہرست ہیں ۔
جن باتوں کو لیکر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف ہنگامہ برپا ہے اور انہیں ٹارگٹ کیا جارہے اس سے کئی گنا زیادہ سنگیں باتیں روزانہ بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے آتی ہے ۔ سر عام آئین اور دستور کی دھجیاں آڑائی جاتی ہے لیکن اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے ۔ پولس کا یہ دوہرا رویہ بتارہا ہے کہ قانون اور آئین صرف ایک مخصوص مذہب کیلئے ہے ۔ بقیہ عوام قانون اور دستور سے بالاتر ہے وہ جو چاہے بول دے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوگا ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com