ارطغرل غازی کون تھے ؟

خبر در خبر (629)

شمس تبریز قاسمی

ارطغرل غازی اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے ترکی، پاکستان ، بھارت ، عرب ممالک ، یورپین ممالک ، ویسٹرن دنیا اور امریکہ میں ارطغرل غازی کے کردار پر بحث ہورہی ہے کہ یہ ہے کیا ۔ کون تھا ارطغرل غازی ۔ ارطغرل غازی واقعی کوئی حقیقی کردار ہے یا پھر ایک فرضی کردار ہے ۔ کیا واقعی دنیا کی سب سے عظیم سلطنت خلافت عثمانیہ کا حقیقی بانی یہی ارطغرل غازی ہے ۔ اسی نے عالم اسلام کو متحد کرنے کا خواب دیکھا تھا اور اپنے بیٹے عثمان غازی کی انہیں خطوط پر تربیت کی تھی ۔ کیا واقعی ایک خانہ بدوش قبیلہ کا سردار ہوکر دنیا کی دو اہم طاقت منگلولوں اور صلیبیوں سے برسر پیکار تھا اور دونوں کو شکست دیکر مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال کی تھی۔ موجودہ دور میں یہ بحث اس لئے ہورہی ہے کہ دسمبر 2014 میں ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی نے ایک ڈرامہ نشرکرنا شروع کیا ڈریلریس ارطغرل۔ یہ 2019 تک جاری رہا ہے ۔ یہ ڈرامہ پانچ سیشن پر مشتمل ہے ۔ اس میں کل 150 ایپسوڈ ہیں اور ہر ایک ایپسوڈ کا ڈیورینش تقریباً دو گھنٹہ کا ہے ۔ اب تک 160 ممالک میں اسے دیکھا جاچکا ہے ۔ 90 سے زیادہ زبانوں میں اس کی باضابطہ ڈبنگ ہوچکی ہے ۔ اس ڈرامہ کو دیکھ کر کئی لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں ۔ اس ڈرامہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر محمد بوزدیغ ہیں اور اس کے اصل ہیرو اینجن آلتن ہیں جنہوں نے ارطغرل غازی کا کردار ادا کیا ۔ اس ڈرامے میں یہ دیکھایا گیا ہے کہ تیرہویں صدی میں کائی نام کا ایک ترک قبیلہ تھا جو منگلولوں کے ظلم وستم سے پریشان تھا ۔ موسم ، وبا اور پہاڑوں کی ٹھنڈک نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔ بھیڑیا چرانا اس کا پیشہ تھا ۔ اس قبیلہ نے امیر حلب سے زمین حاصل کرکے شام کے علاقے میں وہاں اپنے قبیلہ کو آباد کیا جہاں صلیبیوں سے مسلسل اس کی لڑائی رہی اور بالآخر اس قبیلہ کے جاں بازوں نے حلب کے علاقے میں صلیبیوں کے خفیہ قلعہ کو مسمار کردیا۔ حلب کے شاہی محل کو صلیبی سازشوں اور غداروں سے نجات دلائی ۔ اس قبیلہ کا سردار شاہ سیلمان تھا جس کی جنگ سے واپسی کے وقت دریا میں ڈوبنے سے موت ہوگئی ۔ اس کے بعد شاہ سلیمان کا تیسرا بیٹا ارطغرل اس کا سردار بنا اور اس نے کچھ جنگجوؤں اور قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کیا ۔ اسی علاقے میں اپنا قبیلہ آباد کیا ۔ یہاں اس نے منگلولوں اور صلیبیوں دونوں سے مسلسل لڑائی کی ۔ دونوں کو شکست سے دوچار کرتا رہا اور کئی صلیبی قلعوں کو اس نے فتح کرلیا ۔ فتوحات کا آغاز ارطغرل نے ہانلی بازار سے کیا جو آج بھی ترکی میں موجود ہے اور یہ دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے ۔ ارطغرل کی جنگی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے خوش ہوکر سلجوق سلطنت کے فرماں روا سلطان علاء الدین کیقباد نے سوغوت کا علاقہ دے دیا اور ارطغرل کو وہاں کا سردار اعلی بنا دیا ۔ ارطغرل کی بیوی حلیمہ سے تین بچے پیدا ہوئے سب سے چھوٹا عثمان تھا جس کے بارے میں ارطغرل نے کئی مرتبہ خواب دیکھا کہ وہ عالم اسلام کو متحد کرے گا اور دنیا کی عظیم سلطنت قائم کرے گا۔ خفیہ تنظیم سفید ڈاڑھی والوں نے بھی عثمان کی آمد کا تذکرہ کیا ۔ عثمان نے جوان ہونے کے بعد قبیلہ کی ذمہ داری سنبھال لی اور اپنے والد کی طرح یہ بھی منگلولوں اور صلیبیوں کے خلاف برسرپیکار ہوگیا ۔ عثمان کی قابلیت اور اس کی پوری مہم کو باضابطہ ایک ڈرامہ کرلوس عثمان میں اب پیش کیا جارہا ہے جس کے 19 ایپی سوڈ اب تک ریلیز ہوچکے ہیں ۔ اس ڈرامہ میں خلافت عثمانیہ کا قیام دکھایا جائے گا ۔

 ارطغرل کی پوری جنگی مہم میں شیخ ابن العربی نے روحانی پیر کے طور پر بہت مدد کی ۔ اس کے علاوہ ارطغرل کے تین بہادر ساتھ بامسی بے ، ترغوت بے اور روشان بے اس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور تقریباً پورا ڈرامہ انہیں تینوں کی بہادری ، شجاعت اور جاں نثاری کے ارد گرد ہے ۔ ڈرامہ میں بہت سلیقے کے ساتھ منگلولوں کا ظلم وستم ، صلیبیوں کی سازش اور اپنوں کی غداری دیکھا ئی گئی ہے ۔ ڈرامہ میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح آج کے حالات ہے تیرہویں صدی کے حالات بھی اس طرح بدتر تھے ۔ چنگیز خان کی فوج مسلمانوں کو تباہ و برباد کررہی تھی ۔ صلیبی مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور مسلمان بھی کم ہمتی کے شکار ہوچکے تھے ۔ وہ صلیبیوں اور منگلولوں کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنوں کے ساتھ ہی غداری کرتے تھے ۔ ان مشکل حالات میں ارطغرل غازی نے عالم اسلام کو متحد کرنے اور انہیں ذلت و خواری سے نکالنے کا خواب دیکھا اور اس کو سچ ثابت کرنے کیلئے انہوں نے جدو جہد شروع کردی ۔ عیسائیوں ، صلیبیوں اور منگلولوں میں اپنا خوف قائم کردیا ۔ ان کی وفات کے دس سال بعد ان کے بیٹے عثمان غازی نے 1299 میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ دی اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ سلطنت تین بر اعظموں پر پھیل گئی اور دنیا کی سب سے لمبی مدت تک قائم رہنے والی اور سب سے مضبوط سلطنت بن گئی جو 1923 تک قائم رہی ۔ ڈرامہ میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پیش کیا گیا ہے جس کو دیکھنے کے بعد دنیا کا ہر مسلمان ارطغرل کو اپنا ہیرو ، محسن اور عظیم مجاہد سمجھتا ہے ۔ علاقائیت اور نسل و نسب کی بنیاد پر ذرہ برابر بھی تعصب کا خیال نہیں آتا ہے عرب وعجم ، قبیلہ اور علاقائیت کے بنیاد پر پایا جانے والا آپسی تعصب کو یہ ڈرامہ مٹا دیتا ہے ۔ رائٹر کا حسن کمال یہ ہے کہ اس نے اس میں ترکوں کی اپنی تہذیب کو بھی جگہ دی ہے لیکن اس سے ذرہ برابر بھی دیگر علاقوں اور خطوں کے رہنے والوں کی دلچسپی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ ڈرامہ کا کردار اس طرح ہے کہ عیسائی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہمارے خلاف جھوٹ ہے بلکہ وہ بھی اسے پسند کرتے ہیں اور کئی عیسائی فیلمی ڈرامہ دیکھنے کے بعد ایمان لاچکی ہے ۔

یہ ساری تفصیلات ڈرامہ کے کردار کی تھی اب آئیے یہ جانتے ہیں کہ حقیقت میں ارطغرل غازی کون تھا ۔ تاریخ اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ۔ کیا ڈرامہ میں جو کچھ دکھا گیا ، وہ تاریخ میں موجودہے ۔ حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ارطغرل ڈرامہ میں جو دکھا گیا ہے وہ خلاف حقیقت اور تاریخ کے برعکس ہے ۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے ۔ آئیے جانتے ہیں سچائی کیا ہے ۔

ارطغرل کے حوالے سے تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ہے تاہم جو تذکرہ ہے اس سے ڈرامہ کے اکثر کردار میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ تاریخ پڑھنے اور ڈرامہ دیکھنے کے بعد آپ یقینی طور پر یہی کہیں گے کہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھاگیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اس وقت کے یہی حالات تھے جیسا ڈرامہ میں بتایا گیا ہے ۔

ارطغرل ترک زبان کا لفظ ہے ۔ یہ دو لفظوں “ار” اور “طغرل” سے مل کر بنا ہے، “ار er” کے معنی آدمی، سپاہی یا ہیرو کے ہیں جبکہ ” طغرل ” کے معنی عقاب پرندے کے آتے ہیں اسی کو شاہین بھی کہتے ہیں ۔ ارطغرل کی ولادت 1190 میں ہوئی اور وفات 1280 میں یعنی نوے سال کی عمر میں ۔ ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، بے خوف، عقلمند، دلیر، ایماندار اور بارعب سپاہی تھا۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کا وفادار رہا۔

مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ ارطغرل اپنے چار سو جنگجوؤں کے ساتھ اناطولیہ جارہے تھے وہاں انہوں نے دیکھا دو فوجیں آپس میں لڑری ہیں ۔ ایک فوج جیت رہی تھی اور دوسری فوج شکست کھانے کے قریب پہونچ چکی تھی ۔ ارطغرل نے اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکست خوردہ فوج کا ساتھ دیا ۔ ارطغرل نے شکست خوردہ فوج کا ساتھ محض اپنی اس فطر ت کی وجہ سے دیا کہ وہ کمزوروں اور مظلوں کا ساتھ دینا فرض سمجھتا تھا ۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ فوج کون سی ہے اور اس کے بدلے کیا انعام ملے گا ۔ ارطغرل کے حملہ کے بعد جیتی ہوئی فوج شکست سے دوچار ہوگئی اور جو فوج ہار رہی تھی وہ جیت گئی ۔ اس طر ح جنگ کا پانسہ بدل گیا ۔ ارطغرل نے جس فوج کا ساتھ دیا تھا وہ سلجوق سطلنت کی فوج تھی اور سامنے منگلولوں کی فوج تھی ۔ بعض مؤرخین نے صلیبی فوج لکھا ہے ۔ بہر حال سلجوق سلطان علاء الدین نے ارطغرل کی اس بہادری سے خوش ہوکر انہیں سوغوت کا علاقہ جاگیر کے طور پر دے دیا اور اپنا سردار اعلی منتخب کیا ۔

مشہور مؤرخ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی، آرمینیائی، کرد، یونانی اور عرب شامل تھے۔ اس علاقے کے مغرب میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔ ۱۳ویں صدی کے وسط میں منگولوں کے ہاتھوں شکست نے سلجوقوں کو کمزور کر دیا اور وہ منگولوں کو نذرانے دینے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ ماضی کی دو طاقتور حکومتوں کا اختیار ان کی سرحدوں کے درمیان واقع ’غیر یقینی صورتحال‘ کے اس علاقے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن یہ صرف جنگجوؤں کی آماجگاہ نہیں تھا۔ مہم جوئی کرنے والوں کے علاوہ یہاں وہ لوگ بھی تھے جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔

معتبر تاریخی حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ارطغرل کا تعلق ترک قبائل کی شاخ قائی قبیلہ سے تھا اور ان کا خاندان بیگ (سردار) کہلاتا تھا۔ یہ قبیلہ عقیدتاً اہل سنت و الجماعت سے منسلک اور مسلکاً حنفی تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ارطغرل کی زندگی کے احوال اور ان کی سرگرمیوں سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں، البتہ ان کے بیٹے عثمان اول کے ڈھالے ہوئے سکوں سے تاریخی طور پر ان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان سکوں میں عثمان اول نے اپنے والد کا نام ارطغرل ضرب کروایا تھا ۔ سات صفحات پر ایک قدیم دستاویز بھی ترکی میں موجود ہے جس میں ارطغرل غازی کی منگلولوں اور صلیبیوں کے ساتھ اور اس کی جدوجہد کا تذکرہ موجود ہے ۔

 عثمانی دستاویزات میں ارطغرل کا نسب کچھ یوں ملتا ہے: ارطغرل بن سلیمان شاہ بن کندز الپ بن قایا الپ بن کوک الپ بن صارقوق الپ بن قایی الپ۔ قائی قبیلہ انہی سے منسوب ہے۔

کئی مورخین نے لکھا ہے کہ ارطغرل غازی اسلام کی سربلندی کی خاطر جدو جہد کررہے تھے اور اس وقت کے موجود ترک قبائل سے ان کی سوچ بالکل الگ تھی ۔ ایک عظیم مشن اور مقصد کے تحت وہ ترک قبائل کو متحد کررہے تھے اور صلیبیوں اور منگولوں کے ساتھ لڑتے تھے ۔ ان کی آرزو تھی کہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آئے۔ وفات کے دس سال بعد سب سے چھوٹے بیٹے غازی عثمان اول نے ان کا یہ خواب پورا کیا اور ایک عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ ترکی کے شہر سوغوت میں ارطغرل کے نام کی ایک مسجد اور ایک مزار ہے ۔ ارطغرل کے بیٹے عثمان نے اس کی تعمیر کی تھی اور پھر عثمان کے بیٹے ارہان غازی نے اضافہ کیا۔ اسی مقبرہ میں حلیمہ سلطان اور ترغوت وغیرہ کی بھی قبریں ہیں ۔

ناظرین کرام ! ڈرامہ میں پیش کئے گئے پلاٹ اور تاریخ میں درج واقعات کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں ڈرامہ اور تاریخ میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ڈرامہ میں پیش کی گئی فکر ، جدو جہد ۔ صلیبیبوں اور منگلوں سے لڑائی حقیقت پر مبنی ہے ۔ ارطغرل کا تعلق ایک خانہ بدوش قبیلہ سے تھا جس نے عظیم اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا اور اس کا مشن پورا ہوا ۔ اس کے نام سے منگولوں اور صلیبیوں پر ہیبت طاری تھی اور آج اس کے کردار پر ڈرامہ بننے کے بعد پھر یورپ اور امریکہ پر اس غازی کا خوف طاری ہوگیا ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ڈرامہ میں کچھ ایسے کردار ہیں جن کا تعلق اس عہد سے نہیں ہے جس پر ہم اگلی کسی ویڈیو میں بات کریں گے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق تاریخ پر بنایا گیا اب تک کا یہ سب سے مقبول ڈرامہ ہے۔ اس نے بالی وو ڈ اور ہالی وو ڈ کو بھی کافی نقصان پہونچایا ہے ۔ یہ ڈرامہ اردو میں بھی دستیاب ہے جس کے ایک سیشن کی ڈبنگ پاکستان کے ایک پرائیوٹ چینل نے پہلے کررکھی ہے اور بقیہ اردو سب ٹائٹلز کے موجود ہے ۔ اب دوبارہ وہاں وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر ڈبنگ ہورہی ہے جسے سرکای ٹی وی پر دیکھا جارہا ہے ۔ کائی فیلمی نام کی ایک ویب سائٹ نے پورے ڈرامہ کو انگریزی سب ٹائٹل میں پیش کیا ہے ۔

ڈیریرلس ارطغرل دیکھنے والے اپنا تاثر کچھ اس انداز سے سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں ۔ کتنی ہی فلمیں دیکھیں اور کتنا کچھ پڑھ ڈالا۔ لیکن ارطغرل جیسا کچھ نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ نہیں ایک شاہکار ہے، یہ ایک طلسم ہے، ایک جادو ہے ،۔ جس نے اسے دیکھا ، اس نے دیکھا ، جس نے نہیں دیکھا وہ جان لے اس نے کچھ نہیں دیکھا۔

(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں