ارطغرل غازی … سے مسلم دشمن طاقتیں پریشان کیوں؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ارطغرل غازی ….
یہ نام سنتے ہی جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ رگوں میں لہو جوش پانے لگتا ہے‘ بعض ممالک کے حکمرانوں کے چہروں پر خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔
کیا ارطغرل غازی ٹیلی سیریل پر پابندی عائد کردی جائے گی؟
کیا ترکی صدر طیب رجب اردغان اس دور کے ارطغرل غازی ثابت ہوں گے؟
کیا 2023ء میں ترکی میں خلافت عثمانیہ کا احیاء ہوگا؟
یا ایک بار پھر دنیا کی تمام طاقتیں مل کر ترکی کی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کریں گی؟
ایسے بہت سے سوال اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔ ترکی ٹیلی ویژن پر دسمبر 2014ء سے مئی 2019ء تک ٹیلی کاسٹ ہونے والے ٹیلی سیریل ارطغرل غازی جب سے اردو میں ڈب ہوکر پاکستان ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ کیا جانے لگا تب سے نہ صرف پاکستان بلکہ مغربی اور بعض عرب ممالک میں بھی اس ٹیلی سیریل پر پابندی عائد کرنے اور یوٹیوب سے اسے نکال دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مصر میں تو باقاعدہ اس ٹیلی سیریل کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔
آخر کیا ہے اس ٹیلی سیریل میں جس نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ اس کے ناظرین کی تعداد ہر ایپی سوڈ کے لئے اوسطاً 30لاکھ سے 40 لاکھ کے درمیان ہے جبکہ دنیا کی ہر زبان میں اس کی ڈبنگ ہوچکی ہے۔ عالم عرب میں بھی مخالفتوں کے باوجود نوجوان نسل اس سیریل کی Addict ہوچکی ہے۔ ہر نوجوان اپنے وجود میں ارطغرل غازی کو تلاش کررہا ہے اور اپنی صفوں میں Turgut جیسے منافقین اور جاسوسوں کو تلاش کررہا ہے۔
ارطغرل غازی عوغوس ترکوں کا ایک ایسا کردار ہے جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ ایک مجاہد غازی کے طور پر عزت و احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔ ارطغرل غازی ایک بہادر جنگجو نوجوان تھا جو عوغوس ترکوں کے سردار سلیمان شاہ کا بیٹا تھا۔ اس نے اپنی ہمت، جرأت، کردار سے اپنے قبیلے کو طاقتور بنایا۔ اس کے بیٹے عثمان نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جس نے 1299سے 1922تک  622 سال تک تین براعظموں پر حکومت کی۔ یوروپ کے کئی ممالک اس کے زیر اثر تھے۔ جس نے خلافت عثمانیہ کی تحریک کو عملی شکل دی۔ 19ویں صدی میں امریکہ، یوروپ اور بعض عرب ممالک نے مل کر خلافت عثمانیہ کو ختم کیا۔ آخری دور میں جب سلطنت عثمانیہ کے حکمران عیش پسند بن گئے تو ان کے ہاتھوں میں تلواریں اٹھانے کی طاقت اور اپنے دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ملاکر دیکھنے کی ہمت نہیں رہی۔ ایک وقت تھا جب ترکی‘ یونان‘ بلغاتیہ‘ مصر‘ ہنگری‘ مخدونیہ‘ رومانیہ‘ اردن‘ فلسطین‘ لبنان‘ شام اور بعض عرب ممالک کے علاوہ شمالی افریقہ کا ساحلی علاقہ اس سلطنت میں شامل تھا۔ عثمانی حکمران وقت کے ساتھ قدم ملاکر جب چلنے میں ناکام رہے‘ صلیبی اور صیہونی جاسوسوں نے ان کی صفوں میں داخل ہوکر ان کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا۔ بعض حکمران خوبصورت جاسوس عورتوں کے Honey Trap ہوتے گئے تو ایک ایک کرکے سلطنت عثمانیہ سے کئی ممالک آزاد ہوگئے۔ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اپنی تصنیف انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر میں لکھا ہے کہ ترکی مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے وہ خصوصیات عطا کی تھی جن سے وہ مسلمانوں کی قیادت کے مستحق تھے۔ وہ بلند حوصلہ، پُرجوش اور زندہ قوم تھی جس میں جہاد کی روح تھی۔ جو بدویت کی زندگی اور سادگی سے قریب العہد ہونے کی وجہ سے اُن اخلاقی اور اجتماعی امراض سے محفوظ تھی جن میں اسلامی قومیں مشرق میں مبتلا ہوکر کمزور ہوچکی تھی۔ اس کے پاس ایسی جنگی طاقت تھی جس سے وہ اسلام کے معدی اور روحانی تسلط کو پھیلا سکتے تھے۔ حریف قوموں کی دست درازی کو روک سکتے تھے اور دنیا کی قیادت کے منصب پر اسی لئے وہ فائز ہوسکے تھے۔ عثمانی خلیفہ سلیمان اعظم کے زمانہ میں ترکوں کو بحری و بَّری سیاسی اور روحانی اقتدار حاصل تھا۔ 4 لاکھ مربع میل کا رقبہ اس کے زیر حکومت تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بحری بیڑا تین ہزار فوجی جہازوں پر مشتمل تھا۔ روم کے علاوہ قدیم دنیا کا ہر مشہور شہر حکومت عثمانیہ کے زیر فرمان تھا۔ مولانا علی میاں مرحوم نے لکھا کہ عثمانی ترکوں کی آمد سے عالم اسلام کو استحکام حاصل ہوا۔ 1453ء میں سلطان محمدفاتح نے صرف 24برس کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرلیا تھا۔ جس کے لئے مسلمان 800 برس تک بار بار کوشش کررہے تھے۔ سلطان محمد فاتح نے یورپ کے انجینئروں سے خدمات حاصل کرتے ہوئے جنگی تیاریاں کی تھیں اور اس نے ایک ایسی توپ بنوائی جو 300کیلو کے وزن کا گولہ پھینکتی تھی اور اس کا نشانہ ایک میل سے زیادہ فاصلہ تک لگایا جاسکتا تھا۔ اس توپ کو کھینچنے کے لئے 700 آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ جب وہ قسطنطنیہ فتح کرنے چلا تو اس کی قیادت میں 3لاکھ سپاہی تھے۔ اس کا بحری بیڑا جو قسطنطنیہ کا سمندر کی جانب سے محاصرہ کیا ہوا تھا 120جنگی کشتیوں پر مشتمل تھا۔ اس نے اپنی عقل سے جنگی بیڑے کا ایک حصہ مشکل سے خلیج تک پہنچایا اورلکڑیوں پر چربی مل کر 70 جہاز بندرگاہ قاسم کی سمت سے سمندر میں اُتار دیئے تھے۔ یہ ترکوں اور مسلمانوں کی بدقسمتی تھی کہ جس وقت ان کے عروج کا دور شروع ہوا وہیں انسانی کمزوریاں نفسانی خواہشات کے غلام بن گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر طاقت تصور کرلیا۔ ایک طرف یورپ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتا جارہا تھا اور ترک حکمران بھی اور عوام بھی اپنے ماضی میں کھوئے ہوئے تھے۔ صلیبی روحانی پیشوا جدید علوم پر عبور رکھتے تھے اور نئے زمانے سے ہم آہنگ تھے۔ عثمانی دور کے مسلم علمائے کرام نے ہر نئی چیز ہر نئی ایجاد کو حرام قرار دیا۔ فتوے جاری کئے۔ دنیا آگے نکل گئی اور یہ پیچھے رہ گئے۔ آہستہ آہستہ ایک بہادر جنگجو قوم پسپا ہوتی گئی۔ 19ویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں خلافت اسلامیہ کے خلاف تحریک چلائی گئی۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب 24/جولائی 1923ء کو ایک 100سالہ معاہدہ پہلی جنگ عظیم کے فاتح برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے عثمانی خلیفہ سے کیا  جسے Treaty of Lausanne کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت سلطان کا خطاب چھین لیا گیا۔ مصطفےٰ کمال پاشاہ نے اقتدار حاصل کیا تو 3/مارچ 1924ء کو خلافت عثمانیہ کا زوال ہوگیا۔ شرعی قوانین منسوخ کردیئے گئے۔ ترکی زبان عربی رسم الخط میں تھی‘ اُس پر پابندی عائد کردی گئی۔ دینی مدارس بند کردیئے گئے۔ 70 ہزار مساجد کو مصطفےٰ کمال پاشاہ نے اپنے کنٹرول میں لے کر ان پر تالے ڈال دیئے۔ نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی۔ خانقاہیں بند ہوگئیں۔ مفتیانِ کرام اور ائمہ کے خطبات پر پابندی تھی۔ مساجد سے اسلامی نظریہ کے بجائے مصطفےٰ کمال پاشاہ کے نظریہ کی تبلیغ کے احکامات جاری کئے گئے۔ 100 سال تک ترکی کو تیل کی تلاش سے روکا گیا۔ آبنائے باسورَس سے گزرنے والے جہازوں پر کسی قسم کی فیس لینے پر پابندی عائد کی گئی تب اس کے تحت تمام ممالک کے خود مختاری کا اعلان کیا گیا۔ جمہوریہ ترکی کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ ترکی میں کرسچن اور یونان میں مسلم مائناریٹی کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ موصل کا علاقہ عراق کے حوالہ کردیا گیا۔مصطفےٰ کمال پاشاہ کی زندگی میں ہی اس کی بہت مخالفت ہوئی۔ ویسے بھی وہ واصل جہنم ہوئے۔ 80 برس بیت گئے‘ اس دوران اسلامی روایات بحال ہوئیں اور طیب رجب اردغان کے دورِ اقتدار میں ترکی صحیح معنوں میں ایک مسلم ملک بن گیا۔ معاہدۂ لوسانہ 2023ء میں ختم ہورہا ہے۔ ترکی صدر طیب رجب اردغان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ترکی میں تیل کے ذخائر کی کھوج ہوگی۔ طیب اردغان عالم اسلام کے ایک عظیم قائد کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو کبھی بھی سوپر پاور تسلیم نہیں کیا۔ ان کی تقاریر، ان کے اقدامات، دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھنے والی آواز کی وجہ سے وہ ساری دنیا کے مسلمانوں میں بے حد مقبول ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران اتنے ہی ان سے پریشان رہتے ہیں جتنا امریکہ اور یوروپ کے قائدین۔ طیب اردغان نے دینی مدارس کا جال بچھایا۔ حفاظ کرام، علماء و اکابرین کے لئے مراعات دیں۔ 2023 میں ترکی جب سابقہ معاہدات سے آزاد ہوجائے گا تو وہ اُسے ایک ماڈرن اسلامی ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر لانے کے عزائم رکھتے ہیں۔ 9/11 سے پہلے بھی عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا رہا۔ 9/11 کے بعد تو میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے شبیہ کو مسخ کیا گیا۔ موجودہ دور میڈیا کا ہی ہے۔ اور میڈیا کے ذریعہ ہی ” پروپیگنڈہ وار “ لڑی جارہی ہے۔ چنانچہ میڈیا کا مقابلہ میڈیا سے ہی کیا جاتا ہے۔ ترکی، پاکستان اور ملیشیا نے مشترکہ طور پر ایک اسلامی چینل کی تجویز پیش کی تھی جس پر عمل نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ بعض اسلامی ممالک نے مخالفت کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک کے حکمران رہن سہن اسلامی شعائر کی نفی کرتا ہے۔ ان کی عیش پسندی، فضول خرچی ایک دوسرے کو مٹانے کی کوششوں میں دشمنان اسلام کا آلہ کار بننے کی روایت قدیم ہے۔ چند عجمی ممالک کے حکمران اگرچہ کہ مغربی تعلیم سے آراستہ ہیں۔ مغربی لباس زیب تن کرتے ہیں مگر اندر سے وہ اچھے اور سچے مسلمان ہیں جن کے دل ملت اسلامیہ کی تباہی بربادی پر تڑپتے ہیں جو اپنے قوم پر ہونے والے مظالم پر آوازیں بلند کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ارطغرل غازی ٹیلی سیریل طیب رجب اردغان کی خواہش پر تیار کیا گیا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر مسلمانوں کی امیج کو بہتر بنانا، مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے واقف کروانا، انہیں تاریخ کے حوالے سے یہ یاد دلانا ہے کہ مسلمانوں نے ناسازگار حالات کے باوجود اللہ کے دین کو عام کرنے کے لئے ہر مصیبت، ہر مشکل کا مقابلہ کیا اور کامیاب رہے۔ ترکی صدر اور عمران خان کی دوستی مثالی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اس ترکی سیریل کو پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو ڈب کرکے ٹیلی کاسٹ کروایا ہے۔ اس وقت ہر عمر، ہر طبقہ کے لوگوں پر ارطغرل غازی کا نشہ طاری ہے۔ اس ٹیلی سیریل کو محمد بزداق نے لکھا ہے۔ اسے پانچ سیزن میں لگ بھگ 170ایپی سوڈ میں پیش کیا گیا ہے۔ Engin Altan Ozyatan نے ارطغرل غازی کا کردار بہت خوبی سے نبھایا جبکہ 100 سے زائد مختلف کردار ہیں اور ہر اداکار اپنے کردار میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ ناظرین اِن اداکاروں کو کسی اور لباس تک میں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
ارطغرل غازی جیسے سیریلس بلاشبہ اپنی تاریخ سے واقف ہونے، بدترین حالات میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے، ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے دشمنوں سے چوکس رہنے کا سبق سکھاتا ہے۔ اس میں وفاء شعار خواتین بھی ملیں گی اور اپنی مفاد کے لئے اپنے کنبہ قبیلے کو داؤ پر لگانے والی سازشی مکار عورتیں بھی۔ مسلمانوں کے بھیس میں صلیبی اور صیہونی نمائندوں کی سازشیں بھی بے نقاب ہوتی ہیں۔ اور اِن سازشوں کا شکار ہوکر بے قصوروں کہ سرقلم ہوتے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ناظرین! ارطغرل غازی استنبول کے ایک گاؤں Riva میں فلمایا گیا ہے۔
13ویں صدی عیسوی کی تہذیب، ثقافت، لباس، روایات کو جس طرح سے پیش کیا گیا اور چار سال تک مسلسل ٹیلی کاسٹ ہونے والے ایپی سوڈس میں ایک دوسرے سے ربط اور دلچسپی کو برقرار رکھنے میں ڈائرکٹر نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اب مسلمانوں میں یہ شعور پیدا ہوسکتا ہے کہ ارطغرل غازی جیسے کردار جیسے غازی صلاح الدین ایوبی پر بھی ایسے ہی ٹیلی سیریل بنائی جائے۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ ٹیلی سیریل ایک نئے انقلاب کا نقیب ثابت ہوگا۔ اور مسلمانوں کی نوجوان نسل میں اس ٹیلی سیریل سے جو ذہنی اور فکری انقلاب کے آثار دکھائی دے رہے ہیں‘ اس سے وہ ممالک اور وہ طاقتیں خوف زدہ ہیں‘ جو مسلمانوں کو ہر دور میں کسی نہ کسی طریقہ سے بدنام کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض بکاؤ علماء نے بھی اس ٹیلی سیریل کے خلاف فتوے دیئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود ارطغرل غازی کو پابندی سے دیکھتے ہیں اور انہیں بھی اس بات کا ڈر ہے کہ اگر واقعی اسلامی اقدار کی بحالی کے لئے نئی نسل میں جوش اور ہوش پیدا ہوجائے تو ان کی اپنی مذہبی ٹھیکیداری ختم ہوسکتی ہے!
٭ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون: 9395381226