آن لائن تدریس کے فوائد و مضرات، حقیقت کے آئینہ میں !

  انوار الحق قاسمی،نیپالی

   تقریباً ڈھائی مہینے سے، سب امراض سے شدید و خطرناک ،مہلک اور متعدی مرض “کرونا وائرس” کی وجہ سے اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن کا ایک طویل سلسلہ جاری و ساری ہے ،اس مرض کی وجہ سے اس صفحہ زمین پر کیا نہیں رونما ہوا،جس کا وقوع ممکن تھا ،سرکاری پرائیویٹ سارے دفاتر، مدارس وجامعات، اسکولیں ،یونیورسٹیاں، دوکانیں، ٹرینیں بسیں، الغرض سب کچھ بند کر دیئے گئے؛ حتی کہ مساجد بھی مقفل کر دیے گئے، اس سے بھی بڑھ کر یہ المناک واقعہ پیش آیا کہ خانہ کعبہ کے طواف پر بھی پابندی عائد کردی گئی، ان سب پر مستزاد یہ کہ منظر قیامت کی ہولناکی اور خوف و دہشت کی ایک معمولی جھلک اس سطح زمین پر بھی واقع ہوگئی، کہ ایک انسان دوسرے انسان سے راہ فرار اختیار کرنے لگے، بیٹاماں سے، بیٹی باپ سے، بیوی شوہر سے ،بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے بھاگنے لگے، یوم یفر المرء من ا

أخيه واميه وابيه الأخ کایومیہ مشاہدہ کیا جانےلگا، اور فرقت و جدائی اور غیرمعمولی بعد و دوری اختیار کرکے ہی، اپنی زیست جینے میں کامیابی و کامرانی تصور کرنے لگے ہیں ۔

   یہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ ابھی کب تک چلے گا، کسی کو کچھ خبر نہیں ہے؛ اسی دوران “ماہ شوال المکرم” کی آمد بھی ہوچکی ہے، جس میں مدارس اسلامیہ( امت مسلمہ کے نونہالوں کو علوم الہیہ اور علوم نبویہ سے مستفید کرنے کے لیے) پھر سے نئے تعلیمی سلسلے کا آغاز کرتے ہیں،جدید داخلے لیے جاتے ہیں، اور قدیم داخلے کی تجدید کی جاتی ہیں، اب تک کرونا کی مہاماری اور مدارس اسلامیہ کے مالی بحران کے شکار ہونے کی وجہ سے، ہر ادارے کے منتظمین اور ارباب اختیار ابھی ذہنی وفکری الجھنوں کے شکار نظر آ رہے ہیں، اور نئے تعلیمی سلسلے کے آغاز کیلئے ادارے کھولنے کے تئین ہر ایک منتظم ومدرس بے حد کوشاں ہیں؛ مگر کرونا وائرس کی تعطیل کلاں میں، مزید مستزاد ہی ہورہی ہے؛ اس لئے سارے مدارس کے ارباب حل و عقد اس حوالے سے بے حد متفکر ہیں۔

 

   فی الوقت ماحول و معاشرے میں بحث کا موضوع آن لائن تدریس کے فوائد و نقصانات ہیں، یقینا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے ،کہ موجودہ دور میں، جب کہ مدارس اسلامیہ مقفل کر دیئے گئےہیں ، وہاں علوم نبویہ کے شیدائیوں کا کسب علوم کیلئے جانا، ملک کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر مناسب نہیں ہے؛ اس لیے مدارس اسلامیہ میں بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرح آن لائن تدریس آغاز کرنے کے متعلق مدارس اسلامیہ کےمابین چہ میگوئیاں شروع ہوچکی ہیں، اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر دو گروپ دیکھنے کو مل رہے ہیں، یعنی معدودے اور گنتی کےچند افراد کی رائے یہ ہے ،کہ مدارس دینیہ میں بھی آن لائن تدریس کا آغاز کیا جائے، ان کا نظریہ یہ ہے کہ کل کے فوت ہونے سے بہتر، بعض کا فوت ہونا ہے، یعنی تعلیم کی ابتداء اور شروعات نہیں کرتے ہیں ،تو اس صورت میں طلبہ کا غیر متلافی نقصان لازم آرہا ہے ؛اس لیے طلباء کواس سے بچانے کے لئے آن لائن تعلیم کا آغاز بدرجہا بہتر ہے ،اور اکثر بڑے بڑے علماء کی رائے یہ ہے ،کہ طلبا کا آن لائن تعلیم سے چند عارضی فوائد تو ضرور ہے؛ان عارضی فوائد کے ضمن میں، ان فوائد سے کہیں زیادہ مضمرات پنہاں ہیں؛ اس لئے آن لائن تدریس سے فی الفور احتراز ہی افضل اور بہتر ہے۔

   سوشل میڈیا ،نیٹ اور ملٹی میڈیا موبائل نے پوری دنیا کو نظروں کے سامنے کر دیا ہے، دنیا کے کسی کونے میں ، کوئی واقعہ پیش آتا ہے ،تو فی الفور اور چشم زدن ہی میں ہرعام وخاص لوگ اس سے واقف اور مطلع ہوجاتے ہیں، اسی طرح دنیا بھر کی ساری کتابیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن سے گھر کے کسی کاشانہ اور حجرے میں بیٹھے بیٹھے ہی پڑھ سکتے ہیں، اور ان سے خوب خوب استفادہ کرسکتے ہیں ،کسی کتب خانے میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ،اسی طرح کتابوں کے خریدنے میں جو پیسے خرچ اور صرف ہوتے تھے، ان کے بارے گراں سے بھی اب طلبہ کو سکون و راحت میسر اور فراہم ہو چکا ہے ، اور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تو اب آن لائن تعلیم بھی ہونے لگی ہیں ، اس سے تو اور بڑا فائدہ طلبہ کو حاصل ہوا ہے، کہ طلباء کو اب دور دراز سفر کے اخراجات، ذہنی اور جسمانی پریشانیوں سے نجات مل گئی ہے ،کہ اب گھر ہی پر بیٹھ کر طلبہ اپنے اساتذہ کرام سے وہ تمام علوم بآسانی آن لائن حاصل کر رہے ہیں،جن کے حصول میں، وہ دنیا بھر کی بے شمار پریشانیاں برداشت کرتے تھے، اس لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرح مدارس کے اربا ب اختیار کو بھی مدارس کے اندر “آن لائن تعلیم و تدریس” کا آغاز کرنا چاہیے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ بھی موجودہ ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کرسکے، سوشل میڈیا اور آن لائن تعلیم کے فوائد ملاحظہ کرنے کے بعد، ان کے مضرات و نقصانات سے بھی آگاہی ایک امر ناگزیر ہے، ہم مانتے ہیں، کہ آن لائن تعلیم کے بے شمار عارضی فوائد ہیں؛ مگر ان کے نقصانات بھی کوئی کم نہیں ہیں، جن سے چشم پوشی کر لیا جائے، پہلی بات تو یہ ہے، کہ ہمارے اکابر سے درس وتدریس کا یہی سلسلہ بطور توارث جاری ہوتے اب تک چلا آرہا ہے، کہ طالبان علوم نبویہ “مدرسہ” میں باضابطہ داخلہ لے کر، اپنے مشفق ومربی اور مخلص اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں، اور بالمشافہ ان سے علوم دینیہ حاصل کرتے ہیں، اور اساتذہ کرام بھی بڑے ہی مشفقانہ انداز میں، انہیں اپنے علوم سے بہرہ یاب اور مستفید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر موجودہ اخلاقی خامیوں سے بھی پاک کرتے ہیں، دوسری بات یہ ہے، کہ بالمواجہہ علوم حاصل کرنے میں ایک عجیب طرح کا لطف بھی ملتا ہے، جو آن لائن میں ملنا مشکل ہے، اساتذہ کرام طلباء کے سامنے ہوتے ہیں،کتابیں روبرو ہوتی ہیں، ہر عبارت کی توضیح و تشریح اساتذہ طلبہ کے معیار کے مطابق عمدہ اسلوب میں فرماتے ہیں، طلبہ اگر ایک دفعہ میں عبارت نہیں سمجھ پاتے ہیں، تو اساتذہ انہیں مکرر،سہ مکرردفعات سمجھاتے ہیں، تاآں کہ وہ عبارت کماحقہ سمجھ نہ لیں، دم نہیں لیتے ہیں، تیسری بات یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے یہ بات اگر تسلیم بھی کر لیا جائے، کہ آن لائن کے ذریعے بھی اساتذہ کماحقہٗ طلبہ کو عبارت کامفہوم سمجھا سکتے ہیں ؛مگر دوسری چیز ،یعنی طلباء میں موجودہ اخلاقی خامیاں اس کے ذریعے دور نہیں کیا جاسکتا ہے،جب کہ مدارس اسلامیہ نام ہے علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ اخلاقی خامیاں بھی دور کرنے کا ،چوتھی بات یہ ہے کہ طلبہ کی دو قسمیں ہیں، نمبرایک باشعور طلبہ ،نمبر دوم بےشعور طلبہ، نمبر1کے طلبہ کچھ فائدہ حاصل تو کر سکتے ہیں؛ مگر نمبر دوم کے طلبہ آن لائن تعلیم کے ذریعے سوائے نقصانات کے کچھ حاصل نہیں کر سکتے ہیں ،پانچویں بات یہ ہے ،کہ آن لائن تعلیم کے ذریعے امت مسلمہ کے نونہالوں کے مستقبل کو بیکار اور خراب کرنا لازم آتا ہے، کہ آن لائن تعلیم کا تصور بغیر انہیں ملٹی میڈیا موبائل حوالے کیے ناممکن ہے، اور ملٹی میڈیا موبائل حوالے اور سپرد کرنے کی صورت میں ،ان کے مستقبل کو تابناک ومنوربنانے کے بجائےمزید سیاہ و تاریک بنانا لازم آتا ہے،کیوں کہ اس میں جس طرح فوائد پنہاں ہیں، اسی طرح مضرات بھی مضمر وپوشیدہ ہے، اور انسانی فطرت بھی یہی ہے، کہ انسان اچھائیوں کے حصول کی طرف کم ،اور برائیوں کے حصول کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں، اور منطق کا ایک مشہور قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے ،کہ نتیجہ ہمیشہ ارذل کے تابع ہوتا ہے ،اسی لئے ہمارے اکابر دارالعلوم/ دیوبند ملٹی میڈیا موبائل کے وجود کے وقت ہی سےہی ، اب تک اس کے استعمال پر سخت پابندی عائد کرتے آرہے ہیں، پکڑے جانے اور ماخوذ ہونے کی صورت میں بلا کسی تردد اور حیص وبیص کے اخراج بھی کر دیا جاتا ہے ،الجامعہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں ،ضلع سیتامڑھی ،بہار میں،تو اس سے بھی بڑھ کر “سادہ موبائل” کے استعمال پر بھی سخت پابندی عائد ہے، اورماخوذ ہونے کی صورت میں اخراج ہے، محدث کبیر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمتہ اللہ علیہ دوران درس فرمایا کرتے تھے ،کہ میں کہتا ہوں کہ طلبہ کو ملٹی میڈیا موبائل کے استعمال سے باز رکھنے کے لیے ضروری ہے، کہ اساتذہ کرام بھی ملٹی میڈیا موبائل کے استعمال سے قطعی گریزاور اجتناب کریں، تب ہی طلبہ اس کے استعمال سے باز آ سکتے ہیں؛ ورنہ ہزار کوشش کے بعد بھی، اس میں کماحقہٗ کامیابی نہیں مل سکتی ہے، دارالعلوم /دیوبند کے مہتمم حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زید مجدہم، آن لائن تدریس کے سخت مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آن لائن تدریس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے ؛اس لیے ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔

   اس لیے مدارس اسلامیہ کے منتظمین کو چاہیے کہ آن لائن تدریس سےقطعی گریز کریں،اور حالات سازگار وموافق ہونے کے بعد ،قدیم روایات کے مطابق نئے تعلیمی سلسلے کا آغاز کریں ،اور ہرگز مدارس اسلامیہ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں پر قیاس نہ کریں؛ کیوں کہ مدارس اسلامیہ کو ان پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، اور دعا کریں کہ خالق مطلق اس وبائی مرض کرونا وائرس کو جلد ختم کر کے حالات سازگار بنائے، آمین۔

 رابطہ نمبر 9811107682