خود کشی کا بڑھتا رجحان، سوشل میڈیا اہم وجہ

خبر در خبر)633)

شمس تبریز قاسمی

ہنستا ہوا معصوم چہرہ اور ایک خوش مزاج لڑکی نے خود کشی کرلی ہے ، یہ خبر سوشل میڈیا پر مسلسل گردش کررہی ہے ۔ لڑکی کا نام ہے سیا ککر ۔ سوشل ایپ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتی تھی ، وہاں اس کے ایک ملین فلووز ہیں ۔ 24 جون کو اس نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی اور پھر ایک دن بعد اس کی خود کشی کی خبر آگئی ۔

سوال یہ ہے کہ اس لڑکی نے خود کشی کیوں کی؟ اب تک اس کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی ہے ۔ کوئی سوسائڈ نوٹ بھی نہیں مل سکا ہے۔لیکن لوگ کہہ رہے کہ وجہ ڈپریشن ہے ۔ مایوسی ہے ۔ اسے امید تھی کہ ٹک ٹاک پر بڑی تعداد میں فلووز ملیں گے لیکن ایسا نہیں ہورہا تھا ۔ ایک ہفتہ پہلے بھارت میں ایک اور خود کشی کا واقعہ پیش آچکا ہے ۔ مشہور ایکٹر شوسانت سنگھ راجپوت کی خود کشی پر ابھی تفتیش جاری تھی کہ اب ایک ٹک ٹاکر نے خود کشی کرلی ۔ شوسانت سنگھ کی خود کشی کی وجہ بھی یہی سامنے آئی تھی کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھا، مایوس تھا، فلموں میں بطور اداکار اسے کام نہیں کرنے دیا جارہا تھا ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، دولت اور پیسے بھی تھے، رہائش کیلئے شاندار بنگلہ اور آسائش کی سبھی سہولیات موجود تھیں لیکن دل بے چین تھا ، اسے اطمینان اور سکون نہیں تھا اور اب یہی ہوا ہے سیا ککر کے ساتھ ۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ دوسروں کو ہنسارہی تھی لیکن خود اندر سے بے چین تھی ، بے قرار تھی اور یہ بیقراری اسے موت تک لے گئی ۔ سیا ککر کی خود کشی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ وہ شوسانت سنگھ کی فین تھی ، موت کا صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور خود بھی پھانسی لگاکر چلی گئی ، حالاں کہ شوسانت کی موت کے بعد اس نے ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز بنائی ہے اس سے ایس کچھ ظاہر نہیں ہورہا ہے کہ وہ بہت زیادہ صدمے میں تھی ۔

 بھارت میں خود کشی کا یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ خود کشی کے معاملے میں بھارت بہت آگے ہے۔ ہر سال پوری دنیا میں تقریباً 8 لاکھ سے زیادہ لوگ خود کشی کرتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کی رپوٹ کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ پر دنیا بھر میں خود کشی سے ایک موت ہوتی ہے اور اس میں بھارت بہت آگے ہے ۔ خود کشی سے ہونے والی اموات میں سے 17 فیصد کا تعلق بھارت سے ہوتاہے ۔ بقیہ 83 فیصد میں دنیا کے دو سو ممالک شامل ہیں ۔ ہر سال یہاں تقریباً ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ خود کشی کرتے ہیں ۔ ابھی لاک ڈاﺅن کے دوران 300 اموات صرف خود کشی سے ہوئی ہے ۔ 80 لوگوں نے محض اس لئے سوسائڈ کرلیا کہ انہیں خدشہ کروناٹیسٹ میں پوزیٹیو نکل آنے کا تھا۔ بقیہ لوگوں نے بھوک، غربت، معاشی تنگی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر خود کشی کرلی ۔

 خود کشی بزدلی ہے ۔ خود کشی کی اہم وجہ ڈپریشن ، مایوسی ، ہوس اور لالچ ہے ۔ اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتاہے ۔ خود کشی سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دل کو مطمئن رکھیں ۔ ڈپریشن کا شکار نہ بنیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ کے اندر صبر اور شکر کی کیفیت ہوگی ۔ آپ کے پاس جو کچھ مال و دولت ، عزت اور شہرت ہے اسی پر خوش رہنے کی عادت ڈالیے ۔ ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیے ۔ اگر آپ کے پاس رہنے کیلئے ایک روم کا مکان ہے تو آپ ان کو کبھی مت دیکھیے جن کے پاس دو روم کا فلیٹ ہے بلکہ انہیں دیکھیے جن کے پاس کرایہ کا مکان ہے یا پھر انہیں دیکھیے جو لوگ خیمہ تان کر رہنے پر مجبور ہیں یا پھر سڑکوں پر ٹھنڈ راتوں میں بھی سوکر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ شکر ادا کیجئے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا ایک مکان دیاہے ۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اگر آپ کے دس ہزار فلووز ہیں تو کبھی انہیں مت دیکھیے جن کے ایک لاکھ ہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ ڈپریشن کے شکار ہوں گے ، مایوسی ہوگی کہ اتنی محنت کے باوجود اتنا کم کیوں ہے ۔ آپ ان کے اکاؤنٹ کو دیکھیے جن کے ایک ہزار بھی نہیں ہیں اور پھر شکر ادا کیجئے کہ آپ کی پوزیشن بہت سارے لوگوں سے بہتر ہے ۔

 خود کشی کی وجہ ڈپریشن ہے اور ڈپریشن سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ دل میں زیادہ خواہشات نہ پالیں ، جو کچھ ہے اسی پر صبر کریں ، شکریہ ادا کرنے کا جذبہ پیدا کریں ۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے دل کو مطئمن رکھیں ۔ سوشل میڈیا کو استعمال کم کریں ۔ اس کو زندگی کا نصب العین ہر گز نہ بنائیں ۔ لائکس اور کمنٹ کی امید کے بغیر سوشل میڈیا کا استعمال کریں ۔ کیوں کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا بھی خود کشی کی اہم وجہ بنتا جارہا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا نے لوگوں کو دوستوں ، رشتہ داروں سے دور کرکے تنہا زندگی گزارنے کا عادی بنادیا ہے اور یہ تنہائی ڈپریشن میں تبدیل ہوتی ہے اور پھر آدمی خود کشی تک پہونچ جاتا ہے ۔

(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں