اسرائیل کے ساتھ شروع سے سفارتی رشتہ نبھارہا ہے ترکی پھر متحدہ عرب امارات پر غصہ کیوں ؟

پس آئینہ: شمس تبریزقاسمی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان پیس اگریمنٹ ہوا ہے۔ اس اگریمنٹ پر سب سے زیادہ شدید ردعمل اور غصہ کا اظہار مسلم ملکوں میں ترکی نے کیا ہے ۔ ترکی نے یو اے ای سے سفیر واپس بلانے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے ۔ لیکن کاؤنٹر سوال خود ترکی پر ہورہا ہے ۔ ترکی کا 70 سالوں سے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ اور سفارتی تعلق ہے ۔ 1948 میں جب اسرائیل قائم ہو ا تو مسلم ممالک میں سب سے پہلے ترکی نے ہی اے تسلیم کیا ۔ آج تک ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی رشتہ برقرار ہے ۔ پھر ترکی کیوں متحدہ عر ب امارت پر غصہ کررہا ہے ۔ کس منہ سے عرب ملک کو منافق کہہ رہا ہے ۔ جس کام کیلئے آج یو اے ای کی تنقید ہورہی ہے ترکی تو اسے 70 پہلے سے انجام دے رہاہے ۔ ملت ٹائمز کے بہت سارے ناظرین نے کمنٹ کرکے اور میرے پرسنل پر میسیج کرکے مطالبہ کیا کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کی حقیقت کیا ہے ۔ یہ کب سے ہے ۔ کیا سچائی ہئے ۔ اس پر ایک پروگرام کریں ۔ ایک مضمون تحریر کریں ۔
اسرائیل جس خطے اور علاقے کا نام ہے ۔ یہ در اصل فلسطین کا حصہ ہے ۔ مسلمانوں کی آبائی سرزمین ہے ۔ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے فتح کیا تھا ۔ گیارہویں صدی میں دوبارہ یہاں عیسائیوں کی حکومت بن گئی اور تمام مسلمانوں کاقتل عام کردیا ۔ 90 سالوں بعد صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ یہ شہر فتح کرکے مسلمانوں کے حوالے کردیا ۔ خلافت عثمانیہ کے قیام کے بعد فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہودیوں اور عالمی طاقتوں نے اسرائیل بنانے کیلئے خلافت عثمانہ کا خاتمہ کرایا ۔ اسرائیل کے قیام کا یہی ایک راستہ بچا تھا ۔ یہ سازش کامیاب ہوئی اور 1948 میں فلسطین کی زمین پر یہودیوں کا ملک قائم ہوگیا جس کا نام اسرائیل ہے ۔
جب اسرائیل قائم ہوا تو دنیا میں مسلمانوں کا کوئی متحدہ بلاک نہیں تھا ۔ مسلمان انتشار کے شکار تھے ۔ عربوں نے شدید مخالفت کی ۔ یہودیوں کو یہاں سے نکالنے کیلئے لڑائی چھیڑ دی لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔ کچھ دنوں بعد یورپین ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کردیا ۔ ایک سال بعد مارچ 1949 میں ترکی نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔ جنوری 1950 میں ترکی نے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں اپنا کمیشن قائم کردیا ۔ ترکی واحد مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے سب سے پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا ۔
آج کی تاریخ میں ترکی پر مسلسل سوال اٹھ رہا ہے کہ اس نے اسرائیل کو کیوں تسلیم کیا ۔ اس کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کیوں کیا ۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت کیوں ہوتی ہے ۔طیب اردگان ترکی کے ساتھ سفارتی رشتہ ختم کیوں نہیں کرتے ہیں ۔ ان تمام سوالات کی بنیاد ترکی کی جدید تاریخ اور حالات سے ناواقفیت ہے ۔
ترکی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد 1923 میں قائم ہونے والا ایک ملک ہے ۔ خلافت عثمانہ کے خاتمہ کے بعد دنیا میں چالیس سے زیادہ ممالک وجود میں آئے ۔ اس میں سے ایک ترکی بھی ہے ۔ خلافت عثمانیہ کی راجدھانی اور اس کے اہم ترین شہر جدید ترکی میں آتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کو قائم کرنے والے اور چھ سو سالوں تک آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے بھی ترک ہی تھی اس لئے موجودہ ترکی خلافت عثمانیہ سے اپنا تاریخی رشتہ جوڑتا ہے اور یہ سچائی اور حقیقت ہے ۔ بہر حال 1923 میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور جدید جمہور ترکی ایک ملک بنا تو یہاں سب سے زیادہ ظلم مسلمانوں پر کیا گیا ۔ جدید سیکولر ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے دین اور مذہب سے جڑی ہر چیز پر پابندی عائد کردی ۔ اذان عربی میں دینے پر پابندی عائد کردی اور 1950 تک عربی زبان میں اذان نہیں دی گئی ۔ کمال اتاترک نے بہت سارے مدارس ، مساجد اور خانقاہوں پر پابندی عائد کردی ۔ ایا صوفیہ مسجد کو میوزیم بنادیا تھا ۔ عورتوں کے نقاب پہننے کو جرم قرار دے دیا ۔ ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر انگریزی میں کردیا ۔ یہ سب ترکی میں ہوا اور اس کے کرنے والے تھے کمال اتاترک ۔ کسی کے وہم وگیا میں نہیں تھا کہ جس خطے نے چھ سو سالوں تک اسلامی شریعت کے مطابق پوری دنیا پر حکومت کی ایک دن وہی زمین اسلام کے ماننے والوں کیلئے تنگ ہوجائے گی ۔ لیکن ایسا ہی ہوا ۔ 1948 میں جب اسرائیل قائم ہو ا تو اس وقت اسی ذہنیت کے لوگوں کی ترکی میں حکومت تھی چناں چہ انہوں نے فورا اسرائیل کے وجود تسلیم کرلیا۔
تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کیلئے نوجوان ترکوں کی بنیاد مسلمانوں نے نہیں بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ڈالی تھی ۔ نوجوانان ترک کی تحریک میں پردہ کے پیچھے سے سب کچھ یہی یہودی کرتے تھے ۔ نوجوان ترک کے بانیو ں میں نمایاں نام ایمانول کاراسو کا آتاہے جو ایک یہودی تھا ۔ اس کے علاوہ سارا ہدایا اور تھیوڈ ہرزل سمیت کئی نام مشہور ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکانے اور ترک عوام کی ذہنیت تبدیل کرنے میں نمایاں کردار نبھایا تھا ۔ اس لئے اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیئے کہ ترکی نے اسرائیل کو کیوں تسلم کیا کیوں کہ اس وقت دونوں طرف ایک ہی ذہینت کے لوگوں کا غلبہ تھا ۔ یہودی مشنری ترکی میں سرگرم تھی ۔
1977 میں اسلامی تعاون تنظیم کا بیروت میں اجلاس ہوا ۔ اس اجلاس میں سعودی عرب ۔ مصر ۔ سمیت تقریبا سبھی مسلم دیشوں نے ترکی پر شدید دباؤ بنایاکہ وہ اسرائیل سے اپناتعلق ختم کردے ۔ کئی ملکوں نے کھل کر ترکی کی شدید تنقید کی ۔ ایران نے ترکی کیلئے وہی جملہ استعمال کیا جو آج اس نے متحدہ عرب امارات کیلئے کیا ۔ 1980 کی دہائی کے بعد ترکی نے اپنی پالیسی کچھ تبدیل کی اور عر ب ممالک سے بھی قربت اور تعلق میں اضافہ کیا ۔ ترکی نے دونوں کے ساتھ اپنا رشتہ برقرارکھنے کے منصوبہ پرعمل کیا ۔ ثقافت اور کلچرل امور میں عربوں سے ترکی نے فائدہ اٹھایا اور ٹیکنالوجی کے معاملہ میں اسرائیل سے ۔
2002 میں ترکی میں ایک نیا انقلاب آیا ۔ اسلام اور سیکولر اقدار کی حامل جماعت اے کے پارٹی کو شاند ار جیت مل گئی ۔ کمال اتاترک کی ذہنیت والی سیکولر پارٹی کا صفایا ہوگا ۔ 2003 میں رجب طیب اردگان ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ 2005 میں طیب اردگان اسرائیل کے سرکارے دورے پر گئے ۔ اردگان کے اس دورہ کا مقصد میڈیل ایسٹ میں امن قائم کرنا اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کو ختم کرنا تھا ۔ طیب اردگان کا یہ بھی منصوبہ تھا کہ وہ ثالثی کا کردار اداکرکے خطے میں جاری تنازع کو ختم کریں گے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہوپایا ۔ 2008/9 میں اسرائیل نے غزہ پر سلسلہ وارحملہ جاری رکھا ۔ اسرائیل کے حملہ میں تقریباً 1400 فلسطینیوں کی شہادت ہوگئی۔ ترکی نے اس واقعہ پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اسرائیل کو دہشت گرد ریاست تک کہہ دیا اور پھر یہیں سے رشتہ بگڑنا شروع ہوگیا ۔ 2010 میں ترکی نے میوی مریم نام کا ایک جہاز فلسطین کی مدد کیلئے روانہ کیا ۔ انٹرنیشل سمندر کی حدود میں اسرائیل نے راستہ بند کردیا ۔ ترکی کے جہاز نے جب اسے کروس کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلی کی فوج نے ہیلی کاپٹر سے فلوٹیلا پر حملہ کردیا ۔ اس میں نو شہری جاں بحق ہوگئے اور کئی زخمی ہوئے ۔ زیادہ تر ترکی کے شہری تھے ۔ جن دنوں یہ معاملہ ہوا اس وقت طیب اردگان کسی ملک کے سرکار ی دورے پر گئے ہوئے تھے ۔ اسرائیل کی جانب سے ہوئے حملہ کی خبر ملتے ہی اپنے ملک واپس آگئے اور اسے دہشت گردانہ حملہ بتایا ۔ باضابطہ اسٹیمنٹ جاری کرکے کہاکہ اسرائیل ایک دہشت گر د ریاست ہے ۔ ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو واپس بھیج دیا اور یہاں سفارت خانہ بند کردیا ۔ اسرائیل سے ہرجانہ ادا کرنے کی مانگ کی اور یہ مطالبہ کیا کہ اسرائیل فوری طور پر ترکی سے معافی مانگے ۔ لیکن اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ایئل شیرون نے معافی مانگنے سے انکار کردیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلق بیحد خراب ہوگیا ۔ اردگان نے ایک مرتبہ پھر کہاکہ جب تک اسرائیل معافی نہیں مانگتا ہے ہم سفارتی تعلق بحال نہیں کریں گے ۔ فلسطینی ہمارے بھائی ہیں۔ ان پر اور ان کے حقوق پر حملہ کرنا ہم پر حملہ کرنا ہے ۔ ان کے دشمن ہمارے دشمن ہیں ۔ اسرائیل نے مجبور ہوکر 2013 میں معافی مانگ لی ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم ایرل شیرون نے فون کرکے اردگان سے معافی طلب کی ۔ 2010 کے معاملہ کیلئے خود کو قصور وار ٹھہرایا ۔ کہاکہ اب ہم دونوں پھر سے سفارتی تعلقات کی شروعات کرتے ہیں ۔
2016 میں پھر سے دونوں ملکوں میں سفارتی تعلق قائم ہوا لیکن اب معاملہ پہلے جیسا نہیں رہا ۔ ترکی نے اپنی پالیسی واضح کردی کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کو برداشت نہیں کرے گا ۔ 2018 میں جب اسرائیل غزہ پر بمباری کی تو اس وقت بھی ترکی نے اسرائیل کے خلاف واضح ردعمل دیا اور اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست بتایا ۔ ترک صدر رجب طیب اردگان اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان ٹوئٹر پر سخت الزامات اور جواب کا تبادلہ بھی ہوا ۔ ترک صدر ایردوآن کا کہنا تھا، ”اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے۔ اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے، وہ نسل کشی ہے۔ ” دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ترک صدر کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا، ” اردگان حماس کے ایک بڑے حامی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دہشت گردی اور قتل و غارت میں مہارت رکھتے ہیں۔“
2018 میں امریکہ نے جب اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھی ترکی نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ۔ ٹرمپ نے جب سنچری ڈیل پیش کیا اس وقت بھی اردگان نے مخالفت کی اور آج بھی ہر معاملہ میں ترکی اور وہاں کے صدر رجب طیب اردگان فلسطینوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔ بی بی سی کا تبصرہ ہے کہ 2010 کے بعد ترکی اور اسرائیل کے بیچ رشتے مسلسل خراب اور کشید ہورہے ہیں ۔ اب یہ تعلق برائے نام ہے ۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلق کی یہ سچائی ہے ۔ تاہم ایک سوال کا جواب ابھی باقی ہے کہ ترکی اسرائیل سے مکمل سفارتی رشتہ ختم کیوں نہیں کررہا ہے ۔ اب تک باقی کیوں ہے ۔
آج کی تاریخ میں ترکی اسرائیل سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کی پالیسی کی شدید تنقید کرتا ہے اور ہر موقع پر فلسطنیوں کا ساتھ دیتاہے ۔ اگر ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلق نہیں رہتا تو ایسے بیان اور تنقید کی زیادہ اہمیت نہیں رہتی لیکن سفارتی تعلق قائم رہنے کے باوجود ایسی شدید مخالفت اثر انداز ہوتی ہے اور اسرائیل کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دنیا کے بہت کم ایسے ممالک ملیں گے جو سفارتی تعلقات رکھنے والوں کی اس طرح کھل کر مخالفت کریں اور اس کے دشمن ملک کی کھل کر حمایت کریں ۔ لیکن ترکی آج یہ کررہا ہے ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان صرف ترکی میں بیٹھ کر اور میڈیا کے سامنا اسرائیل کو دہشت گرد ریاست نہیں کہتے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ہر اجلاس میں پوری جرأت اور طاقت کے ساتھ وہ اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہیں ۔ فلسطینیوں کے حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کا ان کا حق دیا جائے ۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مقابلے میں ترکی کا ساتھ اس لئے بھی اس وقت دنیا بھر کے مسلمان دے رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کھل کرتاہے ۔ اسے اسرائیل اور امریکہ کی ناراضگی کا خوف نہیں ہوتا ہے ۔ عالمی طاقتوں کو چیلنج کرکے فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیتاہے اور یہ جرأت اس وقت ترکی کے علاوہ کسی بھی مسلم دیش میں نہیں ہے ۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کھل کر فلطسینیوں کی حمایت نہیں کرپاتے ہیں نہ ہی اسرائیل مظالم کی مذمت کرتے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہوتا ہے امریکہ کی ناراضگی کا ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کمال یہ ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے بھی اس کے سامنے جھکتے نہیں ہے ۔ عالم اسلام کا وقار داؤ پر نہیں لگاتے ہیں ۔ معیشت کی بہتری اور ہتھیار کی فراہمی کیلئے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ترکی ایک جمہوری ملک ہے ۔ وہاں آمریت اور بادشاہت نہیں ہے ۔ جمہوری ملک کیلئے کوئی بھی فیصلہ لینا آسان نہیں ہوتاہے ۔ خاص طور پر کسی ملک سے رشتہ مکمل منقطع کرلینا ۔ کبھی بھی ایسا فیصلہ عوام کو پسند نہیں آتاہے اور پھر الیکشن میں اسی کو بنیاد بناکر عوام مخالف ہوجاتے ہیں ۔ ترکی میں اپوزیشن بہت مضبوط ہے اور وہ مسلسل اردگان کے ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں جس کے ذریعہ ترکی سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو راحت ملتی ہے ۔ سکون ملتاہے اور ان کے عزت و احترام میں اضافہ ہوتاہے ۔ جبکہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بادشاہت ہے ۔ وہاں عوام اور اپوزیشن کی ناراضگی اور الیکشن کا خوف ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ بادشاہ اور فرماں روا جو فیصلہ چاہے لے لے کوئی روکنے ولا نہیں ہے ۔ کسی میں اس کے خلاف آواز اٹھانے اور مخالفت کرنے کی بھی جرات نہیں ہوتی ہے ۔ اگر کوئی ایسی جرأت کرتا ہے تو پھر اسے بقیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑتی ہے ۔
یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ ترکی کی جانب سے اسرائیل کو تسلم کرنا زیادہ معنی نہیں رکھتاہے اور نہ ہی اس کا اس میں کوئی مفاد ہے تاہم متحدہ عرب امارات کی جانب اسے تسلیم کیا جانا اوراس کے ساتھ سفارتی تعلق قائم ہونا پورے خطے کیلئے سنگین خطرہ ہے ۔ اسرائیل کا اصل منصوبہ گریٹر اسرائیل بنانا ہے ۔ گریٹر اسرائیل کے نقشہ میں ،سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت کے ساتھ مکہ مدینہ بھی شامل ہے ۔ سفارتی تعلق قائم ہونے کے بعد اسرائیل کو آسانی سے عر ب ریاستوں میں داخل ہونے کاموقع مل جائے گا اور پھر اس طرح اس کی سازشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ ہندوستان میں انگریزوں کو مغل حکومت نے تجارت کرنے کی اجازت دی تھی لیکن انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کا ہی خاتمہ کردیا ۔ یورپ اور امریکہ میں جب یہودیوں پر ظلم ہوا۔ ہسپانیہ سے بھگایا گیا ۔ روس میں قتل عام ہو ا تو اس وقت خلافت عثمانیہ نے ہی اسے بچایا اور اپنی سلطنت میں رہنے کیلئے جگہ دی لیکن ایک دن یہ یہودی اسی عثمانی سلطنت کے دشمن بن گئے اور اس کو ختم کردیا ۔ اس لئے یہ اندیشہ ہے متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی کہیں ایسا ہی معاملہ نہ ہوجائے ۔
فلسطین عرب کا خطہ ہے ۔ اس تعلق کے بعد اب فلسطینیوں کو عربوں کا ساتھ نہیں مل پائے گا ۔ یہ بھی ممکن نہیں لگ رہاہے کہ سفارتی تعلق قائم ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیلی دہشت گردی اور فلسطینی مسلمانوں کے حق میں کبھی کچھ بولنے کی جرأت کرسکے گا ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )