حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور موجودہ حکمران

محمد شمس عالم قاسمی
اگر آپ پوری تاریخ انسانی کی رو گردانی کریں اور اس کار گہ عالم کے تمام حکمرانوں و قائدین کی حالات زندگی کو سامنے رکھیں تو آپ کو کوئی بھی بادشاہ یا عظیم راہنما ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا ہو اور نہ خون کی ندیاں بہیں ہوں، نہ ظلم و ستم کا بازار گرم ہوا ہو، ملک کا حاکم کسی ایک بھی جنگ میں خود شریک نہ ہوا ہو، لیکن سپاہیوں، افسروں اور کمانڈروں پر اس کا ایسا رعب ہو کہ کسی بھی کمانڈر نے اس کے ہدایت کے خلاف ورزی نہ کی ہو، دشمنوں سے فریب و بد عہدی نہ کی ہو، نہ مقتولین کی بے حرمتی کی ہو، نہ باغات اجاڑے ہوں اور نہ ہی مکانات مسمار کئے ہوں
آپ وقت ضائع کرنے کیلئے سکندر، بخت نصر، چنگیز خاں، ٹونی بلیر، جارج ڈبلو بش اور نیتن یاہو کا نام لے سکتے ہیں لیکن ان کا نام لینے سے قبل آپ کو اپنے دل سے خشیت الہی کو نکالنا ہوگا، ضمیر کا گلا گھونٹنا ہوگا، سچائی کو تہہ تیغ کرنا ہوگا، کیونکہ ان لوگوں نے شہروں، دیہاتوں، قلعوں، بازاروں، زمینوں اور جسموں کو ضرور فتح کیا لیکن دلوں اور دماغوں کو فتح نہ کرسکیں۔
کیا آپ نے کسی ایسے حکمراں کا نام سنا ہے؟ کہ جس کے خوف سے وقت کے سپر پاور کے جسم پر لرزہ طاری ہو لیکن خود اس کا یہ حال ہو کہ خوف خدا سے اس کا دل ہر لمحہ لرزاں رہتا ہو، جس کے تواضع کا عالم ہو کہ کاندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کیلئے پانی بھرتا ہو، جب حکومتی کام و کاج اور رعایا کی خدمت سے تھک جاتا ہوتو مسجد کے گوشہ میں فرش خاک پر لیٹ جاتا ہو، جو بلا تکلف گدھے پر سوار ہو جاتا ہو، جس کی آمد و رفت پر ہٹو بچو کی صدائیں بلند نہ ہوتی ہو اور نہ نوکر چاکر اس کے دائیں بائیں چلتے ہوں، جس کے زہد و قناعت کا یہ عالم ہو کہ جسم ساتھ نرم کپڑا بھی مس نہ ہوا ہو، جس کے کرتے میں بارہ پیوند لگے ہوں، سر پر پھٹا عمامہ اور پاؤں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوں، جو رعایا کی خبر گیری کیلئے راتوں کو نہ سوتا ہو اور شب کی تاریکی میں دارالحکومت کی گلی کوچوں میں پہرہ دیتاہو، جس نے اپنی اہلیہ کو بوقت ضرورت عورتوں کی خدمت کیلئے بھیجا ہو، جس کا نظام عدل اتنا قوی اور ہمہ گیر ہو کہ کسی بھی ظالم حکمراں کی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی ہو اور جسے دیکھ کر شیطان بھی دور بھاگتا ہو
آپ ان تمام صفات کو سامنے رکھ کر حقیقت کی نگاہ سے تاریخ کا مطالعہ کیجئے، صفحات کے صفحات کھنگا لتے جائیے! آپ کی نظر التفات جس نام پر جاکر ٹک جائے گی، وہ نام صفہ نبوی کے فیض یافتہ، معلم انسانیت کے ایک عظیم دوست، خلیفہ ثانی، فاروق اعظم، امیرالمومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی کا ہوگا، جنہوں نے ملکوں اور زمینوں کے ساتھ انسانوں کے دل و دماغ کو بھی فتح کیا ہے، جنہوں افکار و نظریات کا رخ بدل کر جذبات و خیالات میں بھی انقلاب برپا کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلٰی و ارفع سب سے افضل و اکمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکت ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ” (حدیث)
آپ کے دور خلافت میں ایک بڑھیا کا تیل زمین میں گرکر سرایت کر گیا اس نے آکر امیر المومنین سے اس بات کی شکایت کی تو آپ نے زمین کے نام ایک خط لکھ کر بڑھیا کو دیا اور فرمایا کہ اس رقعہ کو زمین کے حوالے کر دینا چنانچہ اس نے واپس آکر ایسا ہی کیا تو زمین نے اس کا تیل اگل دیا اور بڑھیا کو تیل واپس مل گیا یہ تھی فاروق اعظم کی شخصیت کہ انسان تو انسان زمین بھی ان کے حکم کے تابعدار ہوگئی تھی ۔
آپ کے تواضع و انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ آپ سخت دھوپ میں سر پر چادر ڈال کر کہیں تشریف لے جارہے تھے ایک غلام کو گدھے پر سوار جاتے دیکھا آپ چونکہ تھک گئے تھے اسی لیئے آپ نے غلام سے گدھے پر بٹھا لینے کی درخواست کی، اس کیلئے اس سے زیادہ شرف کی اور کیا بات ہوسکتی تھی فوراً گدھے سے کود پڑا اور سواری کیلئے اپنا گدھا پیش کیا آپ نے فرمایا ” میں اپنی وجہ سے تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا، تم اپنی جگہ بیٹھے رہو میں تمہارے پیچھے بیٹھ جاتا ہوں” غرض اسی حالت میں مدینہ کی گلیوں میں داخل ہوگئے ، لوگ امیرالمومنین کو غلام کے پیچھے دیکھتے اور تعجب کرتے تھے ۔
آپ رعایا کی خبر گیری کیلئے راتوں کو گشت کیا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک بدو خیمہ کے باہر بیٹھا ہوا تھا آپ نے اس کے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں دفعتاً خیمے سے رونے کی آواز آئی آپ نے سوال کیا کون روتا ہے؟ اس نے کہا میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے، آپ گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لیا اور اس شخص سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمے میں بھیج دیا تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوا اہلیہ نے آپ کو پکارا، امیرالمومنین! اپنے دوست کو مبارک باد دیجئے، امیرالمومنین کا لفظ سن کر وہ شخص چونک پڑا اور مودب ہو کر بیٹھا آپ نے فرمایا ” کوئی بات نہیں بے تکلف رہو!” کل میرے پاس آکر ضروری سامان لے لینا ۔
حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ جو مصر کے گورنر تھے ان کے صاحبزادے نے بلاوجہ ایک شخص کی پٹائی کردی اس شخص کے کہا میں امیرالمومنین سے تمہاری شکایت کروں گا تو صاحبزادے نے کہا کہ تمہاری شکایت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہم بڑوں کی اولاد ہیں ۔
حج کے موقع پر جب تمام عہدیداران موجود تھے امیرالمومنین نے مجمع میں کھڑے ہوکر اعلان فرمایا کہ جس کسی کو ان لوگوں سے شکایت ہو وہ پیش کرے وہ شخص کھڑا ہوگیا اور اپنی شکایت کردی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت حضرت عمرو بن العاص اور دیگر عہدیدار کی طرف متوجہ ہوکر ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا فرمایا کہ “تم نے ان لوگوں کو کب سے غلام بنایا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا” پھر اس شخص سے کہا ” یہ کوڑا لو اور بڑوں کی اولاد سے اپنا بدلہ لے لو ” اس طرح سے آپ نے ان کے مابین انصاف کا معاملہ کیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے انداز کے حکمرانی کن کن خوبیوں کا ذکر کیا جائے اور کیا کیا بتایا جائے، دور حاضر کی جدید ترین حکومتوں نے عوامی فلاح و بہبود، بے روزگاری کا خاتمہ، حکومتی اداروں کی جوابدہی کے احساس، عدلیہ کی آزادی، نظام انصاف کا استحکام، رفاہی اداروں کے قیام، کمزوروں اور معذوروں کی سرپرستی کے بنیادی اصول اسی حکمراں سے اخذ کئے ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے مسجد نبوی کی چٹائی پر بیٹھ کر جدید ذرائع ابلاغ کے بغیر مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں پھیلی ہوئی سلطنت کو کنٹرول کیا کرتا تھا ، آپ ہی نے سب سے پہلے فوجی دفتر اور والینٹروں کی تنخواہیں مقرر کیں، مردم شماری اور زمین کی پیمائش کرائیں، جیل خانہ، پولیس کا محکمہ، اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، غریب عیسائیوں اور یہودیوں کے وظیفے مقرر کئے، یتیموں اور پیدا ہونے والے ہر بچے کا بیت المال سے خصوصی وظائف جاری کرنے کا حکم دیا، لیکن آج اس دور حاضر میں عالم اسلام پر چھائی ہوئی مجموعی بے حسی کو دیکھ کر یہ دعوٰی بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ میں ایک ایسا فاتح اور حکمراں گزرا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ انسانی عاجز و قاصر ہے
عالم اسلام کے موجودہ حکمرانوں کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح سے بہت دور کی بھی مناسبت نہیں ہے، کہاں وہ جس کی ہیبت سے وقت کی سپر پاور طاقتیں ( قیصر و کسری) لرزہ بر اندام رہتے تھے اور کہاں یہ لوگ جو دنیا کے ظالم حکمرانوں سے خوف زدہ ہیں اور وقت کے سپر پاور (اسرائیل و امریکہ) کی غلامی کر رہے ہیں، کہاں وہ جو گدھے یا اونٹ پر پیوند زدہ لباس پہن کر بغیر کر و فر کے نکلتا تھا، مگر عالم اسلام کے باہر بھی محسوس کیا جاتاتھا کہ مرکز عالم جنبش میں آگیا ہے اور کہاں یہ شہزادے جو جدید ترین گاڑیوں کے بیڑے اور سینکڑوں محافظوں کے جلوس میں دولت کی نمائش کرتے ہوئے دوڑتے پھرتے ہیں مگر کوئی نہیں دیکھتا کہ کون آیا اور کون گیا، ببیں تفاوت رہ کجا است تا بکجا
موجود مسلم حکمرانوں کی پستی اور مغلوبیت کو اندازہ اس طور پر بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پچاس سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں لیکن ان میں سے کوئی حکمراں ایسا نہیں جو اپنے فلسطینی بھائیوں کے شب و روز بہتے ہوئے خون کا بدلہ لے سکے یا دشمنان اسلام کے خلاف اپنی آواز بلند کرسکے، اسلامی مساوات اور عدل فاروقی کی داستانیں کتابوں میں تو ملتی ہیں مگر عملی زندگی میں ان کے مظاہر دیکھنے کیلئے آنکھیں ترس گئیں ہیں ۔
اس پر فتن دور میں امت مسلمہ کے ہر ہر فرد کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ باطل کی سرکوبی اور اس سے مقابلہ آرائی کیلئے اپنے قلب و جگر میں جذبہ فاروقی پیدا کریں، انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وقت کے ابوجہل و ابو لہب کے ظلم و جور اور جبر و تشدد کو روکنے کی بھر پور کوشش کی جائے، ہر شیطانی فتنے اور دجالی طاقت و قوت کو مسمار کیا جائے اور طاغوتی لشکر کے عزائم و مقاصد کو ناکام بنایا جائے ۔
اللہ تعالٰی ہم تمام لوگوں کو اس عظیم کام کو کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور دونوں جہان کی کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے ۔ آمین