خبر در خبر (641)
شمس تبریز قاسمی
اجودھیا میں مسجد کی تعمیر کا مسئلہ تنازع شکار ہوگیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کا فیصلہ سنایا تھا اور بابری مسجد کیلئے الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس پانچ ایکڑ زمین پر مسجد کی تعمیر بھی مشکل بنتی جارہی ہے ۔ اس کام کیلئے بنایا گیا ٹرسٹ تنازع کا شکار ہوگیا ہے ، اور سب سے بڑا تنازع یہ ہے کہ کیا اس مسجد کا نام بابری مسجد ہی رکھا جائے گا یا کچھ اور؟
ستمبر 2019 میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد ۔رام مندر تنازع کا فیصلہ سنا دیا تھا ۔ فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ہندو فریق کے سبھی دعوی کو خارج کردیا تھا تاہم بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا ہی فیصلہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ مسجد کی تعمیر کیلئے دوسری جگہ سرکار زمین دے گی ۔
آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے زمین لینے سے انکار کردیا ۔ لیکن قانونی طور پر مسجد کی تعمیر کا حق اور فیصلہ کا اختیار سنی وقف بورڈ کا ہے ۔ یوپی سنی سینٹر ل وقف بوڈ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، دیگر تنظیموں اور مسلمانوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سرکار سے زمین نہ لے ۔ لیکن وقف بورڈ ایسے کسی بھی مشورہ کو قبول نہیں کیا ۔
یوپی حکومت نے اجودھیا شہر بہت دور 17 کیلومیٹر کے فاصلہ پر دھنی پور کے ایک گاؤں میں بابری مسجد کی زمین کے عوض پانچ ایکڑ زمین دی ۔ سنی وقف بورڈ جگہ کو ایکوائر کرلیا ہے ۔ مسجد کی تعمیر کیلئے ایک ٹرسٹ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے جس کا نام ہے انڈو – اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن’ (آئی آئی سی ایف)۔ سنی وقف بورڈ نے پچھلے دنوں ایک لوگو بھی جار ی کیا ہے ۔
لیکن یہ ٹرسٹ اب تنازع کا شکار ہوگیا ہے اور معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا ہے ۔ کچھ وکیلوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے کہا ہے کہ اس ٹرسٹ میں سرکاری نمائندہ بھی شامل ہونا چاہیے۔
عرضی وکیل ششر چترویدی اور کرونیش شکلا کے ذریعہ داخل کی گئی ہے ۔ یہ دونوں وہی وکیل ہیں جو ایودھیا معاملہ میں ہندو فریق کی پیروی کر رہے تھے ۔ انھوں نے عرضی میں کہا ہے کہ ایودھیا میں امن و امان اور خیرسگالی بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسجد تعمیر کے لیے تشکیل ٹرسٹ میں سرکاری نمائندہ شامل ہو۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو پی حکومت نے عدالت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ایودھیا ضلع کے دھنّی پور گاؤں میں سنی وقف بورڈ کو 5 ایکڑ زمین دے دی ہے۔ 29 جون کو وقف بورڈ نے زمین پر مسجد اور عوامی سہولیات کی کچھ دیگر چیزیں بنانے کا انتظام دیکھنے کے لیے آئی آئی سی ایف نامی ٹرسٹ کا اعلان بھی کر دیا، لیکن اس 15 رکنی ٹرسٹ میں کوئی بھی سرکاری نمائندہ شامل نہیں جس پر غور کیا جانا چاہیے۔
عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ مسجد تعمیر کے لیے ملک سے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی چندہ آ رہا ہے ۔ جب وہاں مسجد، ہاسپیٹل، لائبریری، کمیونٹی سنٹر وغیرہ تعمیر ہو جائے گا تب وہاں ہزاروں لوگ آئیں گے اور ایسے میں بہت ضروری ہے کہ ٹرسٹ کے کام اور وہاں آنے والے لوگوں پر حکومت کی بھی نظر رہے۔ اس کے لیے ٹرسٹ میں کچھ سرکاری نمائندوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے ۔ ٹرسٹ کا بنیادی کام مسجد کی تعمیر اور اس کا انتظام دیکھنا ہے ، اس لیے عرضی دہندگان نے مشورہ دیا ہے کہ سرکاری نمائندے مسلم طبقہ سے ہی رکھے جائیں ۔
عرضی میں عدالت سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو مسجد تعمیر کے لیے ایک ایسے ٹرسٹ کی تشکیل سے متعلق ہدایت دے جس میں کچھ سرکاری نمائندے بھی شامل ہوں، اور اس سلسلے میں رام مندر تعمیر کے لیے تشکیل ٹرسٹ ‘شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر’ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ عرضی میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا میں متنازعہ پوری زمین ہندو فریق کو دیتے ہوئے حکومت کو مندر تعمیر اور انتظام دیکھنے کے لیے جو ٹرسٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا، اس میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے نمائندوں کو شامل کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے سنی وقف بورڈ کو بھی ایودھیا میں 5 ایکڑ زمین دینے کے لیے کہا تھا جو اسے مل بھی گئی ہے، لیکن مسجد وغیرہ تعمیر اور اس کی دیکھ ریکھ میں سرکار کا کوئی کردار طے نہیں کیا گیا، حالاں کی اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ ہے پورا معاملہ ۔ اس دوران ایک اور نیا معاملہ یہ کے بابری مسجد کے عوض جو جگہ ملی ہے وہاں تعمیر ہونے والی مسجد کانام کیا ہوگا ۔ کیا بابری مسجد ہی نام ہوگا یا کچھ اور ہوگا ۔ یوپی حکومت کے وزیر محسن رضا کا ایک ویڈیو پچھلے دنوں وائرل ہوچکا ہے کہ مسجد کا نام بابری نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسا کرنے دیا جائے گا ۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ کا رویہ اور انداز بھی بتارہا ہے کہ وہاں تعمیر ہونے والی مسجد کا نام بابری مسجد نہیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کی جو خبریں آرہی ہے ان میں بابری مسجد کی جگہ صرف مسجد کا تذکرہ ہوتا ہے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ وضاحت ہے کہ بابری مسجد کی جگہ زمین دی جائے مسجد کی تعمیر کیلئے ۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسا کچھ نہیں کہاہے کہ دوسری جگہ تعمیر ہونے والی مسجد کا نام بابری مسجد نہیں ہونا چاہیئے لیکن ایک گروپ ہے جو سرے سے بابری مسجد کے نام و نشان کو ہی مٹانا چاہتی ہے اور شاید سنی سینٹرل وقف بورڈ بھی اس گروپ کے دباؤ میں ہے ۔ مسلمان پہلے سے ہی اس فیصلہ سے ناخوش اور ناراض ہیں ۔ محض عدالت کے احترام میں وہ خاموش ہیں ۔ دوسری طرف اگر بابری مسجد نام نہیں رکھا جاتا ہے مسجد کا تو مسلمانوں کیلئے اور تکلیف دہ ہوگا ۔ زیادہ ترمسلمان سرکارکی دی ہوئی زمین پر مسجد کی تعمیر کے خلاف ہیں ۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ سرکارکی دی ہوئی زمین پر مسجد نہیں ہونی چاہیئے ۔ مسلمان خود زمین خریدکر مسجد تعمیر کرسکتے ہیں ۔ مسلمانوں کے اس معاملے میں سب سے بڑی ناراضگی یہ ہے کہ زمین ایودھیا سے بہت دور ایک دیہات میں دی گئی ہے ۔ جہاں آمد و رفت بھی بہت مشکل ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق مسجد کیلئے زمین ایودھیا میں ہی ملنی چاہیئے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com