خبر درخبر:(475)
شمس تبریزقاسمی
دواجنبیوں کی محبت جب نفرت میں تبدیل ہونے لگتی ہے ،تعلق او ر نبھاؤکے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں،دونوں کا بطور میاں بیاں رہنا مشکل ہوجاتاہے تو ایسے حالات میں اسلامی شریعت کہتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے جداہوجائیں،اور نکاح کے معاہدہ کو طلاق کے ذریعہ ختم کرلیں،ازدواجی زندگی ختم کرنے کااختیار جہاں مردوں کو دیا گیا ہے وہیں عورتوں کو خلع کا حق دیا گیا ہے ، یعنی دونوں ایک دوسرے کی مرضی کے بغیر ازدواجی زندگی ختم کرسکتے ہیں ۔
ازدواجی زندگی ختم کرنے کیلئے شریعت میں ایک لفظ ہے جسے طلاق کہتے ہیں،لفظ طلاق یااس کے مترادف الفاظ کی ادئیگی سے طلاق کا وقوع ہوجاتاہے اور رشتہ ازدواج ختم ہوجاتاہے ،شریعت میں طلاق کو سب سے مبغوض قراردیا گیا ہے ،ابغض المباحات اس کا نام ہے ،طلاق دینے کا مکمل طریقہ بتایا گیاہے ،اس کی درجہ بندی کی گئی ہے،طلاق کی آخری حد تین بیان کی گئی ہے ،قرآن کریم اور تمام نصوص سے واضح طور پر یہ ثابت ہے کہ مردوں کو شریعت میں تین طلاق کا اختیار دیا گیاہے ،ایک یا دو طلاق جسے طلاق رجعی اور طلاق بائن کہتے جسے دینے سے میاں بیوی کے درمیان دوبارہ واپسی ممکن ہوتی ہے ،لیکن تین طلاق دیئے جانے کے بعد دونوں کے درمیان تعلق حرام ہوجاتاہے ،خلع کی شکل میں بھی قاضی شوہر سے طلاق بائن دلاکر فسخ نکاح کراتاہے۔
پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت میں مردوں کو تین طلاق کا اختیار دیا گیا ہے،البتہ جمہور ائمہ اور مسلک اہل حدیث کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی یا تین ،جمہور ائمہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین مانتے ہیں ،جبکہ مسلک اہل حدیث کے یہاں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی مانی جاتی ہے ،دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں اور ہر ایک اپنے دعوی پر قائم ہیں ، تاہم اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ شریعت میں تین طلاق ہے ،تین طہر میں دی گئی تین طلاق تین مانی جائے گی ،اس کے بعد دوبارہ دونوں کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں کیاجاسکتاہے ،طلاق کے تعلق سے یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ یہ ناجائز ،حرام اور گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود واقع ہوجاتی ہے ۔
دوسری طرف حکومت ہند ،مسلم بھارتیہ مہیلاآندولن اور سپریم کورٹ کا منشاء تین طلاق کوختم کرناہے ،حکومت نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے ،یا جنہوں نے سپریم کورٹ میں تین طلاق کو ختم کرنے کیلئے عرضی دائر کررکھی ہے اس میں مردوں سے تین طلاق کا حق ختم کرنے کامطالبہ کیا گیاہے ،خواہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق ہو یاتین طہر میں دی گئی تین طلاق ہو ،دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ ایک شخص تین طہر میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتاہے تو ہر ایک مسلک کا اتفاق ہے کہ اب دوبارہ دونوں کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتاہے ،ہاں وہ خاتون کسی دوسرے مرد سے شادی کرتی ہے ،پھر اتفاقی طور پر وہاں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ،یا وہ بیوہ ہوجاتی ہے تو پھر سابق شوہر کے نکا ح میں اس کی واپسی ممکن ہے ،شریعت میں اس کو حلالہ کہاجاتاہے ، بہر حال طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد صرف ایک مجلس کی نہیں بلکہ تین طہر میں دی گئی تین طلاق بھی تین نہیں مانی جائے گی ،عدلیہ اسے ایک یا دو طلاق مانتے ہوئے یہ فیصلہ سنائے گی کہ اسلامی شریعت میں تین طلاق کے بعد واپسی ناممکن ہے ، لیکن اب تین طلاق ختم کردی گئی ہے لہذا حقیقت میں تین واقع ہونے کے باوجود ملکی قانون کی ر و سے یہ تعلق جائز ہوگا جبکہ شریعت میں سراسر حرام ہوگا، شوہر کے طلاق کے خلاف بیوی اگر مقدمہ جیت جاتی ہے ،تو شوہر کی مرضی ختم ہوجائے گی عدالت یہ فیصلہ صادرکرے گی جدائیگی کیلئے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی تمہیں بطور بیوی کے رکھنا ہوگا جبکہ شریعت میں ایسا کوئی بھی تعلق حرام ہوگا،صاف لفظوں میں یہ کہ لیجئے اب شوہروں کو طلاق دینے کا اختیار نہیں رہے گا، بیوی آپ کی ہوگی اور طلاق دینے کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
طلاق ثلاثہ پر جاری تنازع کا یہ لب لبا ب ہے ،جو بلااختلاف پوری امت مسلمہ کے خلاف ہے ، مسلم پرسنل لاء اور اسلامی شریعت میں واضح مداخلت ہے ،قرآن کے احکام کو تبدیل کرنے کی سازش ہے ،اس میں نہ تو مسلک اہل حدیث کی موافقت ہے اور نہ ہی صرف ائمہ اربعہ کے مسلک کی مخالفت ،آپ بھی غور کیجئے ،حکومت کے حلف نامہ کو پڑھئے ،جو خواتین تین طلاق کے خلاف مقدمہ لڑرہی ہیں ان کی منشاء معلوم کیجئے اور پھر مجھے بتایئے کہ یہ مسلم پرسنل لاء کی مخالفت ہے یا ائمہ اربعہ کے مسلک کی ۔(ملت ٹائمز)