مفتی محمداطہرالقاسمی
جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند، ارریہ
ریاست بہار کا سیمانچل اور سیمانچل کا ضلع ارریہ ترقی یافتہ ملک بھارت کے اس خطے کا نام ہے جہاں کے دیہی علاقے میں ابھی چند سال پہلے بجلی آئی ہے،کھیت کھلیان سے گذرکر گاؤں و قصبات کے رابطے ضلع ہیڈکوارٹر سے جڑے ہیں،ناخواندگی کی شرح کم ہوئی ہے اور غریب ماں باپ اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنے کم سن بچوں کو روزی کمانے کے لئے دلی، پنچاب، ہریانہ، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے بجائے ایک حد تک تعلیم و تربیت کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ جبکہ ہنوز دلی دور است۔
یہی وہ خطہ ہے جو نیپال کی ترائی میں واقع ہے اور جس کی اکثریت کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل ہے جوہر سال تباہ کن سیلاب سے جوجھتے ہوئے کسی طرح صبح وشام کاٹتے چلے جارہے ہیں،اور اگر1987،2017 اور ابھی 27/ ستمبر 2020 جیسے سیلاب آجائیں تو گھربار اور کھیت کھلیان کو کون پوچھے، قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی ندیوں کی خطرناک طغیانی کے حوالے کرکے ہمیشہ کے لئے چین کی نیند سوجاتے ہیں۔ صدیوں سے پس ماندگی کی کی اس تصویر کو دنیاکے سامنے پیش کرنے والے کرتے آرہی ہیں۔
خداوند عالم بھلا کرے ای ٹی وی بھارت کا کہ اس نے اس خطے پر نظر عنایت ڈالی اور اپنے ہونہار فرزند ارجمند، صاحب جرأت و عزیمت، اصول صحافت سے آگاہ،علم دوست،صاحب قلم،ماہر فن اور انسانیت نواز نمائندے عالی جناب عارف اقبال صاحب کو اس خطے کی ترجمانی کرنے کے لئے بھیجا۔
جناب عارف اقبال نے بھی اپنی معیاری صحافتی ذمے داری سے روایتی صحافت کو آئینہ دکھاتے ہوئے اس خطے کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے ایسی جان توڑ محنت کی کہ وہ صحافت کا خوبصورت عنوان اور بیکسوں و بے بسوں کی پہچان بن گئے۔
عارف اقبال صاحب نے اس خطے کے بنیادی مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے گراؤنڈ زیرو کی اسٹوری کا خوبصورت سہارا لیا اور یکے بعد دیگرے کئی ایسے اسٹوری بناتے گئے کہ وہ یہاں کے لئے ایک تاریخی دستاویز بن گئے۔ میری نظر میں صحافتی دنیا میں ان کی امتیازی شناخت یہی ہے کہ انہوں نے شہر کے بند کمروں میں بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے اور آسانی سے دستیاب ہوجانے والی خبروں کی ترسیل کے بجائے انہوں نے دور دراز کے علاقوں، زبوں حالی کے شکار گاؤں، دیہات اورقصبات کو اپنا مرکز بنایا اور اپنے چینل کے توسط سے ایک طرف دنیا کے سامنے اس علاقے کی بدحالی کی منہ بولتی تصویریں پیش کی تو دوسری طرف یہاں کی بدحالی بمقابلہ ترقی کے بجائے ذات پات کے نام پر برسوں سے سیاست کی روٹی سینکنے والے راج نیتاؤں کو بھی آئینہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔
تقریباً دو سال پر محیط ان کی دوڑ دھوپ اور لگاتار جہد مسلسل سے عبارت ان کی مخلصانہ کوششوں کو کون بھول سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں وہ ہمارے گاؤں کے برسوں سے زیر تعمیراجگرا پل کی اسٹوری بنانے آئے تھے۔سوئے اتفاق کہ واپس جاکر کورونا پازٹیو ہوگئے۔مگر وہ اپنی صحافتی ذمے داری کورنٹائن سینٹر رہ کر بھی ادا کئے اور اندرون خانہ کی بدنظمی، ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور کووڈ مریضوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کو مکتوب کی شکل میں عوام اور ضلع انتظامیہ کے سامنے پیش کیا، نتیجہ کے طور پر ریاستی حکومت کے اعلیٰ افسران نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے کووڈ سینٹر کی بدحالی دور کرتے ہوئے سارا نظم درست کیا۔ دس دنوں بعد آپ صحت یاب ہوکر اپنے وطن دربھنگہ گئے اور جب تندرست ہوکر حالیہ دنوں میں ارریہ لوٹے تو آزادی کے 70/ سال سے ایک عدد پل کو ترس رہی جھمٹا مہساکول کی ندی کی اسٹوری بناکر دنیائے سیاست اور اربابِ اقتدار کو اپنے ستر سالہ دور کے دھندلے آئینہ سے غبار ہٹانے کی دعوت دی۔
جناب عارف اقبال صاحب سال گذشتہ کی طرح امسال دوبارہ اسی ہفتے جب بھنگیا گاؤں سے متصل رمرئی گاؤں کے تین طرف سے گذرنے والی ندی سے تباہی کے دل دوز مناظر پیش کئے تو جن آنکھوں نے کتابوں میں کالا پانی کی دردناک کہانی کو پڑھا تھا آج عارف اقبال صاحب کی عزیمت سے بھرپور صحافت نے دنیا کی نظروں کے سامنے اس جزیرہ انڈمان نکوبار کی ایسی عملی تصویر پیش کی کہ مانو سزا کے دن کاٹ رہے انسانوں سے روبرو ہوکر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
ہم کوئی خوشامد کرکے اور کسی صحافی کی بیجا تعریف کے پل باندھ کر ان سے کوئی انعام پانے کیلئے یہ مضمون تحریر نہیں کررہے ہیں، بلکہ ایک باوقار، دھن کے پکے، بلند فکر ونظر کے حامل، صداقت و دیانت کے علم بردار، متواضع اور علم دوست صحافی کی معیاری صحافتی نمائندگی سے زبوں حالی کے شکار ہمارے اس خطے کو مزید ایک طویل مدت تک وہ فعال و متحرک، احساس جواب دہی اور انسانیت کے تئیں احتسابِ روز حشر کے مخلصانہ جذبات سے لبریز ہوکر اور کام کریں؛ اس لئے بطورِ احسان شناسی کے یہ چند کلمات تحریر کررہے ہیں۔
عارف اقبال نے جس ایمان دارانہ صحافتی منظر نامہ سے ارریہ کی ترجمانی کی ہے وہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والی نسل نو کے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ ہے۔انشاء اللہ ہمارے وطن عزیز کی اس خوبصورت، مردم خیز،انسانیت نواز،گنگا جمنی تہذیب کی علم بردار اور زبان اردو سے بے لوث محبت کرنے والی سرزمین ارریہ سیمانچل کی زبوں حالی کی داستان الم ناک کو دنیا کے سامنے لانے کی عارف اقبال صاحب کی کوششوں کو تاریخ اپنے صفحات پر محفوظ رکھے گی اور یہاں کی بدحال عوام آپ اور آپ کی پوری ٹیم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے گی، انشاء اللہ!