زاہد تنویر تیمی
آپ جب اسلامی تاریخ کے اوراق پلٹیں گے اور اپنے اسلاف کے روشن کارناموں اور انکے عظیم خدمات کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اسلاف نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشر و اشاعت اور اسکی بقا و تحفظ کے لئے قربان کر دی تھیں،اسلامی تاریخ سے شغف رکھنے والے ہر شخص کو معلوم ہوگا کہ اسلاف کی پوری کی پوری زندگی آلام و مصائب اور قربانیوں سے عبارت تھی. اس کے باوجود انہوں نے اپنا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انکا ایک ایک منٹ ان کے لیے بڑا قیمتی تھا۔
انکے اندر ایمان و اخلاص کی پختگی تھی،ان کا سینہ صبر و یقین سے لبریزتھا. کتاب و سنت انکا عقیدہ تھا.ان کا عمل شہرت طلبی سے خالی تھا. اللہ نے ان سب کو بلا کی ذہانت وفطانت دی تھی. اسلاف کرام کی محنت و لگن کو دیکھنا ہو تو انکی تصنیفات اور ان کی زندگی پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے،اور ہمارے علما وطلبہ کو ان کی روشن تاریخ سے عبرت بھی حاصل کرنی چاہیے.یقیناًوہ ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے،ان کا عہد نبی کے زمانے سے قریب تھا،ان کے قلوب واذہان صاف ستھرے تھے،کجی وگمراہی ان میں نہیں تھی.وہ سب فکر سلیم کے حامل تھے.اس لیے قرآن وحدیث کے فہم میں ان کا فہم ہمارے لیے مشعل راہ ہے.آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے اسلاف کرام کو روز کتنی دعائیں ملتی ہوں گی، انکا کس قدر ذکر خیر ہوتا ہوگا. کوء بھی ایسا دن اور ایسا وقت نہیں گزرتا جس میں انکا ذکر خیر اور ان کے حق میں دعائیں نہ کی جاتی ہوں. شاید ہی کوئی تقریر وتحریر ان کے ذکر کے بغیر مکمل ہوتی ہو.
،امام مالک بن انس،ائمہ اربعہ، امام ابن قدامہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ،امام ابن القیم الجوزیہ،امام ذہبی، امام ابن کثیر،امام ابن رجب حنبلی، حافظ ابن حجر،امام سیوطی،شیخ محمد بن عبدالوہاب، علامہ ابن باز،شیخ محمد بن صالح العثیمین اور علامہ البانی رحمہم اللہ کے علاوہ ہزاروں دنیا میں علمی شخصیات گزری ہیں جن کے علمی خدمات سے عالم اسلام کو عروج و اقبال،تحفظ و تقویت حاصل ہوئی. یقیناًان میں کا ہر شخص اپنے آپ میں انجمن،اور مہر کامل تھا.جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے.انہوں اپنی زندگی کے بیشتر اوقات کو کسب علم دین،اور فروغ کتاب وسنت کے لئے وقف کر دیا تھا. کبھی بھی شہرت و ناموری، عہدے و مناصب اور بڑے بڑے القاب وخطابات کے پیچھے نہیں بھاگے. اور نہ ہی اس کے لئے انہوں نیکبھی کوئی کوشش کی.
لیکن افسوس اس زمانے کے بعض احباب پر ہوتا ہے،جن کو اللہ نے تھوڑا بہت علم دیا ہوا ہے،ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ تواضع وخاکساری اختیار کریں،اللہ کے بندوں کو فیض پہنچانے کی بھرپور سعی کریں،مگر ان کو شیطان نے اپنے دام میں پھنسا رکھا ہے.شہرت وناموری کی بے پناہ تمنا انہیں گھیرے ہوئی ہے، شیخ, علامہ،فہامہ،شاعر اسلام،اور خطیب اسلام سے کم میں راضی ہونے کو تیار ہی نہیں ہوتے.ان الفاظ اور القاب سے ہمیشہ خود سجانے اور سنوارتے میں لگے رہتے ہیں حالانکہ ان کے علم میں سطحیت ہوتی ہے،کہیں عربی کے جملوں میں غلطی ہے تو کبھی فکر وفہم کی عدم پختگی،مگرانہیں کچھ زیادہ ہی اپنے علم پر ناز ہوتا ہے،اپنے آگے سب کو ہیچ اور کم علم سمجھتے ہیں.سٹیج پر چند منٹ گالینے اور ناچ لینے کو ہی علم کا اعلی معیار تصور کرتے ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ یہ قحط الرجال والعلماء کا زمانہ ہے،اچھے علماء کمیاں ہیں،اور یہ تو قیامت کی نشانی ہے.لیکن بازارو قسم کے صحافیوں اور قلم کاروں کی بہتات ہے.ہر دن اور ہر رات کوئی نہ کوئی مصنف اور کالم نگار پیدا ہو جاتا ہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے،علم نافع اور عمل صالح کی توفیق بخشے۔(ملت ٹائمز)