ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
(ایسوسی ایٹ پروفیسر، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ)
مشہور یونانی مؤرخ ہیرودوتس نے درست ہی کہا ہے کہ :’’مصر دریائے نیل کی بخشش ہے‘‘۔ بے شک دریائے نیل ، جو دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے، مصر کی عظیم تہذیب میں بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وادی میں لوگ رہتے، بستے تھے اور اس کے کناروں پر بڑی بڑی تہذیبیں تھیں۔ قدیم مصر کی خوشحالی اور استحکام کا واحد سبب یہی دریائے نیل تھا۔ جہاں وہ زرعی کام کر کے خوراک فراہم کر سکتا تھا۔ قدیم مصریوں کے دلوں میں دریائے نیل بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کی تقدیس کی تھی اور اس کا پانی جسمانی اور روحانی طہارت، مذہبی رسومات ادا کرنے اور مردوں کے غسل کے لئے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے دریائے نیل کی پاکیزگی کا خیال رکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جو دریائے نیل کے پانی کو آلودہ کرتا ہے تو وہ دیوتاؤں کے قہر سے بچ نہ سکے گا۔ اس بات کا مذہبی کتابوں میں ذکر کیا گیا تھا۔ اسی لئے قدیم مصری بہت فخر سے بتاتے تھے کہ انھوں نے دریائے نیل کے پانی کو آلودہ نہیں کیا۔
چونکہ قدیم مصری دریائے نیل کو زندگی کا اولین سر چشمہ مانتے تھے، اسی لئے اس پر ایمان لائے تھے، کیونکہ نیل خشک سالی سے ان کی زندگی کی حفاظت کرتی تھی۔ قدیم مصری اپنے موسیقی کے آلات پر دریائے نیل کے گیت گاتے تھے۔ وہ بھی اس دریا کے سیلاب کو مقدس سمجھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اس کے لئے ایک دیوتا مقرر کیا تھا۔ چنانچہ قدیم مصری مذہبی فکر دکھاتی ہے کہ اس عظیم دریا کے پیچھے ایک روح پنہاں ہے۔ جس کے ذریعے زرخیزی لے جانے والا سیلاب کا پانی آ جاتا ہے۔ اور یہ روح دیوتا (حابی) کی ہے۔ قدیم مصریوں نے دیوتا حابی کا تصور کیا تھا کہ اس کی شکل جیسے ایک موٹا آدمی ہے، اس کا جسم مضبوط ہے، اس کی چھاتی اتری ہوئی ہے، اس کا پیٹ بہت بڑا ہے، اس کا رنگ سبز اور نیلا ہے، ننگا اور لمبے بالوں کا مالک ہے۔ وہ دیوتا حابی کو قربانیاں پیش کرتے تھے ،تاکہ دیوتا ان کو سیلاب، نیکی، بھلائی اور استحکام بخشے۔قدیمی مصر کے عقیدے کے مطابق اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دریائے نیل کا طریقہء تقدیس کے بارے میں بہت سی کہانیوں کی اختراع ہو گئی تھی۔ ان کہانیوں میں سب سے مشہور داستان ’دریائے نیل کی دلہن‘ کی ہے۔ داستان یہ ہے کہ قدیم مصری ہر سال دریائے نیل کے لئے ایک بہت ہی خوبصورت کنواری لڑکی کو قربان کر دیتے تھے۔ اس لڑکی کو بہترین لباس پہنا کر اور زیورات سے آراستہ کرکے دلہن کی طرح سجاتے تھے۔ پھر ایک بڑے قومی جشن میں یہ دلہن پھولوں اور جھنڈوں سے ایک مزین جہاز پر سوار ہوتی تھی، جو سمندر کی سطح پر چلتا تھا۔ اس کے بعد لوگ اسے دریائے نیل میں پھینک دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دلہن دوسری دنیا میں حابی دیوتا سے شادی کرتی تھی۔ اسی طرح دریا خوش ہوتا تھا اور ان کے اس عمل سے بہنے لگتا تھا اور لوگوں کو پانی دیتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سال دریائے نیل میں سیلاب نہیں آیا۔ اسی لئے مصر کی سرزمین پر خشک سالی آئی تھی۔ مصر کے لوگ سوگوار ہوگئے تھے اور قحط سالی نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ مصر کے بادشاہ بھی بہت غمگین ہوئے تھے۔ جنہوں نے سردار کاہن کی موجودگی کی درخواست کی تھی اور ان سے پوچھا تھا کہ دریائے نیل کا سیلاب کیوں نہیں آیا؟! سردار کاہن نے بادشاہ کو بتایا کہ قحط سالی کی وجہ یہ ہے کہ دریائے نیل بہت افسردہ ہے ،کیونکہ وہ ایک خوبصورت کنواری لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تب بادشاہ نے دیوتا حابی کی دلہن بننے کے لئے انتہائی خوبصورت لڑکی کے انتخاب کا حکم دیا تھا۔ یہ سالانہ روایت کئی سالوں تک جاری رہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ کاہن کو ایک سال بادشاہ کی اکلوتی بیٹی کے علاوہ ایک خوبصورت کنواری لڑکی نہیں ملی۔ اس کے باوجود کاہن نے تہوار منانے کا عزم کیا، تاکہ دریائے نیل ناراض نہ ہو۔ شہزادی کی لونڈی کو یہ خبر ملی تو بہت افسردہ ہوئی۔ اس لونڈی نے دلہن کو اپنے گھر میں چھپا لیا اور اس کو اپنی بیٹی کی طرح بنا کر رکھا، کیونکہ اس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس نے شہزادی سے مشابہت والی دلہن کی شکل میں لکڑی کا مجسمہ اس طرح بنایا کہ وہ بالکل شہزادی کی ہم شکل بن گیا تھا۔ لونڈی نے لکڑی کی دلہن کو سجایا اور دریائے نیل میں پھینکنے کے لئے اس کی تیاری کی۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے دلہن کو دریائے نیل میں پھینک دے گی، تاکہ کوئی بھی معاملہ دریافت نہ کرے۔ تقریب مکمل ہو گئی اور جشن ختم ہوا۔ سب نے سوچا کہ شہزادی اپنے محبوب دریائے نیل کے ساتھ دوسری دنیا میں چلی گئی ۔ بادشاہ کو اپنی اکلوتی بیٹی کی جدائی پر افسردگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ بادشاہ اس کے دکھ اور غم کو برداشت نہ کر سکا، اس کی صحت بھی تیزی سے خراب ہونے لگی اور بستر پر تھا۔ جب لونڈی نے دیکھا کہ بادشاہ اپنی بیٹی کی جدائی کے غم میں مرنے والا تھا تو اس نے اس پر ترس کھا کر شہزادی کو اس کے پاس واپس کر دیا۔ بادشاہ اپنی بیٹی کو دیکھ کے پھر سے صحت یاب ہو گیا اور پھر اسے خوشیاں نصیب ہو گئیں۔ اس کے بعد لونڈی نے بادشاہ کو اپنی چال کی کہانی سنائی۔ اس وقت سے ہر سال اصل لڑکی کے بجائے اہلِ مصر ایک خوبصورت لڑکی کی شکل میں لکڑی کی دلہن بناتے اور اسے سجا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے ۔
اسلامی ورثے سے دریائے نیل کی دلہن سے جڑی ہوئی ایک اور کہانی ہے کہ جب مصر فتح ہوا اور اس وقت حضرت عمرو بن العاص مصر کے گورنر تھے تو عجمی مہینوں میں سے ایک مہینے کی بارہ تاریخ کو مصر کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں تاکہ دریائے نیل میں ایک دلہن کو پھینک دیں، جیسے ہر سال کا معمول ہے۔ انہوں نے بھی حضرت عمرو بن العاص کو بتایا کہ اگر یہ رسم ادا نہیں کی جائے گی تو دریائے نیل جاری نہیں ہوگا اور خشک سالی مصر کا مقدر ہوگی۔ حضرت عمرو نے ان سے کہا کہ ’اسلام میں ایسی کوئی بے ہودہ رسم جائز نہیں، اس کے علاوہ اسلام تو اپنے سے پہلے کی ایسی تمام رسوماتِ جاہلیت کو مٹا دیتا ہے، تم لوگ اس رسم پر ہرگز عمل نہ کرنا‘۔ مصر کے لوگوں نے گورنر کے حکم کی تعمیل کی اور اس سال دریائے نیل میں کسی بھی لڑکی کو نہیں پھینکا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ دریائے نیل کی روانی بالکل رک گئی اور خشک ہو گیا۔ لوگ بہت ہی پریشان تھے۔ انہوں نے مصر سے نکلنے کا ارادہ کر لیا اور کسی اور جگہجانا چاہتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاص نے جب یہ معاملہ دیکھا تو لوگوں سے کہا کہ تم لوگ انتظار کرو اور میں اپنے خلیفہ امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھتا ہوں اور جو حکم ملے گا ، اس پر عمل کیا جائےگا۔ حضرت عمرو بن العاص نے ایک خط میں حضرت عمر فاروق کوپورا قصہ بیان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص کو ایک رقعہ ارسال فرمایا اور کہا کہ یہ رقعہ دریائے نیل میں پھینک دیں۔ اس رقعہ میں لکھا تھا ۔۔۔ حمد وصلاہ کے بعد ۔۔۔ اے نیل ! اگر اپنی مرضی سے بہتا ہے تو نہ بہہ اور اگر اللہ تعالی تجھے بہاتا ہے تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تیرا بہنا جاری فرما دے‘۔ جب عمرو بن العاص نے وہ رقعہ ڈالا تو اللہ تعالی نے دریائے نیل میں پانی بہا دیا اور اس دن سے آج تک اللہ تعالی نے اہلِ مصر کی اس پرانی رسم کو ختم فرما دیا۔
اب تک بہت سے لوگ دریائے نیل کی دلہن کی کہانی، جو فرعونوں سے منسلک ہے، ایک سچی کہانی سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ اسی لئے اسے بے سند وبے ثبوت کہانی کہا جاتاہے۔ مصریوں کے مذہبی عقیدے کے مطابق کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی دیوتا کے لئے انسانی قربانیاں پیش کریں۔ علاوہ ازیں فرعونی تختیاں اور مخطوطے بھی ہیں، جو دریائے نیل اور اس کے سیلاب کے حالات بیان کرتے ہیں اور ان میں دریائے نیل کی اس کنواری دلہن کا کوئی ذکر نہیں ہے، جسے نیل کے لئے بطور قربانی پیش کیا جاتا تھا۔ فرعونوں کے شعرا اور ادبا نے اپنی تحریروں میں دریائے نیل کی اس دلہن کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دریائے نیل کی دلہن کے خیال کی حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مصر دریائے نیل کی تقدیس کرتے تھے اور ایک خاص دن اس کو مناتے تھے۔ اس عظیم دریا کے اعزاز میں سونے کے سکے اور زیورات اس میں پھینک دیتے تھے اور سیلاب کے وقت اس میں بھی سونے، کانسہ یا مٹی سے بنائی ہوئی دلہن کو پھینک دیتے تھے، تاکہ اس کی نیکی اور بھلائی خوب ہوں۔
بہرحال ’دریائے نیل کی دلہن‘ ایک داستان ہے جسے اب تک اہلِ مصر دوہراتے ہیں۔ مصر کے شعرا اور ادبا نے بھی اس کی بابت لکھا ہے۔ مختلف فلموں کے ذریعہ بھی اس داستان کو دکھایا گیا ہے۔ فرعونوں نے اہلِ مصر کے لئے بے شمار تہوار اور رسم و رواج چھوڑ ے تھے۔لیکن ان میں سے کچھ تہوار مختلف ادوار میں یا تو ختم ہو گئے یا غائب ہوگئے اور کچھ اب تک بھی جاری ہیں۔ جیسے ’دریائے نیل کی دلہن‘ کا تہوار ہے۔ اب تک مصر میں لوگ ۱۵؍ اگست کو اس تہوار کو مناتے ہیں اور اس کا نام ’دریائے نیل کی وفاداری‘ کا تہوار ہے۔