حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی وفات عالم اسلام کے لئے ایک عظیم سانحہ: مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

سیتامڑھی : (معراج عالم بیورو رپورٹ) معروف عالم دین ، ملک کی عظیم روحانی شخصیت ، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، بانی رحمانی تھرٹی و رحمانی فاؤنڈیشن ، سرپرست جامعہ رحمانی مونگیر ، سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کا بتاریخ 3/ اپریل 2021ء بروز ہفتہ بوقت 2.30 بجے دن پٹنہ کے پارس ہوسپیٹل میں انتقال ہو گیا (اناللہ وانا الیہ راجعون)

ان خیالات کا اظہار تعزیتی کلمات کے طور پر مختلف صحافیوں کے درمیان جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور کے دفتر اہتمام میں اہم شخصیتوں پر مشتمل ایک مجلس میں چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ بنگلور و جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی نے کیا۔
انہوں نے کہا حضرت مولانارحمانی رحمۃ الله عليه کی ولادت 5 /جو ن 1923 ء میں ہوئی ، آپ کی تعلیم اور تربیت ابتدا میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی ، انہوں نے اپنے نامور والد کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا ، جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوة شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1961ء میں دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ اور 1964 ء میں دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے ۔ 1967 ء میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جامعہ رحمانی میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا ، 1969 ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے ، آپ نےحج وعمرہ کا پہلا سفر 1975 ء میں کیا ،
خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی 2005 ء نائب امیر شریعت کی حیثیت سے نامزدگی اور 1996ء کورحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ سے مولانا کی حیاتی تقویم میں خاص اہمیت حاصل ہے ،
2010 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ، آپ کی تالیفات وتصنیفات میں “مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم” ، “خیر مقدم” ، “شہنشاہ کونین کے دربار میں” ، “حضرت سجاد مفکر اسلام یادوں کا کارواں” ، “آپ کی منزل یہ ہے” ، “بیت عہد نبوی میں تصوف” اور حضرت شاہ ولی اللہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد رسائل موجود ہیں ، جو آپ کی فکری بصیرت تحریری انفرادیت ، سیاسی درک اور در ملت کی شاہد ہیں ، ان کے علاوہ بے شمار مضامین و مقالات جومختلف اخبارات اور رسائل میں طبع ہوئے ، ابھی جمع نہیں کیے جا سکے ہیں ،
انہوں نے کہا کی حضرت مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی ، خانقاہ رحمانی مونگیر ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ودهان پریشد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، امارت شرعیہ ، اصلاح معاشرہ ، درجنوں مدارس کی سر پرستی اور ان کی خدمات روز روشن عیاں ہیں ۔ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی تھے.،جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے اسے پایہ تکمیل تک پہونچا کردم لیتے تھے ، استقلال واستقامت اور ملت کے مسائل کے لئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت تھی ، وہ ایک اصول پسند انسان تھے اور دوسروں کو بھی اصول پند ؛ بلکہ اصولوں پرعامل دیکھنا پسند کرتے تھے ،
ان کی قوت ارادی مضبوط اور کام کے تئیں لگن اتنی مستحکم تھی کہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے بہت لوگوں کو پسینہ آنے لگتا تھا ۔
29 / نومبر 2015 ء بروز اتوار چھٹے امیر شریعت مولانا سید نظام الدین رحمۃ الله عليه کی وفات کے بعد ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے آپ کا انتخاب عمل میں آیا تھا،
یکم دسمبر 2015 ء کو امیر کی حیثیت سے دفتر امارت شرعیہ تشریف آوری ہو
مولانا موصوف نے کہا کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ الله عليه پورے ہندستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی اپنی ملی تعلیمی ، سماجی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے تھے ،
مولانا رحمانی رحمۃ الله علیہ جیسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا اٹھ جانا علمی، ملی، تعلیمی اور سماجی اعتبار سے بہت بڑا خسارہ ہے ۔ الله تعالیٰ امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔