دار العلوم الاسلامیہ مجھولیا کا سفر

فضل المبین جنیدی
میری زندگی بھاگم دوڑ بھری ہے ۔۔۔ کبھی یہاں کبھی وہاں ۔۔۔ کل بھی اچانک بیتیا ( مغربی چمپا رن ) جانا پڑا ۔۔۔ وہاں کلکٹریٹ میں کچھ کام تھا ۔۔۔۔ کام سے فراغت کے بعد ہم گھر کے لئے نکلے ۔ نانو ستی جب پہنچے تو خیال آیا کہ مجھو لیا کا رخ کیا جائے ۔۔۔ دار العلوم الاسلامیہ پٹنہ کے ساتھی مولانا طارق عبد اللہ صاحب کو فون کیا اُنہوں نے آنے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔۔ اس کے بعد ہماری گاڑی اگلے مراحل کے لیے چل پڑی ۔ نانو ستی سے نکلے تو چند ہی منٹوں کے بعد ہم مجھو لیا میں تھے۔ یہ ایک چھوٹا شہر ہے یا یوں کہئے ایک بازار ہے ۔ اپنی پشت پر تاریخی چینی میل کا انبار لیے ہوئے قائم ہے ۔ شوگر فیکٹری کی وجہ سے یہاں کی چینی بہار کے مختلف حصوں میں سپلائی ہوتی ہے جو کہ اِس زرخیز زمین کی پیداوار ہیں۔ ہم جس راستے پر چل رہے تھے، یہ آبادی کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ چینی میل کی وجہ فضا میں آلودگی تھی ۔ ایک طرف سڑک دوسری جانب چینی میل کی پرانی عمارت ۔۔۔ اس دوران شہر کے اخیر حصہ میں پہنچ گئے ۔۔۔۔ میل کے آؤٹ لیٹ کی بدبودار ماحول کے بیچ سے گزر ہو رہا تھا کہ ایک عمارت نظر سے گزری۔
بالکل عجب منظر آنکھوں کے سامنے تھا ۔۔۔ فضا معطر اور ہوا خوشگوار تھی ۔۔۔ چینی میل کے کیچڑ میں گویا کوئی کمل کھلا تھا ۔۔۔۔ یقین جانئے ۔۔۔ ایسا لگا ہے کہ : پٹنہ والا دار العلوم الاسلامیہ کو کسی نے کاپی کر دیا ہے ۔۔۔ میں ماضی کی یادوں میں کچھ لمحہ کے لئے کھو گیا ۔۔۔ ہاں اُسی اسلامیہ کی یاد میں جو بظاهر فیکٹری نما تھا ۔ لیکن اُس چہار دیواری کے اندر پیدری شفقت و مادری محبت کا جام ملتا تھا جہاں امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر محبت و اخوت کا ایک عجب ماحول تھا ۔ جہاں اس 15 کمروں میں رہنے والے سبھی بھائی تھے یا ایک ہی گھر کے سبھی فرد تھے ۔۔۔ آج بھی اُس ماحول اور اُس کی خوب یاد آئی اور آنکھیں بھیگ گئی ۔۔۔ خیر
مدرسہ میں داخل ہوا ظہر کا وقت تھا ۔۔۔ لاک ڈاؤن کے وجہ سے مدرسہ بند ہے ۔۔۔ کچھ لوگ جماعت خانہ میں تھے ایک صاحب دوڑ کر آئے اور علیک سلیک ہوا ۔۔۔
ادھر سے مسکراتے ہوئے طارق بھائی آئے ۔۔۔ لیکن اس بار 15 نمبر کمرے سے نہیں بلکہ اُستاد کے کمرے سے ۔۔۔۔ کیونکہ اب طارق بھائی مولانا طارق عبد اللہ جنیدی قاسمی ہو چکے ہیں۔۔۔ طارق بھائی سے ملاقات ہوئی ۔۔۔ ایسا لگا کہ برسوں بعد ایک بچھڑے بھائی سے ملاقات ہو رہی ہو اور جو خوشی محسوس ہوئی اسے چند الفاظ میں نہیں پرویا جا سکتا ۔ بالکل طارق بھائی کا انداز وہی گفتار وہی اطوار وہی تھے ۔۔۔ کچھ بھی تبدیلی نہیں تھی ۔۔۔۔
ظہر کی نماز سے فراغت کے بعد دسترخوان لگا ۔۔۔ پھر کیا تھا گویا کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھا ہوں اور ویرائٹيز آ رہے ہوں ۔۔۔۔
میں پھر ماضی میں کھو گیا کہ : 15 نمبر کمرہ میں جب بھی طارق بھائی کے دسترخوان پر جاتا تو مدرسہ کے کھانے کے علاوہ کچھ نہ کچھ پاتا ۔ اور کسی خاص موقع پر وہ خود ذائقہ دار کھانا بناتے اور ہمیں بھی شامل کرلیا کرتے تھے ۔۔۔ آج بھی طارق بھائی کی ضیافت کا وہی انداز تھا ۔۔۔ مرغ کے کئی اقسام خود سے بنائے تھے ۔۔۔ خوب شکم سیر ہو کر کھایا ۔۔۔ خدا کی تعریف کے بعد زبان سے دعا نکلی ۔۔۔ طارق بھائی اللہ آپکو سلامت رکھے ۔۔۔ خوب ترقیات نوازے ۔۔۔ اللہ اسکا سب سے بہتر بدلہ دے ( آمین )
مدرسہ کا اندورنی حصہ بھی پٹنہ اسلامیہ کے ہی جیسا ہے ویسے ہی چاروں طرف کمرہ ۔۔۔ ایک طرف ہال ۔۔۔۔ بیچ میں باغ ۔۔۔ پیچھے کی جانب باورچی خانہ و حاجت خانہ ۔۔۔۔
واقعی ۔۔۔ حضرت مفتی صاحب ( مولانا مفتی محمد جنید عالم صاحب ندوی قاسمی) کا جہاں قدم پڑتا ہے وہ سرزمین گلزار ہو جایا کرتی ہے ۔۔۔ لالہ و گل کھل جاتے ہیں ۔۔۔ تعلیم و تعلم کا نظام شروع ہو جاتا ہے اور وہاں سے نکلنے والے نایاب ہیرے جہاں بھی جاتے ہیں اپنے علم و فن سے زمانے کو منور کرتے ہیں ۔
حضرات ۔ یہ ادارہ بہت کم وقتوں میں پوری شان و شوکت کے ساتھ رواں دواں ہے آج سے محض 7 سال قبل یہاں کی مسلم آبادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا گیا تھا۔ ادارہ ہذا چار ایکڑ سے زائد زمین پر مشتمل ہے ۔ جس نے محض 7 سالہ مدت میں اعدایہ تا ہفتم عربی تک کی تعلیم ہو رہی ہے اور ماہر اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم و تعلم چل رہا ہے ۔ اس ادارہ کی خصوصیات یہ ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم جیسے میتھ ، سائنس ، انگلش کمپیوٹر وغیرہ سے بھی بچوں کو آراستہ کرایا جاتا ہے
دعا کریں کہ : اللہ اس ادارے کو مزید ترقیات سے نوازے اور حضرت مفتی صاحب کا سایہ عاطفت کو صحت وعافیت کے ساتھ تا دیر قائم و دائم رکھے ۔۔۔۔
رخصت ہوتے وقت زیر تعمیر مسجد کی زیارت کا بھی موقع ملا جو کہ مدرسہ ہٰذا کے اندر ساڑھے تیرہ ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل تعمیر ہو رہی ہے جس میں اب تک تقریبا 68 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں اور مزید 1کروڑ 75 لاکھ خرچ ہونے کا تخمینہ ہے ۔ جو انشاء اللہ آپ اہل خیر حضرات کی دعاؤں سے اور تعاون سے پورے ہونگے ۔
آپ تمام حضرات اپنی دعاؤں میں اس ادارہ کو یاد رکھیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں