صدیق کپّن کا قصور کیا ہے؟

معصوم مرادآبادی

یہ ایک ایسے مظلوم صحافی کی دردناک داستان ہے جو گزشتہ چھ مہینے سے یو پی حکومت کے ظلم وستم کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں قید اس صحافی کے لیے انصاف کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا بار بار دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود اسے انصاف نہیں مل پا رہا ہے۔ جی ہاں، یہ تذکرہ کیرل کے نوجوان صحافی صدیق کپن کا ہے، جو گزشتہ چھ ماہ سے اترپردیش کی متھرا جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اترپردیش کی یوگی سرکار اس کے خلاف ہر وہ ہتھیار استعمال کررہی ہے، جو اس کی دسترس میں ہے۔ حال ہی میں جب صدیق جیل کے اندر کورونا کا شکار ہوئے تو انھیں متھرا کے اسپتال میں جانوروں کی طرح ایک چارپائی پر زنجیر سے باندھ کر رکھا گیا، گویا وہ انسان نہیں کوئی وحشی جانور ہوں اور ان کے تمام انسانی حقوق سلب کرلیے گئے ہوں۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے کیرل کے صحافیوں کی ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے اترپردیش سرکار کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ انھیں علاج کے لیے دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال یا پھر ایمس میں داخل کرے۔ یہ حکم چیف جسٹس این وی رمنا کی بینچ نے کیرل ورکنگ جرنلسٹس نامی تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت کے بعد دیا ہے۔ اس موقع پر یوپی سرکار کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ عدالت صحافیوں کی مذکورہ تنظیم کی عرضی کو خارج کردے۔ تشار مہتہ نے اس سلسلے میں ہر وہ دلیل پیش کی جس سے وہ عدالت کو گمراہ کرسکیں، مگر اس معاملے میں ان کی ایک نہیں سنی گئی اور صدیق کو انسانی بنیادوں پر دہلی منتقل کرنے کا حکم صادر ہوا۔ تشار مہتہ کے رویہ سے اندازہ ہوتا تھا کہ یوپی سرکار حسب سابق صدیقی کو کسی بھی قسم کی راحت دینے کے حق میں نہیں تھی اور بار بار یہی کہا جاتا رہا کہ متھرا میں علاج کی تمام سہولتیں موجود ہیں، لیکن عدالت نے ان کی کسی دلیل کو قابل اعتناء نہیں سمجھا۔

اس سے قبل صدیق کپن کی اہلیہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے ایک خط میں کہا تھا کہ حال ہی میں کورونا پوزیٹو پائے گئے صدیق کومتھرا کے میڈیکل کالج اسپتال کی ایک چارپائی سے کسی جانورکی طرح زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا ہے اور وہ گزشتہ چار روز سے کھانا کھانے یا بیت الخلاء جانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ صدیق کپن کو حبس بے جا سے رہا کرنے کی درخواست گزشتہ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ میں زیرِ التواء ہے اور عدالت بار بار کی گزارشوں کے باوجود اس پر سماعت نہیں کررہی ہے ، لیکن گزشتہ روز اس معاملے میں عدالت نے جو رخ اختیار کیا اور جس طرح یوپی سرکار کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل کی کسی دلیل کو تسلیم نہیں کیا، اس سے یہ امید ضرور بندھی ہے کہ عدالت ان کے معاملے پر ہمدردانہ غور کرے گی، مگر اس کی نوبت کب آئے گی، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ایک نظر صدیق کے مقدمہ پر ڈالتے ہیں جو اس ملک میں پولیس اور متعصب حکمرانوں کے ظلم وستم کی ایک عجیب و غریب داستان ہے اور جو یہ ثابت کرتی ہے کہ محض کسی کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے قربانی کا بکرا بنانا کتنا آسان ہے۔صدیق کپن کیرل زبان کے صحافی ہیں اور وہ کیرل کے ایک اخبار کے لیے دہلی سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ پچھلے سال ۵ اکتوبر کو اترپردیش کی بہادر پولیس نے انھیں اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ ہاتھرس اجتماعی آبرویزی کیس کی رپورٹنگ کرنے موقع واردات پر جارہے تھے۔ ایک ٹیکسی میں سفر کررہے ان کے دوساتھیوں اور کار ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر ہاتھرس سانحہ کے بعد اترپردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے اور ملک کو بدنام کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب اترپردیش کی یوگی سرکار ہاتھرس کیس میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔ متاثرہ لڑکی کی موت اور اس کی آخری رسومات کے معاملے میں پولیس اور حکومت پر ڈھیروں سوال کھڑے کیے جارہے تھے۔ یہ معاملہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بحث و مباحثے کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اس اثنا میں پولیس نے صدیق کپن اور ان کے تین دیگر مسلمان ساتھیوں کو گرفتارکرکے بہت آسانی سے اس پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ پولیس کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی اور جس معاملے میں وہ گردن تک پھنسی ہوئی تھی، اسے ہندو مسلم کا رخ دے دیا گیا اور لوگ اصل مسئلہ کو بھول کر فرقہ وارانہ خطوط پر سوچنے لگے۔ ان چاروں مسلم نوجوانوں کو ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان لوگوں پر اترپردیش سرکار کو بدنام کرنے کی سازش رچنے اور وطن دشمن تنظیموں سے تعلق رکھنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ ان کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور تب سے یہ لوگ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہرچند کہ ان کے خلاف پولیس کے پاس اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے کوئی شہادت موجود نہیں ہے، لیکن وہ صدیق کپن اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

 سوال یہ ہے کہ اترپردیش حکومت ایک صحافی سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہے کہ اسے کووڈ جیسی موذی اور مہلک وبا کاشکار ہوجانے کے باوجود زنجیروں سے جکڑ کر رکھتی ہے اور اسے بیت الخلاء جانے سے بھی روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے اخبارات کی نمائندہ تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اس پر اپنی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”یہ انتہائی دل دہلا دینے والی بات ہے جس سے قوم کے ضمیر کو کچوکے لگنا چاہئیں کہ ایک صحافی کے ساتھ اس طرح کا ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔“ بیان میں کہا گیا ہے کہ”یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ صحافی کے ساتھ مناسب سلوک کے لیے صدیق کے اہل خانہ اور سول سوسائٹی کے مطالبات کو نظر اندازکرتے رہے ہیں۔ یہ بات مزید حیران کن ہے کہ سپریم کورٹ نے صحافی کے مقدمے کی منصفانہ سماعت کو یقینی بنانے کے لیے ابھی تک مداخلت نہیں کی ہے۔حالانکہ ان کے حبس بے جا کی عرضی گزشتہ چھ ماہ سے عدالت میں زیرِ التواء ہے۔ یہ سب آئینی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، جہاں آزاد صحافتی اداروں کو دبانے کی بجائے ان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔“

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایڈیٹرز گلڈ نے نومبر 2020 میں یوپی کے وزیراعلیٰ کو ایک خط لکھا تھا جس میں صدیق کپن سمیت صحافیوں پر صوبائی حکومت کی جانب سے ظلم وستم اور تشدد کی متعدد مثالوں پر روشنی ڈالی گئی تھی، تب سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ نے دھمکی دی ہے کہ ریاست کے اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کی اطلاع دینے والوں کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ یہ وہی وزیراعلیٰ ہیں جنھوں نے اپنے حلقۂ انتخاب گورکھپور کے ایک اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 100 سے زیادہ بچوں کی اموات پر ڈاکٹر کفیل خان کو محض اس لیے ملازمت سے برطرف کرکے گرفتار کرادیا تھا کہ انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر آکسیجن مہیا کیا اور کئی بچوں کی جان بچائی تھی۔ ڈاکٹر کفیل کو انعام و اکرام سے نوازنے کی بجائے ان کا جینا حرام کردیا گیا اور انھیں بار بار قید و بند سے گزرنا پڑا۔ یہاں تک انھیں اترپردیش چھوڑ کر راجستھاں میں پناہ لینی پڑی۔ اب یہی معاملہ صحافی صدیق کپن کے ساتھ ہورہا ہے اور ان کے تمام انسانی حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق یوپی میں ایک ایسے نوجوان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس نے سوشل میڈیا پر کورونا سے متاثرہ اپنے دادا کے لیے آکسیجن فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس صورتحال پر غالب کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ یاد آرہا ہے۔

روز اس شہر میں اک ” ظلم” نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں