حماد غزالی
علم کی طاقت وقوت، اہمیت وافادیت اور اس کے زیر اثر برپا ہونے والےانقلابات ہر صاحب عقل سلیم و ذی شعور افراد پر ظاہر و باہر ہےکہ تعلیم انسانی ضرورتوں میں سے ایک اہم ترین ضرورت ہے، علم شرف انسانیت اور زیور آدمیت ہے، علم ہی ایک ایسا جوہر ہے جس پر شرافت و کرامت انسانی مرتب ہوتی ہےـ مگریہ بھی ملحوظ خاطررہےکہ کہ علم وہی ہےجس سےانسان کوانسانیت کا درس ملے، علم وہ نورہے جس کےحصول کےبعد اس پر عامل بنے بغیر سکون و اطمینان میسرنہ ہو، علم وہ شے ہے جس سےاخلاق فاضلہ میں کمال حاصل ہو، اخلاق رذیلہ سے نفرت و بعد پیدا ہو، آداب و شیفتگی پروان چڑھیں حق و باطل کی معرفت حاصل ہو، اور صراط مستقیم اور دین قیم پرگامزن رہنا طبیعت بن جائے ؛لیکن موجودہ دور میں انگلش میڈیم اسکول اورعیسائی مشنریز کا پھیلتا جال امت اسلامیہ کیلئیے بہت تشویشناک ہوگیا ہے وہ عقائد، ایمانیات، اسلامیات، اور جملہ شعبہ ہائے زندگی کےلیے خطرناک ثابت ہورہا ہے، یہ امت کے ایمان واسلام پر ڈرون حملہ ہے جسے سمجھنے سےلوگ قاصر ہیں یا پھر انہیں اسلام کی پروا نہیں، اس میں سب سے پہلاحملہ لباس کےذریعہ ہوتا ہے، جس سے ننگاپن عروج پاتا ہے، عفت و عصمت تارتار ہوتی ہیں ،پاک دامنی کی فضیلت واہمیت دل سےرخصت ہوجاتی ہے اور اخلاقی اقدار سے بیزاری و کدورت قلب وجگر کا خاصہ بن جاتاہے ،مرد و زن کا آزادانہ اختلاط ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے، شہواتی جذبات کو اس طرح ابھارا جاتا ہے کہ نکاح کا طریقہ ناکافی ثابت ہوتا ہے، چنانچہ آہستہ آہستہ آزاد جنسی تعلقات قایم کرنے کوضرورت سمجھ بیٹھتےہیں، ایسے مضامین، لٹریچر شامل نصاب ہوتےہیں جن میں آزاد جنسی تعلقات کو فطری اور بےضرر قرار دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بہت سی مرتبہ لوگ نکاح کو ایک بوجھ سمجھتےہیں، نوجوان لڑکے لڑکیاں نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قایم کرکے زندگی گزارتے ہیں، یہ محبت اور تعلق چونکہ حقیقی نہیں؛ بلکہ ہوس کا شکار ہوتی ہے بایں وجہ بہت جلد علیحدگی کی نوبت آ جاتی ہےـ پھر طلاق پر جاکر معاملہ ختم ہوجاتا ہے، اس طرح کی فکری بے راہ رویوں اور آزادی نسواں کی تحریک کے دلفریب نعرے نے عورتوں کو گھروں سےنکال کر بازاروں اور سڑکوں کی زینت بنادیا، دفتروں میں کلرک اور اجنبی مردوں کی پرسنل سکریٹری کے طور پر بحال کرکے ان کا استحصال کیا جانےلگا، اپنے تجارتی شعبہ کو چار چاند لگانےکی خاطر دوشیزاؤں کو سیلز گرلز اور ماڈل گرلز کا خطاب دیاگیا نچلے درجے کے جملہ امور عورتوں کے حوالے کیے گئےـ حضرت مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم نے بڑے ہی کرب کا اظہار فرماتے ہوے لکھاہے کہ یہ عجب ہےکہ لڑکیاں اپنے گھر آنگن میں رہ کر اپنے شوہر، والدین اور بچوں کےلیے کام کرے تو وہ مقید اور پر تذلل زندگی گزار رہی ہوتی ہے، وہی جب اجنبی مردوں کےلیےکھانا پکائے، آفس اورکمروں کی صفائی کرے، ایئرہوسٹس کافریضہ انجام دے کر لوگوں کی پُرہوس نگاہوں کو تسکین بخشے، دوکانوں پر زیرلب مسکراکر گاہکوں کو ناپسندیدہ سامان لینے پر مجبورے کرے، مختلف دفتروں میں افسروں کے ناز اٹھائے تو وہ آزادی ہےـ افسوس صد افسو کس قدر فہم سقیم کے مرض میں مبتلا ہوگئے لوگ ¡¡
انہیں وجہوں سےاکبرالہ آبادی کو کہناپراکہ:
یوں قتل سےبچوں کےوہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی
ان تمام ظاہری آزادیوں اور شریعت کی پامالی کےبعد بھی عورتیں ظلم وستم کا شکار ہیں کہیں زنا بالجبر تو کہیں مار دھاڑ کا بازار گرم ہے دوسراحملہ ایمان پر ہوتا ہے ؛ جس سے مذہب کی عظمت واہمیت یکسر ختم ہوجاتی ہے وہ اس کو محض ایک فضول چیز سمجھتے ہیں، ان اداروں سے پڑھنے کے بعد بہت سےتعلیم یافتہ لوگوں کو اپنےایمان پرشکوک و شبہات کے بادل منڈلانے لگتے ہیں، بےاطمینانی و بےاعتمادی کے جال میں جکڑ جاتے ہیں، اسلام سے بیزاری کے مرتکب بن جاتے ہیں، بہت سوں کےبارے میں یہ تحقیقی خبر ہے کہ جب اذان فجر کی گنگناہٹ ان کے سماعت سے ٹکراتی ہے توانہیں غصہ آنےلگتاہے،اس حالت میں نعوذ باللہ من ذالک بزبان حال و قال رب کریم کی شان عظیم میں گستاخیوں والےجملے زبان پر لا کر نالائقوں کی صفوں میں اپنا اندارج کراتے ہیں، اس تعلیم کا مقصد چونکہ دنیا کمانا ؐ، اس میں کمال کےدرجہ تک پہنچنا ہوتا ہے؛ اس لیے حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر دولت کےحصول میں ہمہ تن مصرورف رہناہی زندگی کا اہم جزخیال کرتے ہیں، اخلاق و شرافت اور تہذیب و تمدن کا تقریباً خاتمہ ہوجاتا ہے، شیطانیت انسانیت کاظروپ دھار لیتی ہے، غریبوں، مسکینوں سے دوری اور نفرت خیال خاص میں پیوست ہوجاتی ہے، ستم رسیدہ اشخاص کے تمسخر اڑانا پسندیدہ مشغلہ بن جاتا ہے، پھر ایسے ہی لوگ والدین کے باغی ہوجاتے ہیں، ان کی عزت و حرمت کا پاس و لحاظ نہیں کرتے، ماں باپ کے حوالے سے قرآن کریم کی ترغیبات اور احکامات سے بھی پہلو تہی کرتے ہیں، والدین نے کبھی نیکو کاری کی طرف توجہ دلائی تواسے پر انے زمانے، فرسودہ خیالات و افکار والے اشخاص میں سے شمار کرتے ہیں، اب تویہ معاملہ بہت عام ہوچکاہے کہ بیوی کےگھر آجانے کے بعد ماں باپ کسی لائق نہیں رہ جاتے ان کی ساری طاقت ختم ہوجاتی ہے اس کا حکم پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، انہیں دھمکی بھی ملتی ہے کہ آیندہ ایسانہ کریں؛ چونکہ بہویں بھی اسی رنگ وبو سے پروان چڑھی ہوتی ہیں؛ اس لیے وہ شوہروں کوبعض مرتبہ مجبور کرتی ہیں کہ انہیں اولڈ ہوم پہنچادیں نہیں تو ہماری زندگی تباہ ہوجائے گی پھر اولڈ ہوم پہنچابھی دیتےہیں؛ لیکن ان سےکسی خوشی کے موقع پر ملاقات کےلیے بھی نہیں جاتے، بہت سے والدین اس جرم عظیم کا شکار ہیں ـ انہیں حرکتوں سے متنفر ہوکر اکبرالہ آبادی یوں گویاہوے کہ
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتےہیں
کہ جن کو پڑھ کےلڑکےباپ کو خبطی سمجھتےہیں
بہت سے لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ عصری تعلیم اور مغربی تہذیب میں تلازم ہے وہ اس تعلیم کے ساتھ فحاشی عریانیت، لباس میں انگریزی وضع قطع، کھانے پینے میں انگریزوں کا طریقہ؛ بلکہ اس کے آگے احکام شرع کو پامال کرنا بھی لازم سمجھتے ہیں تو انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ حصول تعلیم کے کیے اور ماہر تعلیم بننے کے لیے ان کے طریقہ کار کو اپنانا کوئی ضروری نہیں، اس تعلیم کا نہیں؛ بلکہ اس نظام کا اثر مہلک ہےجو اب تک ظاہر ہورہا ہے؛ اس لیے امت کے جیالوں کو چاہیےکہ وہ اس تعلیم کو اسلامی اسلوب و منہج اور تمدن کےموافق استعمال کریں تاکہ امت کے افراد حقیقی زندگی سے لطف اندوز ہوکر اپنے مالک حقیقی کے تابع، عابد، ساجد اور شاکربن جائیں….
مدیرتحریر ماہ نامہ “نقوش حبیب “ممبئی





