اردو کارواں اور ڈیوس سوسائٹی کے زیراہتمام سیدہ تبسم اور طلعت سروہا کی کتابوں کا رسم اجراء اور ڈاکٹر محمد حسین صاحب کی تہنیت

ممبئی: اردو کارواں اور دانش ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیراہتمام غزلوں کا سفر، روحِ، عکسِ مجسم اور کاوش طلعت افسانوں کے مجموعے کا رسم اجراء انجمن اسلام کریمی لائبریری میں عمل میں آیا ۔

اس موقع پر مہمان خصوصی قیصر خالد(ریلوے پولیس کمشنر) نے کہا کہ یہ اردو کا المیہ ہے کہ اردو والوں کو تصنیف و تالیف کے کام میں انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے ذاتی خرچے سے اس کو چھپانا بھی پڑتا ہے جبکہ غیر ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا اس سلسلے میں ہیری پوٹر کی مصنفہ کی مثال بھی دی.انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق کے لیے فکر مشاہدہ ضروری ہے ایک مصنف جب کسی تخلیق کو سامنے لائے تو اس سے پہلے اس کو ایک نہیں بار بار پڑھے ہر بار پڑھنے سے تحریری اغلاط بھی دور ہوتی ہیں اور وہ اپنی اصلاح خود بھی کرسکے گا اس سلسلے میں انہوں نے اپنی مثال بھی دی کہ وہ خود بھی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو ایک تنقید نگار کی حیثیت سے پڑھتے ہیں تو کافی نقائص سامنے آتے ہیں اور وہ انھیں دور کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.
ڈاکٹر محمد حسن ایسوسی ایٹ پروفیسر راجستھان نے خواتین کو ان کی کتاب کی رسم اجرا پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی اچھی کوشش ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے انہوں نے کہا کہ میں نے جب ان خواتین کے افسانوں اور غزلوں کا مطالعہ کیا تو محسوس کیا کہ یہ لکھنے کے لیے نہیں لکھتیں بلکہ وہ جو دیکھتی ہیں محسوس کرتی ہیں اس کو قارئین کے روبرو پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں نام و نمود ان کی خواہش نہیں ہے بلکہ وہ اپنے جذبات و احساسات پر زیادہ توجہ دیتی ہیں اس موقع پر انہوں نے ادب سے متعلق کچھ اصلاحی پہلووں پر بھی اپنی باتیں رکھیں
فرید احمد خان صدر اردو کارواں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ وہ قیصر خالد کی بات کی تائید کرتے ہیں کہ واقعی خود مصنف کو دامے درمے قدمے سخنے سارے اقدامات کرنے پڑتے ہیں انہوں نے اس موقع پر اردو گھر کی بات بھی اٹھائی کہ عروس البلاد ممبئی میں جہاں آئے دن ادبی نشستیں ہوتی رہتی ہیں اردو گھر کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے انہوں نے نواب ملک وزیر اقلیتی امور واوقاف سے گزارش کی کہ اردو اکیڈمی کے تشکیل کے مسائل کو بھی جلد از جلد حل کیا جائے.
مصنفہ تبسم ناڈکر نے روح تبسم، عکسِ مجسم اور غزلوں کا سفر(رسالہ) کے تعلق سے اپنے تجربات و احساسات کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی طرف سے معاشرے کے مسائل اور ان کے حل کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہےاب وہ اپنی اس کوشش میں کتنی کامیاب ہیں یہ تو قارئین ہی پڑھ کر بتا سکتے.ہیں.واضح ہو اس موقع پر تبسم ناڈکر اس رسالے کی ایڈیٹر ہیں۔ غزلوں کا سفر نامی رسالہ کا بھی اجرا ہوا۔
طلعت سروہا جن کا تعلق سہارنپور سے ہے انہوں نے اردو کاروں اور تبسم ناڈکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تعصب اور افراتفری کے اس دور میں ایک مصنفہ دوسری مصنفہ کو تعاون دے اور ادارے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کریں مشکل ہی نظر آتا ہے لیکن انہوں نے ممبئی والوں کو ہر اعتبار سے مخلص پایا.
شبانہ خان جنرل سیکرٹری اردو کارواں نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوے کہا کہ غزلوں اور افسانوں کے تعلق سے بات کرتے ہوئے رشید احمد صدیقی کے اس جملے کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے اور شاعر کی حیثیت کسی محقق سے کم نہیں ہوتی ایک محقق جب کوئی عبارت تخلیق کرنا چاہتا ہے تو فکر و تحقیق کے سمندر میں نہ جانے کتنی بار غوطے لگاتا ہے تب کہیں جاکر خوبصورت الفاظ و فکر کے کچھ موتی اس کے ہاتھ آتے ہیں اور وہ انھیں صفحہ قرطاس پر بکھیرتا جاتا ہے.
اخلاق سر نے شکریے کی رسم ادا کی. ڈاکٹر لکشمن شرما واحد، پروفیسر جمیل کامل، شکیل انصاری ایڈیٹر ناگپاڑہ ٹائمز ، اطہر علی،عارف اعظمی، تریاق کے نائب ایڈیٹر حنیف قمر۔ اردو آنگن کے ایڈیٹر مشیر انصاری، احمد نگر سے آئے منور حسین، کمال مانڈلیکر، اخلاق انگوٹھے، مصدر ملاجی، دلاور چوگلے، فیض کھوت، آفتاب اجمیری، آزاد چوگلے، اور ممبئی اور کوکن خطے کی اہم علمی و ادبی شخصیات اس ادبی نشست میں موجود تھیں. منظور ناڈکر، عمر ناڈکر اور عمران ناڈکر نے مہمانان کو ہدیہء تہنیت پیش کیا.کمال مانڈلیکر نے ڈاکٹر محمد حسن کو سپاس نامہ پیش کیا۔