آزادی ہند میں علماء کی قربانیاں اور ہماری ذمہ داریاں

مفتی محمد جمال الدین قاسمی
رفیق آل انڈیا ملی کونسل بہار
15اگست ہندوستان کی تاریخ میں ایک عظیم الشان دن کی حییثیت رکھتاہے، یہ ایک ایسادن ہے کہ جس دن ہندوستانیوں نے فرنگیوں نے کے جبرواستبداد سے نجات پائی تھی، یہ وہ دن ہے کہ جس دن کے لیے ہمارے آباء واجداد نے اپنی گردنیں کٹائیں، مالٹاکی جیل میں قیدوبندکی صعوبتیں اٹھائین، کالاپانی کی سزائیں کاٹیں، وہیں پہ عمریں گزاردیں، وہیں پر مرگئے اوروہیں کی مٹی میں دفن ہوگئے، ہمارے آباء و اجداد کو توپوں سے اڑادیاگیا،انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوے تک جاری کیے، ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام تخت دار پر چڑھ گئے لیکن ساری کی ساری مشقتوں کو برداشت کرتے ہوئے بھی ہمارے آباء واجداد کے آہنی ارادے کبھی کمزور نہ ہوئے۔ تاریخ کے صفحات کوبھلے ہی مسخ کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہیں کہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی ہندوستان کے آخری تاجدار بہادرشاہ ظفر کی قیادت میں ہندو مسلم ایکتاکی بنیاد پر لڑی گئی، جس میں ساراملک بلاتفریق ومذہب ومشرب ملت شامل رہا، یہ وہ جنگ تھی جو درحقیقت 1947ء کی بنیاد تھی،تاریخ میں اسے 1947کی ریہرسل کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے۔اس جنگ میں اگرچہ کامیابی نہیں ملی، لیکن اس جنگ میں ہندوستان کے آخری تاجدار بہادرشاہ ظفرکی گرفتاری اورکچھ دیگرعوامل نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں سے دودوہاتھ کرنے کاجوش بھردیا،یہ وہ جنگ تھی کہ جس نے ہندوؤں اورمسلمانوں کوقریب کردیاتھاکیوں کہ دونوں کامقصد ایک اور نیک تھا،اورمقصدتھاکہ فرنگیوں سے مکمل نجات ملے،بہادرشاہ ظفرنے انگریزوں کے خلاف عوام کے دلوں میں آزادی کے شعلے جلاکرانہیں ہوادیتے ہوئے کہاتھاکہ”ہندیوں میں جب تلک ایمان کی بو۔۔۔۔تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی“
اگراس شعر کی حقیقت پر ذرابھی غور کیاجائے تو صاف طور سے دیکھاجاسکتاہے، یہ شعر اپنے اندرہندومسلم ایکتاکی کتنی بڑی جیتی جاگتی مثال لیے ہوئے ہیں، یہ ہندومسلم ایکتاکی بہت بڑی مثال ہے،یہی وہ ہندومسلم کی ایکتاکی طاقت تھی، جس نے ہندوستانیوں ایک دھاگے میں پروئے رکھا،اوراسی ہندو مسلم اتحاد کے بل پرآگے چل کر فرنگیوں سے لوہالیاگیا“ہاں“یہ الگ بات ہے کہ فرنگیوں نے اس اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی ناپاک کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، اور بالآخر ہندوستانیوں کوصبح آزادی کامنھ دیکھنانصیب ہوااگرباشندگان وطن ہندومسلم اتحاد کی رسی کومضبوطی سے نہ تھامے ہوئے ہوتے توبلاشبہ آج نہ ہماری آنکھیں ہوتیں اور نہ یہ عروس آزادی ہوتیں،بہرکیف 18ویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کاآفتاب مائل بہ غروب تھا،اورانگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہو رہی تھیں، انگریزجب ہندوستان پہونچے تھے،توتاجروں کی حیثیت سے پہونچے تھے اور عام لوگوں نے انہیں ایک معمولی تاجر کے سوا اورکچھ نہیں سمجھا۔لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انہوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکراپنی شاطرانہ عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اورہندوستان قوم کو غلامی کو غیرمرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے،یہاں کی دولت وثروت کو بے دریغ لوٹنے لگے،یہاں کے باشندوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے لگے اوریہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اوراس کاسلسلہ مزید بڑھتاہی گیاپانی جب سرسے اونچاہوگیاتوہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی وطن کاجذبہ پیداہوااورسب سے پہلے مسلمانوں اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا۔سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان شہید ؒ اور دیگرمسلم فرمانروا اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں کودپڑے،اوریوں تحریک آزادی کی ابتدائی ہوئی پھریہ تحریک رکی نہیں،بلکہ اس میں زور پکڑناشروع کردیا،اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکارنے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفاکشی عزم و ہمت، صبروآزمائش،دوراندیشی اورایثاروقربانی نے اس دور کی تاریخ کوانقلاب آخری بنادیااورمولاناشاہ عبدالعزیزدہلویؒ،مولانااسمعیل شہیدؒ، مولاناعبدالحئی ؒ اورآگے چل کر علمائے دیوبندمولاناقاسم نانوتوی ؒ،شیخ الہندؒ،مولاناگنگوہی ؒ، حافظ ضامن شہیدؒ، مولاناحسین احمدمدنی ؒ، مفتی کفایت اللہ،مولاناآزادؒ وغیرہ جیسے پیکر استقلال اورکوہ گراں پیداہوئے،جنہوں نے اپنی تقریروں،تحریروں بلکہ جانوں کانذرانہ پیش کرکے آزادی وطن کی بنیاد رکھی انہیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں 1857کی جنگ آزادی بہادرشاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی،جس میں ہندوستان کے ہرفرقے کے لوگ شامل تھے،لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اورناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کوچکانی پڑی،تقریباً 2لاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقربیاً 52ہزارعلماء تھے۔۔۔۔۔ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدرجانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری وساری رہا،اوربالآخرہماراملک تمام فرقوں بالخصوص مسلمانوں اورخاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اوریقین پیہم،کوشش اورجانی و مالی قربانی کے بعد15اگست 1947کو آزاد ہوگیا،26جنوری 1950سے جمہوری ملک قراردیاگیااوردستورکوسیکولر دستور کانام دیاگیا،مجاہدین آزادی کے سامنے تحریک آزادی کامقصد صرف سیاسی آزادی نہیں تھا بلکہ ایسے نظام حکومت کاخواب تھاجس میں اس ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی،سماجی اوراقتصادی آزادی حاصل ہو،تاکہ بغیر کسی مذہبی علاقائی اورلسانی تفریق کے سماجی،نابرابری جہالت،غربت،ظلم و تشدداورفرقہ وارانہ تعصبات سے سماج وجود میں آسکے اورہرشہری آبرومندانہ زندگی گزارسکے،غورکیجیے ملک آزادی ہوئے تقریباً 66سال ہوگئے،لیکن کیاانگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہمارے معاشرے کو انگریزی تہذیب وتمدن سے آزادی مل سکی 1947میں لوگوں کے درمیان مل جل کر رہنے کاسمجھوتہ نہ ہواتھا،کیاوہ کامیاب ہوتاہوانظرآرہاہے،کیاسماجی نابرابری کی خلیج پاٹ دی گئی کیاہرمذہب والے کو مذہبی آزادی مل سکی؟ بدعنوانیاں،کرپشن،سرکاری خزانے کی لوٹ،اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ،دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غیر قانون باتوں سے ملک آزاد ہوسکا؟ذراآگے بڑھیے آزادی ہندکے بعدایک مخصوص فرقہ کے اردگردگھیراتنگ کیاجانے لگا،گزشتہ 50,60سالوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ جوامتیازی سلوک کیاگیااس کے نتیجے میں جمہوریت پراعتمادکمزورہوا،اس دوران ملک کااخلاقی زوال اس سطح تک پہونچ گیاکہ ملک کے ہرمحکمہ اورملک کے ہر ادارے میں کرپشن،جھوٹ اورناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کاطوفان سا آگیااب ہرروز ایک نئی بدعنوانی کاپردہ فاش ہوگیا،سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن گئی، ملک کی فوج کے کچھ افراد شک کے دائرے میں آگئے،محب وطن کوغدار وطن کہاجانے لگامسلمانوں کے ساتھ ہرسطح پر اورتمام شعبہ ہائے حیات میں ناانصافی کی گئی،تعلیمی اوراقتصادی طور سے انہیں قعرمذلت میں ڈھکیل دیاگیا۔
1961سے فسادات کاسلسلہ چل پڑا،جانی ومالی دونوں اعتبارسے انہیں نقصان پہونچایاگیا،فاشسٹ تنظیموں اورسیکوریٹی فورسیزکوکھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ مسلمانوں کے خون میں آزادی سے ہاتھ رنگاکریں،دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا،ان کے عبادت گاہوں کونشانہ بنایاگیا،فرضی انکاؤنٹرکاکھیل کھیلاگیا،الغرض ہرمیدان میں ایک مخصوص فرقے کو پیچھے رکھنے کی سازشیں کی گئیں، کیامجاہدین آزادی نے ایسی ہی جمہوریت کاخواب اپنی آنکھوں میں سجایاتھا،دوسری طرف جانبازاورایثارشیوہ علماء اورمجاہدین آزادی کی خدمات اوران کی سرفروشی کے آثارونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں۔اوریہ باور کرایاجارہاہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کاکوئی خاص رول نہیں ہے،اورجشن آزادی اورجشن جمہوریہ کے موقع پر گاندھی،نہرو،سوبھاش چندربوس،بھگت سنگھ وغیرہ کانام پوری طاقت کے ساتھ لیاجاتاہے اورہماری نسل ان کی دام فریب میں پھنس رہی ہے،اور آج  ہماری نسل اپنے بزرگوں اورآباء و اجداد کی قربانیوں سے ناواقف ہے انہیں علمائے دیوبندکی جفاکشی،علماء صادق پورکی سرفروشی کابھی ہمیں علم نہیں، انہیں نواب سراج الدولہ،بطل حریت شیرمیسورٹیپوسلطان کی وطن پرستی سے واقفیت نہیں ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ،شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ، حاجی امدادللہ کی ذات گرامی سے واقف نہیں ہے،آج نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یابرادران وطن سب یہ سمجھتے ہیں کہ 26جنوری اور 15اگست ہماری قومی تاریخ کے پر مسرت کے دنوں میں سے ایک ہے، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں؟ لیکن ہم نئی نسل پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اکابرواسلاف کی قربانیوں کی تاریخ اوران کی سوانح حیات پڑھیں اوران کی حیات و خدمات کاجائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندرجذب کرکے ان کے نقش قدم پرچلنے کاحوصلہ پیداکرے۔ اوربرادران وطن کو علماء اورمجاہدین کے وطن پرستی اوروطن کے لیے جذبہ صادق ہرطرف سے روشناس کرائیں۔
انہیں بتا ئیں کہ اگر  آزادی  وطن  کی تا ریخ سے علماء کرام کی  خدمات کو نکال دیا جاےء  تو تاریخ  آزادی  کی روح  ختم ہو جاے گی،علماء ہندکے فکر سلیم اور جذ بہ صادق کا اعتراف نہ کیاجائے اوران کے سنہرے زنجیر کو نہ یاد کیاجائے تو نہ صرف یہ کہ بااخلاص اور ایثارشیوہ جماعت کے حق میں ناانصافی ہوگی بلکہ حق یہ ہے کہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اورایثاروقربانی کو پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا۔اس جماعت  نے 18ویں صدی کے وسط سے رفتارزمانہ کوبھانپ کر جونظریہ مرتب کیااور وطن عزیز کی ترقی اورکامیابی کے لیے جوتدبیریں سوچیں اورجس طرح اس پر عمل کیاوہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے، مسلمان آزادی وطن کی لڑائی میں دوسروں کے ساتھ شریک رہے ہیں، ان کاانکار کرناناممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تحریر و تقریر کے زریعہ سے لوگوں کو ر وشناس کرائیں جس کے لیے سارے آپسی اختلافات مٹانے ہوں گے اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے کہ موجودہ حالات میں ایک مضبوط قیادت ہی مسلمانوں کے دردکادرماں بن سکتی ہے
بہرحال ہمارے بزرگوں نے جس نئے ہندستان کاخواب دیکھاتھا اتحاد کاوہ درس ہمیں بہادرشاہ ظفر نے اپنے شعرکے حوالے سے دیاتھاجسے ہندومسلم اتحادکامظاہرہ ہمارے علماء نے اورجس ہندومسلم اتحاد کی طاقت کے سہارے ہمارے بزرگوں اس ملک کو انگریزوں سے آزادی کرایاتھاجوگنگاجمنی تہذیب ہمیں وراثت میں ملی تھی، ہم اس ہندومسلم اتحا د اوراس گنگاجمنی تہذیب کو بچانے میں کہاں تک کامیاب ہو پائیں ہیں اس لیے ہمارے 15اگست کادن جشن منانے کاہی دن نہیں ہے، بلکہ حقیقت معنوں میں ہمارے لیے 15اگست کادن ہمارے لیے محاسبہ کرنے کادن ہے ایک ایسامحاسبہ جس میں یہ دیکھاجاسکے کہ وطن عزیز کو تمام طرح کی فرقہ پرستی کے پاک کرنے اور گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم  ایکتا کی جڑوں کو مضبوط سے مضبوط ترین بنانے میں ہمارا کیا کر دار ہے،آواز وہی باوزن کہلاتی ہے جو اسمبلیوں اورپارلیمانٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے،جو اخباروں کے صفحات میں پڑھی جائے اورالکٹرانک میڈیا کی نشریات میں سنی جاتی ہے،مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیم کے ذریعہ اپنی آوازمیں میں وازن پیداکرنا ہوگا،یہی وہ راستہ ہے،جو انہیں حقوق سے بازیافت اورعزت و توقیر کی منزل مقصود تک پہنچاسکتا ہے۔
رابطہ نمبر: 6201800479