پاپولر فرنٹ کا مناسب ریزرویشن ، متناسب نمائندگی اور ذات کے اعتبار سے مردم شماری کا مطالبہ

نئی دہلی: (پریس ریلیز) پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پاس کردہ ایک قرار داد میں تنظیم نے پسماندہ طبقات کے لئے متناسب حصہ داری کو یقینی بنانے کے لئے ذات کے اعتبار سے مردم شماری اور مناسب ریزرویشن کا مطالبہ کیا ہے۔
این ای سی نے کہا کہ مثبت عمل کے وسیع نظام اور دیگر معاون میکانزم کے باوجود پسماندہ طبقات کی نمائندگی کی سطح مسلسل نیچے گر رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے دو حالیہ انکشافات نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے حال ہی میں راجیہ سبھا کو مطلع کیا کہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ ملک کے معروف ترین تکنیکی تعلیمی اداروں آئی آئی ٹی سے سب سے زیادہ ڈراپ آؤٹ ہوئے ہیں۔
پاپولر فرنٹ کی این ای سی نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ایک طرف جہاں مناسب نمائندگی کے آئینی مقصد کا حصول پہنچ سے بہت دور ہے، وہاں ریزرویشن کے نظام کو کئی خطرات کا سامنا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیر تعلیم نے پارلیمنٹ میں یہ بھی بتایا کہ او بی سی کے ہزاروں عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سے کریمی لیئر جیسے تصورات پسماندہ طبقات کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو ریزرویشن سے محروم کرنے کا ہتھیار بن گئے ہیں۔
دریں اثنا، حکمراں جماعت اور متعدد اپوزیشن پارٹیاں مل کر ریزرویشن کے تصور کو ہی کمزور کر رہی ہیں۔ اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینا اعلیٰ ذات کے منصوبے کا حصہ ہے۔ اور یہ سماجی و تعلیمی پسماندگی اور کم نمائندگی کے اصل آئینی معیار کو کھلے عام ہائی جیک کرکے کیا گیا۔ ترقی یافتہ ذاتوں کے معاشی اعتبار سے کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کو ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے مواقع چرا کر ریزرویشن دیا گیا۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایک کے بعد ایک ترقی یافتہ اقوام جو کہ معاشی اعتبار سے بہتر ہیں اور ملازمتوں و تعلیم میں کافی زیادہ نمائندگی رکھتے ہیں، وہ آگے آکر رزرویشن کے مطالبے کر رہے ہیں۔ لیکن وہیں پر مسلمانوں کے لئے ابھی تک کوئی ریزرویشن طے نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ تمام تحقیقات اور رپورٹوں نے مسلمانوں کو ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ طبقات میں شامل کیا ہے۔ گرچہ مہاراشٹر حکومت نے شروع میں مسلمانوں اور مراٹھاؤں کو ایک ساتھ ریزرویشن دینے کی بات کہی تھی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے مطالبے کو مسترد کئے جانے کے بعد بھی صرف مراٹھاؤں تک ریزرویشن کو محدود کر دیا۔
ذات کے اعتبار سے مردم شماری کرانے میں حکومت کی جھجھک ریزرویشن کے مؤثر نفاذ کے لئے دوسرا بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ذات کے حساب سے ڈیٹا کو اَپ ڈیٹ کرنا ملک کے پسماندہ طبقات کا ایک طویل عرصے سے رکا ہوا مطالبہ ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر پہلو سے ذات کو اہمیت دی جاتی ہے، وہاں ہم تقریباً ایک صدی پرانے ڈیٹا پر اپنے تمام مثبت اعمال اور ترقی کے منصوبوں کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ ترقی اور سماجی انصاف کے منصوبوں کی مساوی تقسیم کے لئے ذاتوں کا ٹھیک ٹھیک اور اَپ ٹو ڈیٹ ڈیٹا ہونا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جب ریزرویشن کو کمزور کرتے ہوئے معاشی اعتبار سے کمزور طبقات کے لئے ریزرویشن دینے اور کریمی لیئر کو نکالنے کا فیصلہ لیا گیا تو یہ سب اصل ڈیٹا پر نہیں بلکہ محض مفروضوں پر مبنی تھا۔
لہٰذا پاپولر فرنٹ کی قومی مجلس عاملہ حکومت، تعلیم اور وسائل کی تخصیص میں تمام طبقات کی متناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے ذات کے حساب سے مردم شماری اور مناسب رزرویشن کا مطالبہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی پاپولر فرنٹ کی این ای سی عدلیہ سے یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ نمائندگی و ریزرویشن سے متعلق مسائل پر فیصلہ دیتے وقت سماجی انصاف کے اصولوں اور آئینی اصولوں کو برقرار رکھے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں