تبسم صدیقی
فرمان رسولﷺ ہے کہ اگر کچھ غلط ہوتے ہوئے دیکھو تو اسے روکنے کی کوشش کرو اگر ہاتھ پیروں سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکنے کی کوشش کرو اور تیسرے درجے کی ناپسندیدگی یہ ہے کہ اس کام کو دل سے برا سمجھا ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اپنی قلم سے زبان کا کام لینا کچھ غلط نہیں ہوگا۔ آج ہماری قوم کی پسماندہ حالت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔سیاسی طور پر ہم جتنے گر چکے ہیں وہ پسماندگی کی انتہا ہے ۔پہلے ہم بیوقوف بنتے تھے اب ہم ذلیل بھی ہورہے ہیں۔ نوجوانو کو جیل میں ٹھوسنے کے بعد جھونٹی کہانیاں بناکر گولی ماردی جاتی ہے۔کسی ایک اچھے طالب علم کو صرف اسلئے غائب کرادیا جاتا ہے کہ وہ مسلم تھا۔ اس کی ماں کے دل کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اللہ اس کا بیٹا اس سے جلد ملا دے۔دنیا کی ہر ماں کو اس بُرے دن سے محفوظ رکھے۔ مسلمانوں کے قتل عام کو لوگ اس طرح بھول جاتے ہیں جیسے رات گئی بات گئی۔ گجرات کے دنگوں کی طرح مظفر نگر کے دنگوں کو بھی بھلا دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ مارکاٹ کو لوگ اس طرح بھول گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ ملک کی آزادی میں رتی بھر بھی حصہ نہ لینے والے اور جنکے ہاتھ مہاتما گاندھی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ہمیں دیش بھگتی کا سرٹیفکٹ بانٹ رہے ہیں اور ہمیں پاکستان بھیج رہے ہیں۔
ہمارے بڑے ہمارے ہاتھ میں جو دستور تھما کرگئے ہیں اس پر ہمیں فخر ہوناچاہیے جو ملک کے ملٹی کلچرل کردار کے عین مطابق ہے جہاں ملک کے ہر شخص کو برابری کا حق حاصل ہے ۔جس میں سب کے مذہب و تمدن کاپورا احترام کیا گیا ہے اور سب کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اس دستور کے اوپر کوئی نہیں ہے۔ یہ ملک ہمارا بھی ہے جتنا کسی دوسری قوم کا۔ہر سیاسی جماعت ملکی نظام چلانے کا حق حاصل ہے ۔پہلے ہماری نجی زندگی میں اور آپسی معاملوں میں سیاست کا اتنا دخل نہیں تھا،ماحول میں کوئی تلخی نہیں تھی۔اب ہر خاص و عام کا مجمع ایک سیاسی مجمع ہے۔ سیاسی تنظمیں ہی نہیں ہر شخص سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ رولنگ پارٹی اپنے آپ کو بادشاہ وقت سمجھتی ہے۔
حالانکہ یہ کہنا پوری طرح ٹھیک نہیں ہے بادشاہ بنا رنگ و نسل کے امتیازکے اپنی رعایا کے بیچ انصاف کیا کرتے تھے جب کہ وہ کسی کے پابند بھی نہیں تھے۔آج چیک اینڈ بیلنس کے اس نظام میں لوگ انسانیت کو بھولے ہوئے ہیں۔ یہ کاغذی چولے والے راشٹر بھگت اندر سے کھوکلے اور ڈرے ہوئے ہیں ان کی ڈکشنری میں ایک لفظ کا اضافہ ہوگیا ہے جسے یہ لوگ اسلام فوبیہ کہتے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنوں اپنی ذات کو پہچانئے ۔ چھوٹے چھوٹے وقتی مفاد کی خاطر جھگڑ کر اپنی قوت کو مت برباد کیجئے۔ اپنی ہی قوم میں بکھراؤ مت لائیے۔ ملّت ایک ایسا لفظ ہے جسے مذہب کے ساتھ جوڑکر بولتے ہیں۔ آج ہمیں علامہ اقبال کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کاش وہ آج ہمارے بیچ ہوتے اور ہمیں اپنی ذات کو پہچاننا سکھاتے۔میری یہ خواہش رب کائنات کے قانون کے دائرے میں تونہیں آتی۔ لیکن وہ اپنے پیچھے ہمارے لیے اتنا سب کچھ چھوڑ گئے ہیں کہ اگر ہم ان کی تعلیمات پر غور کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں تو ہمیں ان کی یہ دعاقبول ہوتے ہوئے ضرور نظر آسکتی ہے جب انہوںنے یہ کہا تھا کہ
’’خدایا آرزو میری یہی ہے * میرا نور بصیرت عام کردے‘‘ سرسید ہمیں جگاتے جگاتے اس دنیا سے کافی دنوں پہلے رخصت ہوچکے ہیں۔ کچھ تو ہم جاگ بھی گئے لیکن پوری طرح نہیں۔اتنے کہ ہمیں اپنے پرسنل لا کی حفاظت کرنی آگئی ہے۔ اگر ایسا بھی نہ ہوتا تو ہماری مجبوری عزّت نفس بری طرح مجروح ہوجاتی۔ یہ بھی ایک بڑی جیت ہے اگر ہم نہیں جاگتے تو یہ By the people, for the people والا ملکی نظام ہمارا مذاق اڑاتا رہتا اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرسکتی تھیں۔
میرے عزیز بھائیو بہنوں صرف اور صرف مل کر رستے کی درخواست سے ملت کے متعلق ہمارے رسول کے کئی فرمان تو آپ نے سنے ہونگے۔
وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرلیں۔ حقوق العباد کا خیال رکھیں جو ایک پر امن معاشرے کی روح ہے۔ ورنہ ہم اس طرح ظلم زیادتی کا شکار ہوتے رہیں گے ۔کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ہمارے لیے کون قانون بنائے اور کون رول کرے ۔اس بات کو طے کرنے کا ہمیں پورا اختیار ہمارے ملک کے آئین نے دیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایک بندہ مومن ہماری آواز کو پارلیامنٹ تک پہنچارہا ہے۔اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ ملک میں جو حق تلفیاں ہوتی ہیں اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پارلیامنٹ میں اعتراض اٹھاتا ہے ۔ہمارے ملک کے انصاف پسند حضرات چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ان لوگوں میں انہیں گنا جاسکتا ہے۔ آج ہمیں ایسے ہی سیاسی رہنما کی ضرورت ہے۔