ایران صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کی کامیابی کے امکانات

تہران ملت ٹائمز(ایجنسیاں)

ایران میں رواں سال ملک میں صدارتی انتخابات کی بازگشت کئی ماہ قبل ہی سنائی دینا شروع ہوگئی ہے۔ رواں سال کے صدارتی انتخابات میں بھی اعتدال پسند اور بنیاد پرست آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے ہیں۔ایران کے اصلاح پسندوں کے خیال میں موجودہ صدر حسن روحانی سے بہتر اور موزوں کوئی اور امیدوار نہیں، جبکہ بنیاد پرست اور مذہبی جنونیوں کا کہنا ہے کہ آئندہ مئی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں وہ حسن روحانی کو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ایران کی دستوری کونسل میں اکثریت بنیاد پرستوں کی ہے۔ انہوں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر حسن روحانی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی تو وہ دستوری کونسل میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں گے۔انتخابات کی تاریخ قریب آتے ہی ایرانی بنیاد پرستوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان محاذ آرائی اور الزام تراشی میں بھی شدت آگئی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات عاید کررہے ہیں۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مقربین نے دھمکی دی ہے کہ وہ حسن روحانی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے دستوری کونسل میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائیں گے۔ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سابق صدر محمود احمدی نژاد بھی مئی 2017ء کے انتخابات کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محمود احمدی نژاد مسلسل سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اگرچہ سپریم لیڈر کی طرف سے انہیں گذشتہ برس آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے 30 ستمبر 2016ء کو خود بھی خامنہ ای کے حکم پر انتخابی امیدوار قرار دینے کی تردید کی تھی مگر اس کے باوجود وہ خود کو اس مقصد کے لیے ایک بار پھر تیار کرنے لگے ہیں۔ایران کے ایک بنیاد پرست سیاست دان نے امریکی نیوز ویب پورٹل مانیٹر کو دییگئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ محمود احمدی نژاد پوری ملک کے دورے کرہے ہیں۔ ان کے یہ دورے عام نوعیت کے نہیں بلکہ انتخابی دورے ہیں جہاں وہ لوگوں سے خطاب کرتے ہیں اور ان کے سامنے اپنا انتخابی منشور پیش کرتے ہیں۔ایرانی سیاست دان کا کہنا ہے کہ احمدی نژاد اور ان کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ سپریم لیڈر کی طرف سے احمدی نژاد کو انتخابات میں حصہ لینے سے منع کرنے کی بات محض ایک مشورے کے لیے دی تھی۔ یہ سپریم لیڈر کا حتمی فیصلہ نہیں تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے سیاسی اکھاڑے میں اگرچہ موجودہ صدر حسن روحانی کا پلڑا بھاری ہے مگر وہ بدستور سیاسی طور پر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے جو وعدے کر رکھے ہیں ان میں سے بہت کم کو ایفاء کیا گیا۔ وہ اپنے مدت صدارت میں سیاسی کارکنوں، رہ نماؤں، اصلاح پسندوں اور سبز انقلاب تحریک کے جیلوں میں بند کارکنان کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ اس لیے لوگوں میں ان پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ان کے سیاسی مخالفین جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں سے سمجھوتے کو ان کی کمزوری کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ صدر حسن روحانی متنازع جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں مگر انہوں نے وہ اس معاہدے کی شقوں پر عالمی برادری کو پابند بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔حسن روحانی کے مقربین امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سیبھی خائف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ایران اور مغرب کے درمیان طے پایا معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ایران میں اصلاح پسندوں کا ایک ایسا گروپ موجود ہے جو صدر حسن روحانی کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہے۔ ان میں سبز انقلاب تحریک کے کارکنان خاص طور پر شامل ہیں۔ وہ حسن روحانی کے بجائے علی مہطری نامی ایک رہ نما کو صدارتی امیدوار بنانے کے خواہاں ہیں۔ علی مطہری پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ انہوں نے ہر موڑ پر سبز انقلاب تحریک کی حمایت کی اور ملک میں جاری کرپشن اور بدعنوانی کا پردہ چاک کرتے رہے ہیں۔

SHARE