پروفیسر اختر الواسع
ہند۔بنگلہ دیش سرحد پر لکیر کھینچتی ’ برہم پتر ندی ‘ خاموش اپنی رفتار میں بہہ رہی ہے، ساحل پر عارضی خیموں میں پناہ گزیں 800 خاندانوں کی زندگی بھی خاموش ہے۔ معصوم بچے اور خواتین پر مشتمل یہ کنبے بھوکے پیاسے اور انجانے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ آسام کے یہ مظلوم شہری این آر سی کے مکرجال میں کاغذی ثبوت پیش کرکے آگ کے دریا سے ڈوب کر نکل تو گئے، لیکن شہریت کا یہ عصریت ان کا پیچھا چھوڑ نے کو تیار نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت اب ’ناجائز قبضہ ہٹاؤ مہم‘ کے تحت بے قصور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ صرف کسی ایک ضلع اور گاؤں کا معاملہ نہیں ہے، برہم پتر اور معاون ندی سوتا کے کنارے آباد سیکڑوں ایسے گاؤں ہیں جو سرکار اور انتظامیہ کے نشانے پر ہیں اور وقفے وقفے سے کارروائی کی جا رہی ہے۔ آسام آہستہ آہستہ سلگ رہا ہے، گھر بار چھیننے اور جان و مال تباہ وبرباد کرنے کی یہ روش زور پکڑ رہی ہے جو اس ریاست کو میانمار کی رخ پر لے جا رہی ہے۔
درنگ ضلع کے سپاجھار اور دھول پور گاؤں میں گزشتہ 23ستمبر کو تجاوزات ہٹاؤ مہم کے تحت ظلم و بربریت کا جوننگا ناچ کھیلا گیا، اس نے ساری حدیں پار کر دیں۔ یہاں زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان رہتے ہیں۔ بیشتر لوگ کم تعلیم یافتہ اور کاشتکار ہیں، جھونپڑی اور پھونس کے کچے مکان میں رہتے ہیں، معمول کے مطابق ان کی زندگی گزر رہی تھی کہ ریاست کی بی جے پی سرکار کی ہدایت پر پولیس نے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آگ لگا دی اور وحشیانہ کارروائی شروع کر دی۔ اس کے خلاف جب مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پولیس کی کارروائی کی مخالفت کی تو گولیاں برسا کر انہیں خاموش کر دیا گیا۔ دو بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، درجنوں زخمی ہیں۔ وحشیانہ کارروائی کا جو ویڈیو وائر ل ہوا ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پولیس نے ایک شخص کے پیٹ میں گولی ماری، زمین پر گرنے کے بعد اسے زد و کوب کیا، نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو مرے ہوئے شخص کوبوٹوں سے روندا اور اس پر چھلانگ لگائی۔ درندگی کی حد تو دیکھئے کہ ایک پولیس اہلکار اس کو ہٹاتا ہے لیکن وہ پھر سے زمین پر پڑے مردہ جسم پر چھلانگ لگانے پہنچ جاتا ہے۔ خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اس نوجوان کی پہچان بجئے شنکر بنیا کے طور پر کی ہے، جو مقامی سطح پر فوٹوگرافی کا کام کرتا ہے اورضلع انتظامیہ نے اس صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے اس کی خدمات لی تھیں۔ اس بیچ ریاستی حکومت نے عوام کے غصے کو دیکھتے ہوئے عدالتی جانچ کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ داخلہ اور پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری دیب پرساد مشرا کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کی جانچ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج کے ذریعے کی جائے گی۔
اس وحشیانہ کارروائی کو ہوئے ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دہائیوں سے رہ رہے لوگ اپنی زمین اور آشیانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اجڑا ہوا گاؤں ، جگہ جگہ راکھ کا ڈھیر، جلی ہوئی سائیکلیں، برتن، فرنیچر اور راکھ میں تبدیل غلے واناج؛ سرکار اور انتظامیہ کے ظلم کی کہانی بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو تازہ تصاویر روزانہ ہمارے سامنے آرہی ہیں، اسے دیکھ کر سخت سے سخت دل انسان کا دل لرزجاتا ہوگا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور خواتین بے یارو مددگار کھلے آسمان کے نیچے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ ہائے افسوس! بی جے پی سرکار نے مسلم دشمنی میں درندگی کی تمام حدیں پار کر دیں۔ اس واقعہ کے بعد آسام کے مسلم اکثریت دیہی علاقوں، گاؤں اور محلوں میں ہر چہرہ بے چین اور ہر آنکھیں انجانے خوف کی داستان بیاں کر رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ گلیوں اور کھیت کھلیانوں میں موت جیسا سناٹا ہے۔ ہر طرف مایوسی اور خوف کا عالم ہے۔ شہریت قانون کی آزمائش میں کامیاب ہو نے کے باوجود آشیانے لٹ جانے کا خوف ستا رہا ہے۔
جس وقت یہ فائرنگ ہو رہی تھی درانگ کے ایس پی اور وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے چھوٹے بھائی سشانت بسوا شرما موقع پر موجود تھے۔ ’سشانت بسوا شرما نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقہ بڑا تھا اور میں دوسری طرف تھا،اس لئے پولیس فائرنگ کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ انتظامیہ کا دعوی ہے کہ یہ سبھی مہاجرین سرکاری زمین پرقبضہ کئے ہوئے تھے، جب کہ گاﺅں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسی ملک کے شہری ہیں، یہیں ہماری زمین اور گھر تھا، ہماری پیدائش اسی دھرتی پر ہوئی ہے، ہم سبھی کا نام این آرسی میں آیا ہے، پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ آسام پولیس کی کارروائی میں جاں بحق ہوئے معین الحق اور شیخ فرید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے کماﺅ چراغ تھے۔ بچے، بوڑھے اور والدین کاپیٹ پالنے کے لیے دہاڑی مزدوری کرتے تھے، اب ان کا خیال کون رکھے گا؟
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے تمام قانونی اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ کارروائی انجام دی ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد نہیں تھے، بلکہ جمہوری طریقے پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی رپوٹ کے مطابق ہر شہری کو آزادی کے ساتھ مناسب رہائش کا حق حاصل ہے، شہریوں کو جو حقوق حاصل ہیں انہیں فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ خود ہماری عدالت عظمی نے تسلیم کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 21 جس میں ہر شہری کو محفوظ زندگی کا حق دیا گیا ہے۔ بے دخلی سے پہلے سرکار کو بازآبادکاری اور متبادل انتظام کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کا کام لوگوں کی بھلائی کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو بے گھر کرکے ان کے لیے مشکلیں پیدا کرنا، لیکن آسام کی بی جے پی حکومت کو اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کی کوئی پرواہ نہیں، ان پر تو نفرت اور مسلم دشمنی کا بھوت سوار ہے۔
گزشتہ تین مہینے میں دھال پور میں تجاوزات ہٹانے کی یہ تیسری مہم تھی۔ ’آٹھ ہزار بیگھہ ‘زمین واپس لینے کی پہلی مہم کے بعد جون میں شرما کی کابینہ نے ہزاریکا کے صدر کی حیثیت سے ایک کمیٹی کی تشکیل کو منظوری دی تھی، جس کا کام درانگ میں سپاجھار کے گورکھٹی میں تجاوزات سے خالی کرائی گئی 77 ہزار بیگھہ سرکاری زمین کا زرعی مقاصدکے لیے استعمال کرنا ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1970 کی دہائی سے دھال پور اور آس پاس کے مسلمانوں پر بے دخلی کی تلوار لٹک رہی ہے، آسام حکومت اس کے لیے آمرانہ رویہ اپنا تی رہی ہے اور جب سے آسام میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، وہ ترجیحی بنیاد پر ایسے ہی ایشوز کو سلگا رہی ہے، جس سے نفرت کی آگ بھڑکے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کو بے دخل کرنے کی کارروائی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے تین ماہ قبل دھبری ضلع میں 300 خاندانوں کو اجاڑ دیا گیا۔ دو سال پہلے بسوا ناتھ ضلع کے چوٹیا علاقے سے 445 خاندانوں کو بے گھر کیا گیا تھا۔
اس نازک صورتحال میں جمعیۃ علماء ہند (محمود مدنی گروپ) جماعت اسلامی ہند اور اجمل فاؤنڈیشن جس طرح سے مظلوموں کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ملک بھر میں جس طرح کا احتجاج اور بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے سرکار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پانی اب سر سے اونچا ہی ہوتا جا رہا ہے اور ظلم و زیادتی ایک حد ہوتی ہے۔ سرکار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ:
ظلم کی ٹہنی کبھی سدا پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
اس ملک کے انصاف پسند، جمہوریت دوست اور سیکولرزم کے حامی لوگ اس صورتحال کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے۔
اس لئے کہ آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جن کے آبا و اجداد اس دھرتی پر پیدا ہوئے اور اسکی محبت میں پیو ند خاک ہوگئے، ان کی دوسری اور تیسری نسل اب موجود ہے، انہوں نے اسی سرزمین پر آنکھیں کھولیں اور اسی مٹی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، اب دستاویزات کی آڑ میں ان سے اپنی مٹی چھوڑنے کو کہا جا رہا ہے۔ ان میں لاکھوں وہ لوگ ہیں جو برہم پتر اوراس کی معاون ندی سوتا کے کنارے آباد ہیں جہاں ہر سال جان لیوا سیلابی طوفان آتا ہے جو جان ومال کے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ بہت ساری ایسی تکنیکی خامیاں ہیں جسے گہرائی میں جا کر سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت کی ضد اور تعصب کے آگے بے بس اور مجبور آسامی مسلمان مرد وعورت اور معصوم بچے شہریت کے کاغذ کا ٹکڑا لیے غم کی تصویر بنے ہوئے ہیں، آگے کیا ہوگا، کچھ پتہ نہیں، ان کے چہروں پر ایک اَن کہی کہانی ہے جس کو کوئی پڑھنے کو تیار نہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)