یروشلم(ملت ٹائمز۔ایجنسیاں)
امریکی صدر بارک اوباما نے اسرائیلی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے جو یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں، ان کی وجہ سے مستقبل کی فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہوگیا ہے۔ اوباما نے کہا کہ وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کہتے ہیں کہ وہ دو ریاستی حل کے حق میں ہیں مگر ان کے عمل سے مسلسل یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ان پر دباؤ ڈالا گیا تو وہ مزید یہودی بستیاں بنانے کی اجازت دے دیں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ وہ دو ریاستی حل کے بارے میں کیا کہتے آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی چھینی ہوئی زمین پر جابجا متعدد یہودی بستیاں تعمیر کردی ہیں۔ مقبوضہ غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 570,000یہودی آباد ہوگئے ہیں جب کہ فلسطینیوں کی 26لاکھ آبادی یہاں رہی ہے۔
اسرائیل نے 1967کی جنگ میں غرب اردن اورمشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعد میں اس نے مشرقی یروشلم کو اپنے ملک میں بھی شامل کرلیا حالانکہ بین اقوامی طور سے اس قدم کو ناجائز سمجھاجاتا ہے۔ اوباما جو20جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں، کہا کہ پچھلے چند سال کے دوران انہوں نے اور وزیر خارجہ کیری نے بے شمار مرتبہ،،ذاتی طور سے نتن یاہو سے بستیاں بنانا بند کرنے کی اپیل کی مگر انہیں نظرانداز کیا جاتا رہا۔ اب جو حالات ہیں،جو زمینی حقائق ہیں، اس سے آزاد، خود مختار باعمل فلسطینی ریاست کا قیام اگرناممکن نہیں تو حد سے زیادہ دشوار ہوچکا ہے۔ ا وراب تو اسرائیل اوباما کے جانے کے بعد نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اسرائیل کی اور بھی زیادہ مدد و حمایت کریں گے ۔
ٹرمپ ،اوباما انتظامیہ کی اسرائیلی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے تو یہ تک کہا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیں گے جس سے فلسطینی ناراض ہیں۔ انہوں نے اس وکیل کو امریکی سفیر نامزد کیا ہے جس نے ایک بڑی یہودی بستی کے لئے پیسہ اکٹھا کیا تھا۔ نتین یاہو اور اوباما کے درمیان کئی سالوں سے بستیوں کی تعمیر اور ایران کے ساتھ معاہدہ جیسیمعاملوں پر کشیدہ تعلقات رہے ہیں۔ جب امریکہ نے دسمبر میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرار داد کو ویٹو نہیں کیا تو تعلقات اور زیادہ تلخ ہوگئے تھے اور نتن یاہو نے اوباما اور کیری پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔نتین یاہو کا کہنا ہے کہ اوباما نہ صرف بستیوں کی بات کرتے ہیں جبکہ تنازعہ کی جڑ یہ ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر یہودی ریاست کے ہی خلاف ہیں۔ فلسطینی غزہ پٹی کے ساتھ ساتھ غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر اپنا حق رکھتے ہیں ۔ وہاں آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس پر اسرائیل 1962 سے قابض ہے۔ غزہ پٹی کو 2005 میں اسرائیل نے چھوڑ دیا تھا۔
امریکہ کی ثالثی سے ہونے والی امن بات چیت 2014 میں ٹوٹ گئی تھی۔ امریکی بستیوں کی تعمیر کوناجائز قرار دیتا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک اسے قیام امن کی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ فلسطینی اپنی زمین واپس چاہتے ہیں مگر اسرائیل کا کہنا ہے کہ بائبل کی رو سے تاریخی طور پر یہ یہودیوں کی زمین ہے۔