شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں سیاسی طاقت کے حصول کیلئے بنیادی شرط مضبوط سیاسی پارٹی کا وجود ہے ،آزادی کے بعد سے جوپارٹیاں سرگرم ہیں ان میں مسلمانوں کوئی شراکت نہیں ہے ،قومی اور علاقائی ہرایک پارٹی میں چندمسلم چہرے صرف مسلم ووٹ کو حاصل کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں ،پارٹی صدر جب چاہتے ہیں انہیں باہر کا راستہ دکھادیتے ہیں ،ان پارٹیوں کی حکومت میں مسلمانوں کو کو ئی عہدہ دیاجاتاہے تو برائے نام ہوتاہے ،وہ مسلم رہنماء انتہائی بے بس اور ناکارہ ہوتے ہیں ،ان کے پاس اپنی قوم کیلئے کچھ کرنے کا ذرہ برابر کوئی اختیار نہیں ہوتاہے۔
ہندوستان میں ستر سالوں کا تجربہ یہی بتاتاہے کہ مسلمانوں کے پاس بھی اپنی کوئی سیاسی پارٹی ہونی چاہئے جو خود مختار ہو ،جس کی اپنی ایک پالیسی ہواوروہ مسلمانوں کی آواز ہو،چندصوبوں میں مسلم پارٹیاں سرگرم ہیں اور وہاں کے مسلمانوں نے ان پر اعتماد کیاہے۔ایسے ہی ایک پارٹی حیدرآباد میں مسلمانوں کی آواز بننے کے بعد اب شمالی ہندوستان میں قدم رکھ کر یہاں کے مسلمانوں کی ترجمانی کرنا چاہتی ہے۔
مخلص مسلم رہنماؤں پر ہمیشہ بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کا الزام عائد کیا گیا ہے ،ایک مرتبہ پھر مسلم رہنماؤں پر الزام عائد کیا جائے گا لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان خوف کی دنیا سے باہر قدم رکھیں ،اپنے اندر سے اس طرح کے خدشات کو دورکریں کہ مسلمان کو ووٹ دینے سے ہندو متحد ہوجائیں گے ،مسلم ووٹ منتشر ہوجائے گا ،بی جے پی کی حکومت بن جائے گی ،مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجائے گا ،ہندوستان ہندوراشٹر بن جائے گا،2014کے عام انتخاب میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے مسلم ووٹ بے حیثیت ہے اور ہرممکن کوشش کے باوجود بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی،اس لئے بھلائی اسی میں ہے کہ بی جے پی کا خوف کھائے بغیر اس پارٹی کے نمائندوں کو اسمبلی پہونچائیں جن کی قیادت ایک صالح اورہمدرد مسلم رہنماکے ہاتھ میں ہے ، جو ہر موڑ آپ کی آواز بلند کرتے ہیں ، سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک آپ کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں ،آپ پر ہورہے مظالم سے دنیا کو آگاہ کراتے ہیں ۔