مدتوں بعد پھر مل بیٹھے

محمد شاهد،  مقیم ریاض
ہماری  آخری میٹنگ سال 2020 میں مارچ کے مہینہ میں ہنگامی نشست کے عنوان پر ہوئی تھی۔ اس وقت دہلی اور اطراف ملک میں CAA  اور NRC جیسے ظالمانہ قانون کے خلاف زبردست احتجاج چل رہا تھا، اور شاہین باغ کا پروٹسٹ جذباتی اور روحانی طور پر اس کی لیڈ کر رہا تھا۔ اس پروٹسٹ کو کچلنے کے لئے شر پسندوں نے اپنے آقائوں کے اشارے پر دہلی میں فروری کے آخری ہفتے میں ایک خونریز فساد برپا کر دیا تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 سے زائد ہندو اور مسلمان کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس میں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان زیادہ ہواتھا کیوں کہ مرکزی حکومت کے زیر اثر دہلی پولیس ان شر پسندوں کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ اسی حادثے پر غور و خوض کے لئے اور متاثرین کی مدد کے لئے قاسمی برادری کی ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔
دوسری طرف،  اس کے کچھ ہی دنوں بعد چین سے جنم لینے والا کرونا وائرس پوری دنیا کو تیزی سے اپنی چپیٹ میں لے رہا تھا ، جس کی روک تھام کے لئے بھارت اور دوسرے کئی ممالک بشمول سعودی عرب نے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کی احتیاطی تدبیر لاگو کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ پورا 2020ء گذر گیا مگر اس لاک ڈاؤن سے مکمل راحت نہ مل سکی۔
اسی بیم و امید  میں سال2021 آگیا اور کئی ماہ اسی طرح گذر گئے۔ یہاں تک کہ اکتوبر کا مہینہ آگیا۔ اس میں حکومت سعودی عرب نے کرونا کی پابندیوں سے بہت زیادہ راحت کا اعلان کردیا۔ پبلک مقامات اور مفتوح علاقوں سے ماسک کی پابندی ختم کردی گئی اور اجتماعات کی پابندی بھی اٹھا لی گئی۔
اس کے دوسری جانب، نومبر 2021 کے پہلے ہفتے میں قاسمی گروپ میں خبر شائع کی گئی کہ مولانا ہاشمی صاحب گھوسی مئوی کے منجھلے برخوردار محمد احسن نے حکومت ہند کی جانب سے منعقد ہونے والے نیٹ (NEET) کے امتحان کو 90.7% نمبرات سے پاس کرلیا ہے۔ اس خبر کو مولانا محفوظ صاحب نے جذباتی طرز بیان میں شائع کیا تھا۔ اس پر تمام برادران قاسمی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے اپنے انداز میں بچے کو مبارکباد پیش کی اور مولانا ہاشم صاحب کو خوب سراہا۔
اسی دوران مفتی عبید اللہ صاحب نے قاسمی برادری کی ماہا نہ اجتماع کی پرانی روایات کو جو کرونا کی وجہ سے ٹھپ پڑ گئی تھی،  از سر نو شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔ گویا کہ سبھی اس تجویز کے منتظر تھے اور لوگوں نے اس تجویز کی مکمل تائید کی ۔ اور 12 نومبر 2021 بروز جمعہ بعد نمازِعشاء متصلا بھائی ہارون صاحب کی حویلی پر اجتماع طے پا گیا۔ خواہشمند احباب نے اپنی اپنی حاضری کی تاکید درج کروادی۔ اس طرح حاضر ہونے والے احباب کی فہرست 44 تک پہنچ گئی۔
11 نومبر کو میرا ارادہ تھا کہ مدینہ منورہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کے لئے حاضری دوں گا، ٹکٹ بھی تیار تھا؛ لیکن میں نے اس اجتماعی عمل کو اپنے انفرادی عمل پر ترجیح دی؛ اور کیوں نہ کرتا کہ یہ علماء کرام کا مجمع تھا، علوم نبوت کو سینوں میں بسانے والوں کا پرنور اجتماع تھا۔
بہر حال جمعہ کو بعد نماز عشاء ٹیکسی کرائے پر لی اور بھیجے ہوئے لوکیشن پر پہنچ گیا۔ یہ الملز تھا ۔ اول وہلہ میں لگا کہ یہ مولانا انعام صاحب کا محلہ ہے؛ لیکن نہیں یہ دوسری جگہ تھی۔ آگے ایک مسجد دکھی۔ داہنے ہاتھ پر کچھ آوازیں مسلسل باہم گفتگو کرنے کی کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ اتنا یقین ہو گیا کہ لوکیشن درست ہے ؛ لیکن تردد میں تھا کہ انٹری گیٹ کونسا ہے؟ میں نے بھائی اشرف کو فون لگایا۔ وہ فورا باہر آگئے۔ میں گیٹ کے سامنے ہی تھا۔
ان کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک بار پھر شک ہوا کہ کہیں یہ مولانا انعام صاحب کا ہی تو مکان نہیں ؟ لیکن فورا عقل نے یاوری کی کہ نہیں یہ وہ نہیں ہے، اسی جیسا ہے۔ سامنے دروازے کے داہنی جانب دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کھانے کی خوشبو آرہی تھی اور بھوک کو بھڑ کا رہی تھی۔ سامنے مولانا ہارون صاحب ملے ۔ ان سے سلام مصافحہ کرکے آگے بڑھا۔ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد حاضر ہو چکی تھی۔ مولانا انعام صاحب صدر انجمن اور مولانا لطف اللہ صاحب مفسر قرآن ایں انجمن وغیرہ تشریف فرما تھے اور کئی دیگر شخصیتیں مجلس کو رونق بخش رہی تھیں۔ یہ کشادہ جگہ آنگن کی طرح، اس میں قالین بچھی ہوئ اور گاؤ تکیے سجے ہوئے ماحول کو پر کیف و پر لطف بنا رہے تھے۔ میں سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ مولانا نور محمد صاحب سنت کبیر نگری بطحاوی اپنے دونوں بازوؤں سمیت تشریف فرماتھے۔ یعنی دائیں بائیں اپنے ہمدم کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میں بھی سلام مصافحہ کرکے ان کے پاس بیٹھ گیا۔
تما م حاضرین اپنے ہم نشینوں کے ساتھ باتوں میں مگن تھے؛ جب کہ مولانا اشرف صاحب،  مولانا صابر صاحب اور مولانا ہارون صاحب اپنے ہونہار بیٹوں کی فوج کے ساتھ خدمت کے کاموں میں مصروف تھے  ۔ چند اور چہرے مصروف خدمت نظر آئے مگر میرے لئے اجنبی تھے۔ کچھ دیر بعد میں نے مولانا محفوظ صاحب کو فون لگایا تو بتایا کہ وہ پہنچ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ مولانا معاذ اور مفتی عبید اللہ صاحب بھی تھے۔ ان کے تھوڑی دیر بعد مولانا ارشد صاحب بھی پہنچ گئے، ان کی رفاقت میں مولانا اکرم صاحب تھے۔ چند لمحات کے بعد سرپرست انجن مولانا عبد الباری صاحب بھی جلوہ افروز ہوئے۔ حاضرین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ لوگ جمع ہوتے گئے۔ آج جو بھی آتا اس کے چہرے پر ایک امنگ، ترنگ، ملنے کی خوشی جمع ہونے کی فرحت صاف ظاہر ہورہی تھی۔ تقریبا 50 سے زیادہ لوگ اس طرح جمع ہو گئے۔
کچھ دیر مبارک ہستیوں کا یہ اجتماع اسی طرب و کیف  میں مست رہا، کہ اچانک مولانا انعام صاحب کھڑے ہوئے، حاضرین کو متوجہ کیا۔ تفریح و ترنگ کے مجمع کو ایک علمی سرور اور روحانی شان عطاکرنی چاہی۔ کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور مولانا محفوظ صاحب کو اس مجلس کا اینکر اور مونا عبد الباری صاحب کو صدر مجلس منتخب کیا۔ بعد میں تبدیل کرکے لوگوں کی رائے پر مولانا جمیل  الرحمن صاحب کو صدر مقرر کردیا گیا۔
مولانا محفوظ صاحب نے اسٹیج سنبھالا ۔ مختصر سی تمہید کے بعد کہ یہ مجمع صرف نششتن ، خوردن،  برخاستن ہی نہ رہے  بلکہ علماء ورثة الانبیاء کی شان کی چھاپ لے، انہوں نے تلاوت قرآن،  بادشاہوں کے بادشاہ  کے کلام سے مجلس کا آغاز کرنے کے لئے قاری خورشید صاحب کو دعوت اسٹیج دی۔ قاری صاحب نے سورہ القارعہ اپنی خوبصورت آواز اور حسین لہجے میں تلاوت فرمائی۔ مولانا لطف اللہ صاحب نے حسب ذوق و عادت ترجمہ و تفسیر کی یاد دہانی کرائی؛ لیکن جواب نہ ملنے پر اینکر صاحب نے مولانا لطف اللہ صاحب کو ہی زحمت تفسیر کی دعوت دی۔ مولانا نے خوشی خوشی دعوت قبول کی اور کرسی پر نہ بیٹھ،  قالین پرہی بیٹھے بیٹھے تفسیر شروع فرمائی۔ مولانا نے سورہ تبت یدا ابی لہب کہ تفسیر کو ترجیح دی کہ پچھلی آخری نششت جو مارچ 2020 میں ہوئی تھی اس میں إذا جاء نصر الله کی تفسیر ہوئی  تھی اور خود ہی بیان فرمائی تھی۔ اس سابقہ تفسیر سے ربط رہے کہ سورہ إذا جاء نصر الله میں جاء الحق کا اعلان ہے تو تبت یدا میں زهق الباطل کی خبر ہے۔ مولانا نے تبت یدا أبي لهب کا شان نزول یہ بتا یا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بحکم الہی فاصدع بما تؤمر  و أعرض عن المشركين کی تعمیل میں بنو عبد مناف اور بنو عبد الطلب کو کوہ صفا سے نداء لگا ئی۔ وہ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو یقین کروگے؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ضرور۔ جب سب نے آپ کی صداقت کی گواہی دے لی تو آپ نے فرمایا اے لوگوں کلمہ لا إله إلا الله پڑھ لو کامیاب ہوجاؤ گے۔ یہ سننا تھا کہ آپ کا چچا ابو لہب بھڑک اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو نوں ہاتھ  اٹھا کر بد دعا دی کہ تباً لك، کیا اسی لئے ہم کو جمع کیا تھا؟ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔ اس کی تفسیر کرتے فرمایا کہ تبت یدا  أبي لهب کے بعد و تب کا اعادہ کیوں کیا گیا ہے؟ پھر اس کی توجیہ میں مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

۔ 1: تبت یدا میں بد دعا ہے اور تب میں اس کی خبر ہے۔

۔ 2: دوسری توجیہ یہ ہے کہ تبت یدا میں اس کی جاہ و عظمت اور طاقت و قوت کی ہلاکت کی بد دعا ہے ، جب کہ و تب میں اس کی ذات کی ہلاکت کی بد دعا ہے۔ اس کو مولانا نے بتا کہ یہ توجیہ دل کو لگ بھی رہے ہے۔
آگے فرمایا کہ قرآن میں اور لوگوں پر جیسے ابو جہل وغیرہ پر بھی بد دعا ءکی گئی ہے لیکن نام کا ذکر نہیں ہے؛ اس کو نام لے کر کیوں بد دعاء کی گئی؟ اس کا جواب ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ صلی اللہ کا چچا تھا ، اس کے دو لڑکے عتبہ اور عتیبہ تھے، ان سے حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم  نکاح میں منسوب تھیں، لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اس بد بخت نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے اپنے بیٹوں کو حکم دیا محمد صلعم کی بیٹیوں کو طلاق دے دو۔ ان دونوں نے آپ صلعم کی بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ عتبہ تو طلاق دے کر لوٹ گیا؛ لیکن جب عتیبہ آیا تو اس نے طلاق بھی دی اور آپ صلعم کے منہ مبارک پر تھوکا بھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بد دعا فرما دی۔ اس وقت ابو طالب موجود تھے، فرمایا کہ یہ محمد کی بد عا ہے، ضرور تو ہلاک ہوگا۔ چنانچہ ایک بار ایک قافلے کے ساتھ تھا ، سفر میں رات کو قافلےنے پڑاؤ ڈالا۔ قافلہ والوں نے سامان جمع کرکے اس کو اوپر لٹا دیا تاکہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچ سکے؛ لیکن جب رات ہوئی تو ایک شیر آیا، لوگوں کو سونگھتا ہوا اس تک پہنچا اور اس کی گردن دبوچ لی اور یہ مردود ہلاک ہو گیا۔  اور چوں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چچا تھا ، اس لئے اس کو بنام ذکر کیا گیا تاکہ لوگوں کو پیغام جائے کہ نبی کی قرابت بھی کوئی نفع نہیں دے گی اگر وہ اللہ و رسول کو نہ مانے۔
جب مولانا و امرأته حمالة الحطب پر پہنچے تو فرمایا کہ یہ اس کی بیوی ام جمیل کے بارے میں ہے، جو بہت جوبصورت تھی۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سخت دشمن جان تھی۔ حتی کہ مفسرین نے شش و پنج کا اظہار کیا ہے کہ آیا ابو لہب زیادہ سخت دشمن تھا یا یہ زیادہ سخت تھی؟ یہ کانٹے دار لکڑیاں جنگل سے جمع کرکے گردن میں لٹکا کر لاتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں بچھاتی کہ آپ کو تکلیف ہو۔
اور في جيدها …اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جہنم میں جب داخل ہوگی تو اس کی گردن میں رسی کا طوق پڑا ہو گا۔
تلاوت کلام پاک کے بعد خیر الانام کی بارگاہ میں نظرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے ، اینکر صاحب نے مولانا ہاشم صاحب کو دعوت دی جو اصل محرک اور سبب  تھے اس اجتماع کے۔ مولانا ہاشم صاحب نے نعت پاک سے پہلے اپنے سات سالہ بچے کے حفظ شروع کرنے اور تین پارہ مکمل کرنے کی خوش خبری سناتے ہوئے لوگوں سے بچے کے لئے کامیابی کی دعا کی درخواست کی اور ایک شاندار شعر پڑھا جس میں حفظ قرآن سے متعلق والدین کے بروز قیامت نوازے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ اس شعر کا مفہوم  یہ تھا:
خدایا میرا بھی جنت میں گھر ہوجائے
میرا     لڑکا   بھی   حافظ      قرآن       ہوجائے
اس کے بعد انہوں نے نعت شریف پیش کی جس میں آپ صلی اللہ کی معراج کے واقعہ کو نظمایا گیا تھا۔
مولانا ہاشم صاحب کے بعد مفتی منصور صاحب اور قاری خورشید صاحب نے بھی نعتیہ کلام پیش فرمائے اور حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ پوری مجلس با ادب کان لگائے نعت پاک کے اشعار کو سن رہی تھی۔ پوری فضا میں روحانیت اور وجد کی کیفیت پھیل گئی تھی اور جیسے تھوڑی دیر کے لئے مادی دنیا کے بکھیڑوں سے الگ ہو کر روحانی دنیا کی سیر کرنے لگ گئے تھے۔
بہر کیف نعت کے اس سلسلے نے مجلس کو نیا رنگ اور رونق بخش دی۔ اس مجلس کو عام لوگوں کی مجالس سے ممتاز کردیا۔ اور علما کی کی مجالس کی جو شان ہونی چاہئے وہ کیفیت خوب محسوس ہوئی ۔
نعتیہ سلسلے کے اختتام کے بعد مولانا انعام صاحب نے ایک مقالہ پیش کیا جس میں کورونا کی تباہی ، دنیا کی بے بسی و عاجزی اور قادر مطلق کی خود مختاری و قدرت، ہر چیز پر حکمرانی اور کنٹرول کے مختصر تذکرے کے بعد، مولانا نے کرونا کال میں دنیا سے رخصت ہونے والوں کے لئے افسوس اور دکھ کا اظہار فرمایا، ان کے لئے دعا مغفرت بھی فرمائی۔ ہمارے بزم قاسمی کے فعال رکن جناب مفتی عبد الحفیظ صاحب کی جدائی کو بھی دکھ کے ساتھ ذکر کیا اور ان کی وجہ سے گروپ میں مسئلے مسائل کے جواب میں پیدا ہونے والے خلا ءکا بھی ذکر کیا۔ ان کے علاوہ مولانا عبد الباری صاحب کے گھرانے سے کل 19 افراد کے گزر جانے کا ذکر بڑا دکھ بھرا تھا، جن میں خود مولانا عبد الباری صاحب کے بزرگ فرزند جناب ظفر باری صاحب مرحوم بھی تھے۔ اللہ ان تمام مرحوم کی مغفرت فرمائے، جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔
اس مقالے کے بعد صدر جلسہ مولانا جمیل صاحب نے کچھ نصیحانہ کلمات ارشاد فرمائے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم اس پر فتن دور میں اپنے لڑکوں کی اچھی تربیت کریں جو ان کے دین و دنیا کی کامیابی کی ضامن ہو اور دوسرے یہ کہ ہم دعوت کے فریضے کو عملی طور پرانجام دیں۔
اس کے بعد بلا تاخیر مہمان خصوصی مونا غالب صاحب لاہوری شاگرد مولانا مفتی شفیع احمد صاحب اور مفتی تقی صاحب ، جو عمرہ کرنے آئے ہوئے تھے اور ریاض میں موجود تھے ،  ان کی دعا پر جلسے کا اختتام ہوا۔
دعا کے بعد منتہائے مجلس زندہ بکروں کی لذیذ بریانی کا دور تھا۔ قورمہ، بریانی اور زردہ پیش کیا گیا۔ ساتھ میں کولڈ ڈرنک بھی۔ کھا نا خوب لذیذ تھا، سب نے سیر ہو کر تناول فرمایا۔ اللہ تعالٰی مولانا ہارون صاحب ، مولانا اشرف صاحب اور تمام خدمت گاران کو بہترین بدلہ دے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com