وزارة شؤن اسلامیہ سعودی عرب کے بعض اہم ذمہ داران سے مولانا محمد رحمانی مدنی کی تفصیلی گفتگو
نئی دہلی: (پریس ریلیز) ہندوستان میں اس وقت تبلیغی جماعت کو لے کر سعودی عرب کی اسلامی امور کی وز ارت کے ایک بیان پر واویلا مچا ہوا ہے اس سلسلہ میں بہت سے افراد غلط فہمی کا بھی شکار ہیں۔ در اصل معاملہ یہ ہے کہ وزارت نے سعودی عرب کی داخلی مساجد کے ائمہ وخطبا ءکے لیے ایک اپیل جاری کی تھی جس میں ان کے ملک کے تناظر میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیادپر تبلیغی جماعت کے عقائد اورنظریات سے اختلاف کومد نظررکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جمعہ کے خطبہ میں ”جماعۃ التبلیغ والدعوة “ سے متعلق ان کے غلط نظریات پرلوگوں کومتنبہ کیا جائے۔
ملک میں پائی جانے والی بے چینی کے مدنظر ” ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر “ ، نئی دہلی کے صدر مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی حفظہ اللہ نے شؤن اسلامیہ کے وز یر کے بعض قریبی لوگوں سے تفصیلی گفتگو کی اور پورے معاملہ کی وضاحت مانگی اوریہ بھی معلوم کیا کہ وزارة کے ایک خط میں دہشت گردی (ارھاب) سے بھی جماعۃ الدعوة کو جوڑنے کی بات کہی گئی ہے اور در اصل یہی بے چینی کا بنیادی سبب ہے ۔ اس پر جوبات نکل کر سامنے آئی وہ ملک میں پھیلی افواہ سے بالکل مختلف ہے ، وزارة کے ان محترم ذمہ دار نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا کہ جہاں تک تبلیغی جماعت پر پابندی کی بات ہے تویہ بہت پرانا معاملہ ہے اور سعودی عرب میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر جن مکاتب فکر سے اختلاف کی گنجائش ہے عموماً ان پر پابندی عائد ہے اوران کو اپنے نشاطات پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہے اور اس سے متعلق وہاں کے علماءنے اپنی کتابوں میں علمی بحثیں بھی کی ہیں جنہیں کشادہ دلی کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ اور جہاں تک ارھاب اور دہشت گردی کی بات ہے تووہ خاص تناظر میں ہے اور اس سلسلہ میں سعودی عرب کے اندر واقع ہونے والے چند واقعات کوسامنے رکھ کر یہ بات ملکی تناظر میں کہی گئی ہے کیوں کہ سعودی عرب میں بعض افراد دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں جیسا کہ سعودی عرب کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کی اطلاع دی ہے ۔ان افراد کا تعلق دہشت گردی میں ملوث افراد کے ساتھ تعاون پر مبنی پایا گیا اور یہ افراد وہاں پر پائے جانے والی ” جماعۃ التبلیغ والدعوة“ یا ”الاحباب ‘‘ کے افراد تھے۔ انہوں نے پوری صراحت اور ذمہ داری کے ساتھ محترم وزیر شﺅن اسلامیہ کی طرف سے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اس سے مراد برصغیر یا عرب ممالک کے باہر پائی جانے والی تبلیغی جماعت بالکل بھی نہیں ہے۔ وزارة کے معزز ذمہ دار نے یہ بھی وضاحت کی کہ وز یر محترم نے جو بیان جاری کیا ہے وہ ملک کے داخلی مسائل سے تعلق رکھتا ہے اوراس بیان کوعمومی تناظر میںنہیں دیکھا جانا چاہیے ۔
مولانا محمدرحمانی نے مسلمانوں اوربالخصوص مسلم علماءسے یہ اپیل بھی کی ہے کہ مسائل کو گہرائی کے ساتھ سمجھے بغیر میڈیا اور دوسرے وسائل کے ذریعہ انہیں ہوا نہ دی جائے اور اللہ تعالیٰ کا فرما ن ”ولا یجرمنکم شنآن قوم علی ان لا تعتدلوا “ سامنے رکھا جائے کہ کسی قوم سے اختلاف اور عداوت تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کردے ۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ بہت سے افراد سعودی حکومت کو صیہونیت سے جوڑرہے ہیں اور ماضی میں یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک بڑے عالم اورذمہ دار نے اتہام لگادیا تھا کہ سعودی حکومت نے حج وعمرہ کے انتظامات اسرائیل کے حوالے کردیے ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ سب فضول باتیں ہیں اورہمیں محض مسلکی اختلاف کی بنیاد پر اتہام تراشی کی حدتک تجاوز نہیں کرنا چاہیے بلکہ عالمی پیمانہ پر سعودی حکومت کی انسانی خدمات اور مسلمانوں کے لیے کی جانے والی دینی خدمات پراس کا شکر گزار بھی ہونا چاہیے اور یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ ساری دنیا میں بڑھتی بے راہ روی کے اس دور میں اللہ تعالیٰ وہاں کے حکام کو ہر قسم کے غلط اقدامات سے محفوظ رکھے اور تمام امور میں غور وفکر کرتے رہنے اوردین کی طرف رجوع کرنے کی توفیق سے نوازے۔ کیوں کہ اللہ نے ہمیں اسی دین کی وجہ سے عزت ووقار عطا فرمایا ہے۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ آج کل سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں پربھی کافی اعتراضات سامنے آرہے ہیں ان میں سے بعض پروپیگنڈے اورغلط بیانی پر مبنی ہوتے ہیں اوربعض تبدیلیاں حقیقت میں بھی آئی ہیں لیکن ہمیں اپنے مختلف مکاتب فکر کے ذمہ داران کواس بات پرآمادہ کرنا چاہیے کہ وہ سعودی ذمہ داران سے بات کریں اورانگلی اُٹھانے سے پہلے اپنے معاشرہ پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے اور ان چیزوں کولے کر واویلا کرنے اور اتہامات کی پالیسی اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ ماضی میںایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ہندوستان ہی کے بعض ذمہ داران نے بعض منفی اقدامات پر سعودی حکومت سے بات چیت کی اور نصح وخیرخواہی کے اسلامی تصور کو سامنے رکھا تو وہاں کی حکومت نے مثبت اقدامات کیے، لہذا آج بھی ایسا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔