قطر کی ادبی فضا

تحریر : ڈاکٹر ہمایوں اختر نظمی
ہندستان میں جب مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہونے لگاتو اسی کے ساتھ اردو کا بھی مستقبل تاریکیوں میں ڈوبتا ہوا نظر آنےلگا ، سرکاری محکموں ، دفاتر اور سرکاری نوکریوں میں جب اردو کی اسامیاں ختم ہونا شروع ہوگئیں تو اردو والوں کو اسے بچانے کی فکر لاحق ہونے لگی اور دیکھتے دیکھتے اردو اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہوگئی اور جب تلاش معاش کیلئے اردو والوں نے ہجرت شروع کی تو اردو نے بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی اور اس طرح دیار غیر میں مہاجرین کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی نئی بستیاں قائم ہونے لگیں ، چنانچہ امریکہ ، کینڈا ، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں اردو نشریات ، اخبارات ، میگزین اور مشاعروں کے انعقاد نے زور پکڑا اس طرح اردو کو اپنے وجود کو بچانے میں کچھ امید پیدا ہو گئی اور یہ ایک اچھی علامت تھی ۔
اردو زبان جسے تہذیب اور محبت کی علامت کہا جاتا ہے۔اس کے تعلق سے ڈاکٹر بشیر بدر کہتے ہیں:
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
اور روش صدیقی فرماتے ہیں:
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جسکو یہ زباں آئی
اس طرح اردو زبان کی تعریف وتوصیف میں آپ کو بے شمار اردو کے اشعار مل جائیں گے، لیکن بعض اوقات اردو والوں کی آپسی رنجش ،چپقلش ، رسہ کشی اور گُٹ بازی دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ،قطر میں عرصہ دراز سے کسی نہ کسی حوالے سے اردو کا کام ہورہا ہے اور ان میں سب سے نمایاں کام مشاعروں کا انعقاد ہے۔13 دسمبر 2016 کو میرا قطر کا ایک ادبی سفر ہوا تھا؛چنانچہ ذیل میں ہم قطر میں سرگرم عمل اردو تنظیموں کا ایک سرسری جائزہ پیش کررہے ہیں، ہم نے اس جائزے میں تنظیموں کے قیام کی زمانی ترتیب کا خیال نہیں رکھا ہے
بزم اردو قطر:
یہ دوحہ قطر کی سب سے قدیم ادبی تنظیم ہے۔ 1959 میں اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا،لیکن کچھ آپسی اختلافات کی وجہ یہ تنظیم آپسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ، اس وقت قطر میں اس نام سے دو تنظیمیں پائی جاتی ہیں اور دونوں ہی اپنے نام کے ساتھ ” قدیم ترین ” کا اضافہ بڑے زور وشور کے ساتھ کرتی ہیں اور دونوں ہی کو اپنی قدامت کا دعوی ہے،یہاں تک کہ ان دونوں تنظیموں کے افراد ایک دوسرے کے پروگرامس میں بالکل شرکت نہیں کرتے۔
مجلس فروغ اردو:
یہ تنظیم تقریبا پچھلے بائیس سالوں سے کام کررہی ہے۔ یہ تنظیم پابندی کے ساتھ ہرسال ایک عالمی مشاعرےکا انعقاد کرتی ہےاور ہندستان و پاکستان سے ہر سال ایک ایک ادبی شخصیت کوایوارڈ دیتی ہے،اس تنظیم کا ادبی حلقوں میں اچھا نام اور کام ہے۔
حلقہ ادب اسلامی:
یہ جماعت اسلامی کا ادبی وِنگ ہے اور اس تنظیم کے ادبی پروگرامس پابندی کے ساتھ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار اداری امور کی وجہ سے اس میں تعطل بھی ہوتا ہے، لیکن اس تنظیم نے اپنے دروازے سبھی تشنگان علم وادب کیلئے وا کررکھے ہیں۔
انڈو قطر اردو مرکز:
نوے کی دہائی میں اس تنظیم کا قیا م عمل میں آیا تھا۔اس تنظیم کے بینر تلے کچھ بڑے مشاعرے ہوئے تھے،مگر اس کے بعد اس تنظیم کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
اردو انٹر نیشنل:
تقریبا آج سے تین یا چارسال قبل اس تنظیم کے بینر تلے پرفیسر اختر الواسع صاحب کی آمد پر ہوٹل شیزان میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔پھر اس کے بعد سے لےکر آج تک دوبارہ اس تنظیم کی کوئی بھی علمی وادبی سرگرمی دیکھنےمیں نہیں آئی۔
دبستان اردو:
اس تنظیم کا نام تو سننے میں آتا ہے لیکن کوئی ادبی سرگرمی شاید ہی کبھی سننے کو ملتی ہو
شائقین فن :
یہ خالص پاکستانی تنظیم ہے اور اس میں پاکستانی شعراء ہی شریک ہوتے ہیں ، یوم آزادی پاکستان وغیرہ کی مناسبت سے ان کے پروگرامس منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
انجمن شعراء اردو ہند قطر:
یہ تنظیم اب مرحوم ہوچکی ہے، لیکن غالبا 1996 میں اس تنظیم کا وجود عمل میں آیا تھا۔اس تنظیم کا بانی کو ن تھا اس نسبت سے بڑا شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔تنظیم بڑی پابندی کے ساتھ اپنے پروگرامس کرتی تھی اور بڑے اچھے اور معیاری ادبی پروگرامس اور مشاعرے منعقد کرواتی تھی۔ ان کے پروگرامس میں خاکسار کوبھی حاضری کا شرف حاصل رہا ہے، لیکن اب سے دس سال قبل کچھ آپسی اختلافات کیوجہ سے یہ تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور اس تنظیم کو تحلیل کردیا گیا۔ اُس وقت اس تنظیم کے ذمہ داروں نے ایک معاہدہ کیا تھا کہ کسی بھی نئی تنظیم کی تشکیل کے وقت ‘ انجمن شعرائے اردو وہند قطر ‘ کا جوہری نام استعمال نہیں کیا جائے۔
انڈیا اردو سوسائٹی:
انجمن شعرائے اردو ہند قطر کی تحلیل ہوجانے کے بعد اسی پرانی انجمن کے بعض افراد نے ‘انڈیا اردو سوسائٹی کی بنیاد ڈالی،یہ تنظیم دس سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ ماہانہ شعری نششتوں کے علاوہ کچھ عالمی مشاعرے بھی منعقد کرواتی آرہی تھی، لیکن انڈیا اردو سوسائٹی اور انجمن محبان اردو ( اس تنظیم کا تذکرہ آگے آرہا ہے )کے ذمہ داران کا ایک دوسرے کے پروگراموں میں آنا جانا بالکل بند ہے، بلکہ انڈیا اردو سوسائٹی اور بزم اردو قطر کا ایک ونگ آپس میں تعاون کرتا ہے اسی طرح بزم قطر کا دوسرا ونگ اور انجمن محبان اردو ایک دوسرے کے ساتھ پروگرامس میں تعاون کرتے ہیں اور گویا یہ چاروں تنظیمیں دو خیموں میں بنٹی ہوئی ہیں ۔
کچھ وجوہات کی نبیاد پر ( جس کا تذکرہ آگے آرہا ہے )انڈیا اردو سوسائٹی کے پروگرامز دسمبر 2015 کے بعد سے لیکر ابتک معطل ہیں۔
انجمن محبان اردو:
انڈیا اردو سوسائٹی کے قیام کے ایک سال کے بعد ‘ انجمن محبان اردو کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تنظیم تقریبا باقاعدگی سے ماہانہ شعری نششتوں کے علاوہ ایک سالانہ عالمی مشاعرہ بھی کرواتی ہے، لیکن چونکہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ‘ انجمن ‘ لفظ کا استعمال کیا تھا جوکہ پرانی تنظیم کے کچھ افراد کے مطابق معاہدہ کی خلاف ورزی تھی اس لئے اُس پرانی تنظیم (انجمن شعرائے اردو ہند قطر )کے دوسرے افراد نےان کے پروگرامزکا بائیکاٹ کردیا اور دس سال کا ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی اب تک برف کی سل جوں کی توں برقرار ہے اور آپسی تعلقات انتہائی جمود کا شکار ہیں نتیجۃً ایک دوسرے کے پروگراموں میں ان کا آنا جانا بالکل بند ہے۔
کاروان اردو قطر:
اس طرح کے ادبی گھٹن اور پابندیوں سے اکتاکر انڈیا اردو سوسائٹی کے سارے ذمہ داران نے دسمبر 2015 میں انڈیا اردو سوسائٹی سے استعفی دے دیا اور2016کے اوائل میں ‘‘کاروانِ اردوقطر’’ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیادڈالی اور اس تنظیم کے ذمہ داران نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنی تنظیم کے دروازے ہر تشنگان علم وادب کیلئے وا رکھے گی اور ساری تنظیموں کو اپنا تعاون دے گی اور ان سے تعاون کی امید بھی رکھے گی۔ اس تنظیم نے ہر دو ماہ پر شعری نششتوں کے علاوہ ادبی سیمینار اور ایک بڑے سالانہ مشاعرے کے انعقاد کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ مقامی سطح پر اس تنظیم کے اب تک تین بڑےپروگرامز اور حال ہی میں 17 دسمبر 2016 کو ایک بڑے عالمی مشاعرے کاانعقاد ہواہے، جو جشن منور رانا کے نام سے معنون تھا اور خاکسار اس پروگرام میں بطور خاص شرکت کیلئے دلی سے حاضر ہوا تھا۔اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دوحہ کی تمام ادبی تنظیموں نے شرکت کی تھی اور اپنا تعاون پیش کیا تھا اور اس طرح قطر کی ادبی فضاجو عرصہ دراز سے مکدر ہوچکی تھی ایک بار پھر معطر ہورہی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ ساری ادبی تنظیموں کیلئے ایک خوشگوار ادبی فضامیسر ہوگیز
گزر گاہ خیال:
2006 میں اس تنظیم کا قیام عمل میں آیاتھا اور گزشتہ تین سالوں سے یہ تنظیم غالب فہمی سمپوزیم تسلسل کے ساتھ کروارہی ہے لیکن یہ تنظیم بھی گروپ بندی کا شکار ہے اور کچھ خاص تنظیموں کے افراد ہی بڑے محدود پیمانے پر ان کے پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں۔
میڈل ایسٹ اقبال اکیڈمی:
تین سال قبل اس تنظیم کا وجود عمل میں آیا۔تنظیم کے ذمہ داروں کے مطابق اس کا ایک سالانہ پروگرام ہوتا ہے۔اس تنظیم کے بارے میں بیشتر افراد کو کوئی خبر نہیں ہے ۔
یہ تھا یہاں کی اردو تنظیموں کی سرگرمیوں کا ایک مختصر سا جائزہ۔ آپ کو محسوس ہوا ہوگا کہ بہت ساری تنظمیں بنیں اور وہ ایک آدھ پروگرامس سے آگے نہیں بڑھ سکیں ، کچھ تنظیموں کا وجود صرف کاغذ پر ہے عملا ان کی کوئی سرگرمی نہیں ہے،بلکہ کچھ لوگوں نے تو صرف بانی کہلوانے کیلئے تنظیم بنایا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تقریبا ان ساری ہی تنظیموں کا مطمح نظر مشاعروں کا انعقاد ہے گویا مشاعرہ ہی اردو کی خدمت کا واحد ذریعہ ہے، یا ان مشاعروں کے پسِ پردہ کچھ اور بھی مقاصد پوشیدہ ہیں ؟
یہی وجہ ہے کہ آج تک قطر میں مشاعروں کے علاوہ ایک بھی معیاری ادبی سیمینار کا انعقاد نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی ابتک کوئی ادبی دستاویز مرتب ہوسکی ہے۔آپ کو اس جائزہ میں یہ بھی محسوس ہوا ہوگا کہ کس طرح معمولی معمولی باتوں کو لے کر اختلافات ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے پروگراموں میں نہ صرف یہ کہ شریک نہیں ہوتے،بلکہ اپنے تابع اور متعلقین افراد کو بھی شرکت سے روکتے ہیں یہ معاملہ یہیں نہیں تھمتا بلکہ معاملہ طعن وتشنیع تک جا پہونچتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے چند معروف چہرے ہی ان تمام بناؤ بگاڑ کے پیچھے کارفرما ہیں ۔
ناظرین :اختلاف ایک فطری عمل ہے اور فن طنز و مزاح اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے اردو ادب کی تاریخ میں ادبی معرکوں کا تذکرہ جابجا ملتا ہے اور ان ادبی معرکوں کے نتیجے میں بہت سارا قیمتی کلام بھی ابھر کر آیا ہے لیکن جب اختلاف مخالفت تک پہونچ جائے اور طنزو مزاح اپنی حد سے گزر کر طعن وتشنیع اور سطحیت تک جاپہونچے تو کون باشعور حساس اور بادب انسان اسے پسند کرے گا ۔
ہندوستان میں بہت کم شعراء ہوں گے جن کی اپنی کوئی اردو کی تنظیم ہوگی بلکہ زیادہ تر شعراء منتظمین مشاعرہ کی دعوت پر شہر شہر قریہ قریہ جاکر اپنا کلام سناتے ہیں اور بدلے میں دادودہش سے سرخرو ہوتے ہیں لیکن قطر کے تقریبا تمام ہی شعراء نے اپنی اپنی اردو کی تنظیمیں بنا رکھی ہیں بلکہ ہر شخص ایک تنظیم ہے اور یہ لوگ مشاعرہ پڑھنے کے ساتھ عہدے اور مناصب کا بھی مزا لوٹتےہیں لیکن جب انھیں فنڈ کی ضرورت پڑتی ہے اسوقت تاجر طبقہ کی گود میں جا بیٹھتےہیں، لیکن اِنھیں ان کے حصے کی شہرت یا حصہ داری بہت گراں گزرتی ہے اور جب کبھی اس طبقہ سے بگڑ جاتی ہے تو ان کی زبان سے اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں
تختی گلے میں ٹانگ کے اردو کے نام کی
دولت خریدنے چلی شہرت حرام کی
مزید یہ شعر دیکھئے کہ
دولت نے اسکو مفتی دوراں بنادیا
جسکو نہ تھی تمیز حلال وحرام کی
ان اشعار کو پڑھ کر آپ کیا رائے قائم کریں گے
جبتک ان شعراء کو مشاعروں کیلئےتاجر طبقہ سے فنڈ ملتا رہتا ہے اس وقت تک انہیں خود حلال وحرام کی فکر نہیں رہتی ہے،لیکن جوں ہی تعلقات میں بال آتا ہے ویسے ہی تاجر طبقہ کی دولت میں انھیں حلال وحرام کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے اردو کے نام پر اردو کے خدمت گزاروں کی یہ حرکت دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، دراصل یہ لوگ اردو کی خدمت سے زیادہ اردو سے اپنی خدمت لے رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ اردو جسے محبت اور دلوں کو جوڑنے والی زبان کہا جاتا ہے کس طرح اردو کا دم بھرنے والوں کے درمیان آج نفرتوں کی خلیج پیدا ہوگئی ہے اور یہ خلیج کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہی جارہی ہے ۔اردو والو اگر آپ اردو کیلئے مخلص ہیں اور اردو کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو للہ اردو کو اس بد نما داغ سے بچایئں!!!

اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی★

SHARE