سیف الرحمٰن
بیورو چیف ملت ٹائمز
پانچ ریاستوں کے ساتھ ہی اُتر پردیش میں بھی اسمبلی الیکشن کا اعلان ہوگیا ہے جو کہ 10 فروری سے شروع ہوکر 07 مارچ تک 07 تاریخوں میں ہوگا- ایسے الیکشن تو 5 ریاستوں میں ہونے ہیں لیکن پوری قومی میڈیا و پورے ملک کی نظر اُتر پردیش پر ٹکی ہے اسکی سب سے اصل وجہ یہ ہے کہ اُتر پردیش اسمبلی الیکشن کو 80 لوک سبھا حلقوں والی ریاست کے الیکشن کی نظر سے 2024 کے لوک سبھا الیکشن کا سیمی فائنل مانا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں بھاجپا اُتر پردیش کو بچانے کےلئے اپنا پورا زور لگا چکی ہے کہ اُنہوں نے پوری مرکزی حکومت کو اُتر پردیش پر لگا دیا گیا ہے اور مذہبی منافرت کے ذریعہ تقسیم کی سیاست کو مکمّل طور پر ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہیں تو وہیں اُنکی نظر میں یوپی کی اہمیت کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈکٹیٹر کی طرح فیصلہ لیکر اس پر تانا شاہوں کی طرح ڈٹے رہنے والی مودی سرکار اُن کسانوں کی مانگوں کو عین الیکشن سے پہلے قبول کر لیتی ہے جسے خالصتانی، پاکستانی اور آتنکی تک کا لقب دیدیا گیا تھا اسی طرح انڈین نیشنل کانگریس بھی اُتر پردیش میں اپنے سیٹوں و ووٹ فیصد کو بڑھا کر 2024 میں مرکز میں واپسی کا راستہ کھولنا چاہتی ہے ساتھ ہی دلّی کی گدی پر نظر ٹکائے بیٹھے ممتا بنرجی و شرد پوار وغیرہ بھی اُتر پردیش میں اپنا وجود دکھانے و بنانے کی جدوجھد کر رہے ہیں
ان تمام حقائق کے بیچ اُتر پردیش کا سیاسی ماحول 1990 اور اس کے بعد والا بن رہا ہے جب منڈل و کمنڈل کی لڑائی نے پورے او.بی.سی سماج کو یادو کے ساتھ ملائم سنگھ کی قیادت میں متحد کر دیا تھا جسکے بعد اُتر پردیش کی چابی او بی سی کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی کیونکہ اُتر پردیش میں 43 فیصد کے قریب او بی سی ووٹ ہے تو وہیں دوسرے متبادل کے طور پر کانسی رام کی شکل میں ایک زمینی مضبوط نیتا دلتوں کی قیادت کیلئے سامنے آگیا اور اس قیادت نے اُتر پردیش کی سیاست میں دلتوں کی سیاسی اقتدار تک رسائی کرائی اور ان دونوں طرح کی قیادت نے کانگریس کے تحت چل رہی اعلیٰ ذات کی سیاست کو اُتر پردیش سے ختم کر دیا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے دونوں مذکورہ قیادتوں کے بنیادی ووٹ بینک میں اعلیٰ ذات کی دوسری سیاسی طاقت بھاجپا نے ہندوتوا نظریہ کی بنیاد پر جگہ بنا لیا اور وقت ایسا آیا کہ دونوں کے ووٹ کو اعلیٰ ذات ووٹ کے ساتھ ملاکر ایک بار پھر اُتر پردیش میں 2017 میں او بی سی و دلتوں کو اقتدار سے دور کر کے ایک ٹھاکر پنڈت کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا دیا اور اس نئی حکومت نے اُتر پردیش میں 05 سال میں ہی ان تمام طبقات کی سیاسی قیادت کو سورن راشٹر کا احساس کرا دیا ہے لہٰذا اب ایک بار پھر پوری او.بی.سی برادری اکھلیش کو اُتر پردیش سیاست کا محور بنا چکی ہے جسمیں ہم دیکھ سکتے ہیں کہہ اپنا دل کے اپرنا پٹیل گروپ و نشاد پارٹی کو چھوڑ کر او بی سی سماج کی تمام وہ چھوٹی، بڑی پارٹیاں اکھلیش یادو کے گرد جمع ہورہی ہیں جنکا ذرا سا بھی کسی بھی علاقے میں کوئی ووٹ بینک موجود ہے اسی طرح ہم نے وہ نظارہ بھی دیکھاکہ جب درجن سے بھی زیادہ بھاجپا کے ایم ایل اے و منسٹر اکھلیش یادو کے ہاتھوں سپا کا دامن تھام رہے تھے تو اسمیں تقریباً سارے نام او بی سی سماج کے ہی آرہے تھے غرض کے ٹھاکر لیڈرشپ و اعلیٰ ذات کی سیاست کے خلاف او بی سی مورچہ بندی مکمل طور پر کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے جو کہ یقیناً اُتر پردیش کے سب سے بڑے ووٹ کی مورچہ بندی ہے جو کہ اُتر پردیش کے ووٹ کا تقریباً نصف حصہ ہے لیکن اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اب بھی او.بی.سی سماج کا ایک بڑا طبقہ اس بھاجپا کے ساتھ ہی ہیں جنکے ساتھ وہ اپنی سیاسی لیڈرشپ کے ساتھ چلے گئے تھے مگر اب وہ اسی بھاجپا کے ہی نفرت پر مبنی سیاست کے مریض ہوکر رہ گئے ہیں تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اکھلیش کی یہ منڈل کمنڈل جیسی نئی سیاسی مورچہ بندی کی کوششیں اُنہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہنچا پائیگی ؟ تو اسکا جواب ایک طرح کی خاموشی کی شکل میں آتا ہے جو کہ کہیں نہ کہیں اکھلیش کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے اور اسکی سب سے اہم وجہ او.بی.سی سماج کے بڑے طبقہ کا رام مندر جیسے فیصلے سے ہی مکمّل طور پر خوش نظر آنا ہے
اس سچائی کے سامنے ہونے پر پھر یہ پوچھا جاتا ہے کہ پھر وہ اکھلیش یادو کیا کرے جس نے کئی مہینوں کی کوششوں کے بعد خودکو اس کردار تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ اکھلیش کے مقابلے کون؟؟ تو اسکا جواب خود اکھلیش یادو دیتے ہیں اپنے اتحاد کا نام سماجی انصاف کے اتحاد کا نام دیکر- جسکا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹھاکر یا اعلیٰ ذات کی ذات پات پر مبنی سیاست کے خلاف دلتوں،مسلمانوں اور اُو بی سی کو سیاسی انصاف و برابری دلانا یا اسکا مشترکہ جدوجھد کرنا- مطلب ایسے میں صاف ہے کہ اکھلیش یادو 43 فیصد اُو بی سی و 22 فیصد دلتوں اور 20 فیصد مسلمانوں کو ساتھ لاکر 85 بنام 15 کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں جسکا اظہار یوگی کے 80 بنام 20 والے بیان کے بعد انکے اتحاد کے لیڈران کی طرف سامنے آچکا ہے تو پھر ہر سیاسی تجزیہ نگار مان لیتا ہے کہ اگر اکھلیش یادو کی سوشل انجینئرنگ کا یہ فارمولا رہا اور اس فارمولا کو عملی جامہ پہنا لیا گیا تو بھاجپا کو بوریا بستر سمیٹ لینے پر مجبور ہونے سے شاید کوئی روک نہ پائے مگر اس فارمولے پر بھیم آرمی چیف چندر شیکھر آزاد راون کے اس پریس کانفرنس کے بعد ہی زبردست بحث چھڑ گئی ہے جو اُنہوں نے اکھلیش سے اتحاد نہ ہو پانے کے بعد لکھنؤ میں کیا اور کہا کہ اکھیلش یادو کو دلتوں کا ووٹ چاہیے لیکن انکا لیڈر نہیں چاہئے- اس پریس کانفرنس کے بعد ہنگامہ بپا ہو ہی گیا کیونکہ یہی بات اکھلیش کا پورا اتحاد بھاجپا کے معاملہ میں بحث میں چلا رکھا تھا کہ بھاجپا کو اُو.بی.سی کا ووٹ چاہئے لیکن انکے لیڈران کی کوئی اوقات انکے نظر میں ہے نہ ہی انکے مسائل سے اُنہیں کوئی مطلب- تو اب یہ سوال اکھلیش سے بھی ہونا لازمی تھا کہ آخر 19 پارٹیوں کے اتحاد میں صرف اُو بی سی کی پارٹیاں ہی نظر کیوں آرہی ہے؟ کیوں آخر راجد،این سی پی، ٹی ایم سی جیسی پارٹیاں جنکا اُتر پردیش میں دور دور تک کوئی وجود نہیں اُسے جگہ دیا جا رہا لیکن خود اُتر پردیش کے 20 فیصد مسلمانوں کے بیچ و 22 فیصد دلت کے بیچ متحرک پارٹیوں سے کوئی بات چیت بھی نہیں؟ جبکہ گزشتہ تین دہائی سے اُتر پردیش میں کمنڈل کی سیاست کے خلاف منڈل کی مضبوط سیاست کے ساتھ ہی امبیڈکر سیاست بھی اتنی ہی مضبوطی سے موجود رہی ہے اور کئی مرتبہ بہوجن سماج پارٹی کی وزیر اعلیٰ بھی ہوئی ہے توکیا آج وہاں کے عظیم اتحاد میں امبیڈکر سیاست کو مکمّل در کنار کرنا بھاجپا کو روکنے کے نعرے میں منافقت نہیں دکھاتا؟ اب سپا کے لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں بسپا سے اتحاد کر کے فائدہ نہیں ہوا اور بھاجپا سے بسپا ہاتھ ملانے میں ماہر ہے تو یقینا انکا یہ عذر قبول کیا جا سکتا ہے لیکن کیا اس سماج کے اُن نوجوانوں کے بیچ جو کہ کسی بھی قوم کا نصف سے زیادہ حصہ ہوتا ہے انکے بیچ مضبوط چہرہ رکھنے والے چندرشیکھر آزاد راون کی پارٹی اور کانشی رام کی بنائی تنظیم بامسیف سے جسکا اُتر پردیش میں زبردست کیڈر نیٹورک ہے اور گزشتہ الیکشن میں اچھا ووٹ فیصد پاکر اپنی موجودگی درج کرا چکی ہے ،اُن دونوں سے بھی اتحاد نہیں کیا جا سکتا تھا؟؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھنا لازمی ہے کہ جب 43 فیصد اُو بی سی کی درجن سے زیادہ ایسی پارٹیاں جن میں سے چند تو اچھا اثر اپنے علاقوں میں و صوبائی سطح پر رکھتی ہے لیکن اُن میں سے کئی ساری پارٹیاں ایسی ہیں جو اکیلے دم پر ایک سیٹ بھی نکالنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے-وہ تمام اتحاد کا حصہ رہ سکتی ہے تو 20 فیصد مسلمان جنکی حیثیت 170 سے زیادہ سیٹوں پر کنگ میکر کی ہے اور جنکی کمیونیٹی لیڈرشپ بہوجن سیاست کے بعد سے ہی ڈاکٹر فریدی کی مسلم مجلس سے لیکر مسلم لیگ اور پرچم پارٹی ہوتے ہوئے اس پیس پارٹی تک پہونچی جو کی 2012 میں اکیلے دم پر 4 سیٹ جیت کر اُتر پردیش کی پانچویں بڑی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اکھلیش اتحاد کی ابھی کی دوسری سب سے اہم پارٹی لوک دل اُن سے چھوٹی پارٹی بن کر رہی اور پھر 2017 میں یہ پیس پارٹی سیٹ نہیں نکال سکی لیکن اس وقت بھی لوک دل سے اچھا مظاہرہ کیا اور آج بھی پور وانچل میں اچھی پکڑ رکھتی ہے- اسی طرح توقیر رضا خان کی اتحاد ملّت کاؤنسل بھی اکیلے دم پر سیٹ نکالنے و اچھا ووٹ لانے کا کام کرتی رہی ہے- تیسری اہم پارٹی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے جسکا اُتر پردیش کے تمام علاقوں میں اچھا کیڈر نیٹورک موجود ہے اور گزشتہ پانچ سال میں موجودہ بھاجپا سرکار سے لگاتار اُنکی ٹھنی رہی ہے- اس پارٹی نے گزشتہ دنوں مغربی اُتر پردیش میں ایک پروگرام مظفر نگر میں چند دنوں میں منعقد کرکے سارے سیاسی تجزیہ نگاروں کو حیرت میں ڈال دیا تھا- اسی طرح 2017 الیکشن میں مجلس اتحاد المسلمین نے بھی اچھا مظاہرہ کیا تھا اور اس بار اور زیادہ مضبوط نظر آرہی ہے ان تمام کے علاوہ راشٹریہ علماء کونسل بھی ہے جنکا مضبوط اثر اعظم گڑھ میں و اسکے اطراف میں سب پر ظاہر ہے- اس طرح کی مسلمانوں کی کمیونیٹی سیاست کی زمین رہنے اور ریاست میں پانچ مضبوط پارٹیوں کے ہونے کے با وجود اکھلیش کا اپنے اتحاد میں کسی کو بھی نہ رکھنا کہاں کی عقل والی بات کہی جا سکتی؟ یا اس سے مسلمانوں کو لیکر اُنکی کیا فکر نظر آتی ہے؟ اس سوال پر مہینوں سے چرچا ہوتا رہا ہے اور سپا کے لوگ اس پر یہ کہتے نظر آئے ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین کی سیاست و اُنکی پہچان بھی بھاجپا جیسی ہی ہے اس لیے اُن کو لیا گیا تو تمام ہورہی کوششوں کو خود ہی برباد کرکے حکومت بھاجپا کو سونپ دینا ہوگا- اب اگر اُنکی دلیل کو مان لیا جائے اور یقینا بہت سے تجزیہ نگاروں کا بھی یہی ماننا ہے- تب بھی کیا سوال یہ نہیں ہوگا کہ پھر پیس پارٹی سے اتحاد کیوں نہیں؟ جب کہ وہ تو ریاست کی پانچوی بڑی پارٹی ہونے کے ساتھ ہی آپکے ساتھ ضمنی الیکشن میں اتحاد میں رہ چکی ہے اور اس اتحاد کا اعلان پیس پارٹی صدر ڈاکٹر ایوب کے ساتھ مل کر خود اکھلیش یادو نے کیا تھا- اور اسی طرح سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا سے اتحاد کیوں نہیں؟ جب کہ اکثر ریاستوں میں سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کا اتحاد ان سے رہا ہے جسمیں خود سپا کا کیرالا میں ان کے ساتھ مل کے الیکشن لڑنا شامل ہے ،پھر اُتر پردیش میں اُنہیں اچھوت سمجھنا کیوں؟ جب کہ ریاست میں انکا اچھا کیڈر نیٹورک ہونا آپکو بھی بہتر طریقے سے پتہ ہے
ان تمام سوالات کے ساتھ ہی اصل سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا اکھلیش نے جس اتحاد کو سماجی انصاف کا اتحاد کہا ہے وہ کیا حقیقت میں بس ایک اُو،بی،سی اتحاد ہے؟ جسمیں مسلمانوں و دلتوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جا رہا جو بھاجپا کی طرف سے اُو.بی.سی کے ساتھ رکھا گیا؟ اور یہ سوال بھی بنتا ہے کہ اعلیٰ ذات کی لیڈرشپ والی ہندوتوا سیاست کا حقیقی مقابلہ ایسے یکطرفہ اتحاد سے ممکن ہو پائیگا؟ یا یہ کہیں کی بھاجپا کو روکنے کے نعرے میں خود اکھلیش یادو بھی مخلص نہیں ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب تلاشنا ہوگا اکھلیش یادو کو اور خود مسلمانوں و دلتوں کو۔