آئین کا تحفظ عمل کرنے سے ہوتا ہے صرف کتاب میں لکھ دینے سے نہیں!

دیش اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب اس کے تمام باشندوں کو ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہوں

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

ملک میں آج یوم جمہوریہ کی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔کووڈ کی وجہ سے اگرچے یہ تقریبات اپنے تمام تر اہتمام کے ساتھ نہیں منائی جارہی ہیں مگر پھر بھی اپنے قومی تیوہار پر ہم کووڈ پروٹوکال کے ساتھ خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں اور کرنا بھی چاہئے۔میں اس موقع پر تمام دیش واسیوں کو دل کی گہرئیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ ہمارے لیے اس بات کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی اور جمہوری قدروں کا جائزہ لیں۔ ہماری آزادی دراصل ہمارے آئین کے تحفظ سے وابستہ ہے۔آئین کی حفاظت اس پر عمل کرنے سے ہے۔قانون کی کوئی بھی کتاب خواہ کتنے ہی قیمتی غلاف میں لپیٹ کر رکھ دی جائے،چاہے اس کو سونے کی سیاہی اور چاندی کے قلم سے لکھا گیا ہو،خواہ اس میں بلاغت اور ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہو،اس وقت تک بے کار ہے جب تک اس قانون پر عمل نہ ہورہا ہو۔ ہم ہر سال، 14اپریل کو بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے قانون بناتے وقت کمزور طبقات کے لیے آواز اٹھائی تھی، دو اکتوبر کو گاندھی جی پر عقیدت کے پھول ڈالتے ہیں،جو کہتے تھے ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں، 26نومبر کو یوم آئین مناتے ہیں، جس پر ہاتھ رکھ کر ہم اپنے عہدوں اور مناصب کا حلف اٹھاتے ہیں، 18دسمبر کو یوم اقلیت منایا جاتا ہے، اور سال نو کا آغاز یوم جمہوریہ کی تقریبات سے کرتے ہیں۔ مگر یہ سب محض رسم اور دکھاوا ہے اگر ملک میں آئین کی پاسداری اور عمل داری نہیں ہے۔

اس وقت ملک جن حالات سے گذر رہا ہے اگر میں یہ کہوں کہ بھارت کا آئین صرف نام لینے اور حلف اٹھانے کے لیے باقی رہ گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ جس طرف اور جس شعبے پر بھی نظر ڈالیں گے آپ کو آئین کی دھجیاں ہواؤں میں اڑتی اور بکھرتی نظر آئیں گی۔آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کا کھلے عام حکومت کے ایوانوں میں مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اس مذاق میں میڈیا ساتھ دے رہا ہے اورعدالتیں مسکرارہی ہیں۔ آئین میں درج مذہبی آزادی کا جنازہ نکل گیا ہے۔داڑھی، ٹوپی اور نقاب پر طنز کے تیر برسائے جارہے ہیں، ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کا کھیل جاری ہے، لوجہاد کے نام پر پسند کی شادی اور تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے،اپنے دھرم کے پرچار کی آزادی کا استعمال کرنے والے جیلوں میں ٹھونسے جارہے ہیں،اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بیف کے نام پر فریج اور کچن کی تلاشی لی جارہی ہے، بلی بائی ایپ کے ذریعے مسلم خواتین کی آبرو کو اچھالا جارہا ہے۔ گھس پیٹھیوں کی تلاش میں ایک خاص مذہب کے شہریوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، سر عام قتل کرنے اور مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اگر یہ دھمکیاں بدمعاشوں کی طرف سے ہوتیں تو دل کو سکون آجاتا مگر یہ دھرم کے نام پر دھارمک آتمائیں دے رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے آئین میں درج تمام بنیادی حقوق داؤں پر ہیں۔ نہ آپ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی کا مذہب اپنا سکتے ہیں،نہ اپنی پسند کی شادی کرسکتے ہیں۔ یہ ہے اس وقت ہمارے وطن عزیز کی صورت حال جب ہم اپنی جمہوریت کا جشن منا رہے ہیں۔

جمہوریت کا ایک ستون میڈیا ہے۔ جس کا نوے فیصد حصہ زعفرانی ہوگیا ہے۔ تمام بڑے اخبارات اور الیکٹرانک چینلس کے مالکان فسطائی نظریات کے غلام ہیں۔ اس میڈیا کا واحد کام حکومت کے اقدامات کے لیے فضا ہموار کرناہے اور اپوزیشن کو بدنام کرنا بلکہ مذاق اڑاناہے۔ ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثے انتہائی غیر سنجیدہ ہوتے ہیں، شرکاء ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں جس کی توقع کسی جمہوری ملک میں نہیں کی جاسکتی۔ محض ٹی آر پی کی خاطر گمراہ کن پرپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا بھی بے لگام گھوڑے کی مانند دوڑا جارہا ہے۔فحش اور اخلاق سے گرا ہوا مواد اپلوڈ کیا جارہا ہے۔

جمہوریت کا ایک مضبوط ستون عدلیہ ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ خاص طور پر عدالت عالیہ کے بارے میں خوش گمانیاں تھیں۔ عدالتوں سے انصاف کی امید میں لوگ پوری زندگی گزاردیتے تھے۔ اقلیتوں کو اوپر والے کے بعد صرف سپریم کورٹ پر یقین تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی ششومندر کے ودیارتھی پہنچ گئے ہیں۔ جہاں سے بعض فیصلے شواہد و ثبوت کے بر خلاف محض اکثریت کو خوش کرنے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے دئے گئے ہیں۔عدالتوں سے امید تھی کہ وہ غیر جمہوری قانون سازی پر نوٹس لیں گی،مگر یہاں تو زبردست عوامی احتجاج کے باوجود خاموشی ہے یا  مقدمات کوطول دیا جارہا ہے۔ بنیادی حقوق سر عام پامال ہورہے ہیں مگر عدالتیں خاموش تماشائی ہیں۔ نربھیا کے بعد بھی ہزاروں بیٹیاں انصاف کو ترس رہی ہیں۔ اس طرح آپ اندازہ کرسکتے ہیں جمہوریت کے چاروں ستون (مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا) فسطائی دیمک کی چپیٹ میں ہیں اور ایک ایک کرکے گررہے ہیں۔جمہوریت کے ان ستونوں کی کمزوری کا نقصان پورے ملک کو ہوگا۔ ملک کی اقتصادی حالت جو وینٹی لیٹر پر ہے اس کی روح پرواز کرجائے گی۔ بے روزگار پریشان ہوکر لٹیرے  بن جائیں گے۔بھوک سے پریشان لوگ ضمیر اور عزت فروشی پر اتر آئیں گے۔ CAA پر حکمرانوں کی ضد سے ملک کی ایکتا ہی نہیں سرحدیں خطرے میں پڑجائیں گی۔

آئین اور قانون کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ آئینی اداروں پر فسطائی ذہنیت کے لوگ غالب آگئے۔ ان لوگوں کا اپنا ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے،وہ بھارتی آئین پر صدق دل سے یقین نہیں رکھتے،ان کے نزدیک اس ملک کو ہندو راشٹر ہونا چاہئے اور یہاں منو اسمرتی کا قانون نافذ ہونا چاہئے۔یہی ان کا نصب العین ہے، اسی کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں، اس کے لیے انھوں نے ششومندر، ودھیا مندر، ڈی اے وی کالج کھولے، اسی کے لیے انھوں نے اخبارات و رسائل نکالے،اس مقصد کے لیے شاکھائیں لگائی گئیں،سینکڑوں سنگٹھن اور تنظیمیں بنائی گئیں، جن میں بعض تنظیمیں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ بھی دیتی ہیں۔ اپنے مقصد کوحاصل کرنے کے لیے انھوں نے سیاسی طور پر خود کو منظم اور مضبوط کیا۔ان کی سیاست بھائی بھتیجہ واد سے ہٹ کر اپنے مقصد کے حصول پر مرکوز رہی۔ باقی تمام سیاسی پارٹیاں بے مقصد محض وقتی فائدے کی خاطر سیاست کرنے لگیں۔ بعض سیاسی پارٹیوں کی اندرون خانہ انھوں نے سرپرستی کی اور بظاہر وہ ایک دوسرے سے لڑتے نظر آئے۔ اس ضمن میں دہلی کی عام آدمی پارٹی کا نام لیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب امت مسلمہ ہر دن نئے زخم کھاتی رہی، درد سے کراہتی رہی،تقسیم ہوتی رہی، اپنی قیادت کے بجائے کفار و مشرکین پر اعتبار کرتی رہی۔ہر الیکشن میں ان کو نیا مسیحا ملتا رہا اور نئے گھاؤ لگاتا رہا۔ آج اس کی یہ حالت ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی کوئی حیثیت نہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود، خدا کے پیغام کی امین اور اس کے محبوب کی امت، جس کے پاس اولیاء و ابدال کی بھی کوئی کمی نہیں، بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے۔ کیوں کہ وہ سیاسی طور پر منظم نہیں ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر امت مسلمہ کو خاص طور پر اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ آئین میں درج حقوق و اختیارات پر کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے، وہ کسی بھی لمحے ختم ہوسکتے ہیں اس لیے کہ اب یکساں سول کوڈ کی آڑ میں منو اسمرتی کو نافذ کرنے کا منصوبہ ہے۔ امت مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ کمزوروں کے لیے کوئی قانون مدد گار نہیں ہوتا۔ ملک کی پانچ ریاستوں میں اس کے پاس موقع ہے کہ وہ خود کو مضبوط کرے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے، اگر سیاسی طور پر طاقت حاصل ہوجائے گی تو آئین بھی محفوظ رہے گا اور امت مسلمہ بھی۔ اس موقع پر ملک کے حکمرانوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس صرف نعرہ لگادینے سے ہی نہیں ہوسکتا اس کے لیے ملک کے تمام باشندوں کو ترقی کے لیے یکساں مواقع دینا ہوں گے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com