مرکزی بجٹ 2022-23 اقلیتوں کے لیے مایوس کن رہا

فیاض احمد جامعہ ملیہ اسلامیہ
وزارت برائے اقلیتی امور (MoMA) اقلیتوں کے لیے ایک سالانہ بجٹ مختص کرتی ہے۔ موما (MoMA) کے سال 2021-22 بجٹ تخمینہ کے  4,810 کروڑ کو بڑھا  کر اس سال 2022-23  کے بجٹ تخمینہ میں 5020  کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح سال 22-2021 میں موما (MoMA) کیلئے جو 4810 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے اس میں محض 210  کروڑ کی زیادتی کی گئی ہے۔ جو کہ مجموعی تناسب کا صرف 4  فیصد ہی ہے حالانکہ وزارتیں عموماً ہر سال تقریباً 10  فیصد بجٹ اضافہ کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ وزارت برائے مالیات نے گزشتہ برس 2021-22  کے بجٹ تخمینہ 4810  کو بھی اسکے نظر ثانی شدہ بجٹ تخمینہ میں 476  کروڑ کی کٹوتی کر دی ہے۔ اس سال 2022-23  کے بجٹ تخمینہ میں حکومت نے جہاں اسکالرشپ اسکیموں میں 134  کروڑ کی زیادتی کی ہے وہیں مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن کے بجٹ کو بالکل ہی ختم کر دیا گیا، اسی طرح مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام، اسکل ڈیولپمنٹ ، نئ منزل، قومی وقف بورڈ اور ایس سی ایس ٹی و شیڈول کاسٹ ویلفیئر نیز سوشل سیکیورٹی ویلفیئر مد کے بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے جس کا مجموعی شمار 201.07  کروڑ ہے۔
سال 20-2019 میں موما (MoMA) نے 5,795.26 کروڑ روپئے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسکے لیے محض 4,700 کروڑ ہی مختص کیے گئے۔اس 4700 کروڑ مختص کیے گئے فنڈ میں سے بھی موما (MoMA) نے سال 19-2018 اور 2019 -20 میں مکمل فنڈ کو خرچ نہیں کیا باوجود اس کے کہ اقلیتی طبقہ تعلیمی اور معاشی محرومیوں کا شکار تھا۔ لہذا سال 19-2018 میں 1.8کروڑ روپئے وزارت کو واپس کر دیا گیا۔ اور اس طرح تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی سے متعلق اہم اسکیموں میں فنڈز کا کم استعمال کیا گیا تھا حالانکہ یہ اسکیمیں اقلیتوں کی ترقی کے لئے بہت ضروری تھا۔
اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ موما (MoMA) میں بجٹ کے لحاظ سے متعدد شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ جس چیز کو ترجیح دیا گیا ہے وہ ہے تعلیم کو فروغ دینا %50.27 اس میں اسکالرشپ اسکیمیں بھی شامل ہیں۔ نیز پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (PMJVK)  جیسے ترقیاتی پروگرام میں %30.28 ہے اسی طرح ترجیحات کے دیگر کام یہ ہیں : ہنرمندی  (%12) اسی طرح دیگر اداروں اور خصوصی ضروریات کے لئے %5.9 ۔
تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کے ساتھ بجٹ کو مختص کرنے میں بالکل ہی سوتیلا برتاؤ کیا ہے، اور جس طرح انہیں خاطر خواہ اہمیت دینے کی ضرورت تھی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ لہذا اس بجٹ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کرکے کم سے کم 10  ہزار کروڑ مختص کرے نیز 15  نکاتی پروگرام کی عمل درآمدگی کو مزید چست اور درست کرے ساتھ ہی 15  نکاتی پروگرام کے تحت ہونے والے بجٹ اور مستفیدین کے اعداد و شمار کو  برائے اقلیتی بہبود کی ویب سائٹ پر مہیا کراۓ، اور اگر ممکن ہو سکے تو 15  نکاتی پروگرام کے فنڈ کو بجٹ ہیڈ کے ذریعے صوبائی اور ضلعی حکومتوں تک بھیجا جائے جیسا کہ دلت اور آدیسیواسی بجٹ میں کیا جا رہا ہے
آزادی کے بعد اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے ترقی کے لیے کی گئی کوششیں کمزور رہی ہیں۔ اور یہ کمزوریاں کئی سطح پر دیکھنے میں آئ ہیں۔  ترقی کے لئے سرکاری پالیسیوں میں کمی، بجٹ مختص کرنے میں غیر برابری اور حکومت کی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوری۔ ۔ سال 07-2006 کے بعد مذہبی اقلیتوں کیلئے دو منصوبوں کو شروع کیا گیا ہے: (1) وزیر اعظم کا نیا 15 نکاتی پروگرام (PM’s New 15 Points program) اور (2) 90 اقلیتی اکثریتی اضلاع کیلئے ملٹی سکٹرال ڈیویلپمنٹ پروگرام (MSDP)۔ ان پروگراموں اور اسکیموں کا بنیادی طور پر مقصد تعلیمی اور معاشی میدانوں میں اقلیتوں کو با اختیار بنانا ہے نیز اُنکی عوامی خدمات تک رسائی، ساتھ-ساتھ ان کے علاقے کی ترقی کے پروگراموں پر عمل کیا جائے۔
اقلیتوں کی ترقی کے لیےMSDP  کا اہم رول مردو خواتین کی خواندگی کا بڑھانا، مردو خواتین کے کام میں شرکت کا اضافہ کرنا، رہائش اور پینے کا پانی اور بجلی کی فراہمی وغیرہ۔ اس پروگرام کا ایک اور مقصد ان اضلاع میں اقلیتوں کی ترقیاتی غیر برابری کو بھی دور کرنا تھا۔
وزیراعظم پندرہ(15) نکاتی پروگرام کا سال 2006 میں آغاز کیا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ جہاں بھی ممکن ہو سرکاری محکموں اور وزارتوں میں اقلیتوں کی ترقی کیلئے  15فیصد فنڈ کو مختص کیا جائے گا۔  اس پروگرام کا ہدف تھا کہ اقلیتوں کی تعلیمی فروغ، معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع میں مساوی حصہ داری ساتھ ہی ساتھ انکی زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کرنا تھا۔ مزید اس کے ذریعے مسلم اکثریتی علاقوں میں اردو میڈیم اسکول کھولنے اور تعلیم میں منصفانہ حصہ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے جیسے کہ انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (Integrated Child Development Services)،سروشکشا ابھیان (SSA) ، صنعتی تربیتی ادارے (( ITI کستوربا گاندھی بالکا ودیالیہ (KGBVs) اور مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام ۔
سال 2-2001 میں و (SSA) کے اہداف کی تکمیل کرتے ہوئے شروع کیا گیا تھا کہ ہر بچہ اسکول میں پڑھے اور بہتر تعلیم حاصل کریں۔ بچوں کا فری اور لازمی حق تعلیم (RTE) ایکٹ 2009 اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ 31 مارچ 2013 تک تمام محلوں علاقوں یا پڑوس کے علاقوں میں اسکولوں کو قائم کیا جائے۔ حالانکہ مشاہدہ اس بات کا رہا ہے کہ اس ضمن میں پیش رفت بہت ہی دھیمی رہی ہے۔
15 نکاتی پروگرام کے تحت اسکالرشپ اسکیم اور مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن(MAEF) بھی آتے ہیں جنکا مقصد اقلیتی برادریوں میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا ہے۔ وہ اسکیمیں اس طرح ہیں: پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ، انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میں تکنیکی اور پیشہ وارانہ کورسز کے طلبہ کے لئے میرٹ کم مینس اسکالرشپ، مسابقاتی  امتحانات کے لئے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیمیں، ایم فل ( M.Phil) اور پی ایچ ڈی (PhD) کرنے والے اقلیتی طلباء کے لئے مولانا آزاد نیشنل فیلوشیپ وغیرہ۔
ان تمام اسکالرشپ اسکیموں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں جو کچھ اس طرح ہیں: کہ طالب علم نے پچھلے فائنل امتحان میں پچاس(50) فیصد سے کم نمبر نہ حاصل کیا ہو، ایک ہی وقت میں ایک ہی خاندان کے دو سے زیادہ طالب علم کو اسکالرشپ نہیں دیا جائے گا۔ پری میڑک کے طلبہ کی سالانہ آمدنی ایک 1 لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے نیز پوسٹ میٹرک کے لئے دو 2لاکھ سے زیادہ آمدنی نہیں ہونی چاہیے ۔ میرٹ کم مینس کے لیے یہ حد 2.5 لاکھ روپئے ہے جبکہ مولانا آزاد فیلو شپ کے لیے یہی حد 4.5 لاکھ روپئے ہے۔
مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام کے دو اجزاء ہیں ایک یہ کہ مدارس میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کی اسکیم (Scheme To Provide Quality Education In Madrasas) اور دوسری اسکیم برائے انفرااسٹرکچرڈیولپمنٹ۔ مائنارٹی انسٹی ٹیوٹ (Scheme for Infrastructure Development in Minority Institutes)۔ SPQEM مدرسہ کے اساتذہ کو سائنس،ریاضی اور سماجی علوم جیسے  رسمی مضامین پڑھانے کے لئے مالی مدد فراہم کرتا ہے جبکہIDMI  کو نجی امداد یافتہ غیر امدادی اقلیتی اداروں میں انفراسٹکچر کو بڑھانے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔
اترپردیش اور بہار کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ مدارس کے لیے ایک مفید اسکیم ہے لیکن اس اسکیم کی بھاری مانگ کے سامنے بجٹ کی فراہمی ناکافی ہے۔ تقریبا 2 سالوں سے اساتذۂ مدارس کی تنخواہوں کے جاری ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کی سطح کو دیکھتے ہوئے حکومت کے ذریعہ اسکالرشپ اسکیموں میں پایا جانے والا فنڈ ابھی بھی ناکافی ہی  ہے۔ سال 21-2020 میں اسکالرشپ کے لیے کل 110 کروڑ طلباء نے اپلائ کیا تھا جس میں سے حکومت نے محض 58 لاکھ پری، پوسٹ اور میرٹ کم مینس اسکالرشپ کو منظوری دی اور اس طرح 52  لاکھ اسکالرشپ کو حکومت نے مسترد کر دیا۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسکالرشپ کی دستیابی نہایت ہی کم ہے، مسلم کمیونٹی کے محض 53  فیصد مندرج طلباء نے اسکالرشپ حاصل کیا. مزید یہ کہ پری میٹرک اسکالرشپ کے لئے بہت کم یونٹ لاگت( فیس کو) واپس دیا جاتا ہے جو کہ محض سالانہ ایک ہزار ہے۔مجموعی طور پر اقلیتی طلبہ کو دیا جانے والا وظیفہ کی تعداد ایس سی (SC) اور ایس ٹی (ST) کے امیدواروں سے بھی کم ہے۔ایم ایس ڈی پی (MSDP) کے تحت 15-2014 کیلئے 710 ایم سی بیز کے  لیے فی ضلع 1.61 کروڑ روپئے کے سالانہ مختص کیے گئے ہیں۔جب کہ یہ رقم ایک بلاک کے لئے ناکافی ہے۔
اسی طرح مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے سے بھی مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص رقم بہت ہی معمولی رہی ہے۔

اقلیتوں کی ترقیاتی اداروں میں حکومت قومی اقلیتی ترقیاتی مالیاتی کارپریشن (National Minorities Development Finance Corporation) ، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (Maulana Azad Education ،Foundation)  اور وقف بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اقلیتوں میں  پسماندہ طبقات کے اندر لون (Credit) تک رسائی کو فروغ دینے کیلئے قومی اقلیتی ترقیاتی مالیاتی کارپریشن (NMDFC) کو سال 1994 میں قائم کیا گیا تھا۔ (NMDFC) غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ اقلیتوں میں سے غریب ترین طبقات کو مائیکرو فائنانس کے ذریعہ تعلیمی قرضے فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ٹھیک اسی طرح اس کا کام یہ بھی ہے کہ اقلیتی برادری کے درمیان پیشہ وارانہ تربیتی پرگراموں کی سہولت فراہم کرے اور دستکاروں  کے ذریعے تیار کردہ اشیاء کیلئے بازاروں کا انتظام کرے۔NMDFC  مرکزی حکومت سے %65 ریاستی حکومت سے %26 اور منفرد  اشخاص /تنظیموں سے %9  کے سرمایہ میں سے اپنے حصے کا شیر حاصل کرتا ہے  15 Points   programmeان علاقوں میں بھی مزید بینکوں کے کھولنے پر توجہ کرتا ہے جو اقلیتی اکثریتی ہیں، نیز 2006 RBI کے ماسٹر سرکلر کے مطابق ترجیحی شعبے کے قرضے کے تحت اقلیتوں کو کل کریڈٹ کا %15 حصہ عطا کرتی ہے، لیکن ان اداروں سے اس وقت اقلیتی طبقات متعدد وجوہات کی بنا پر ان سے دی جانے والی خدمات سے استفادہ نہیں کر پا رہی ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com