اویسی پر قاتلانہ حملہ: مجرم کون؟

مجلس اتحاد المسلمین کے صدربیرسٹر اسدالدین اویسی گزشتہ جمعرات کو ایک قاتلانہ حملہ میں بال بال بچ گئے۔ وہ میرٹھ کے کٹھور اسمبلی حلقہ میں انتخابی مہم سے واپس آرہے تھے کہ ان پر ڈاسنہ کے قریب ٹول پلازہ پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ گولیاں ان کی گاڑی کے دروازوں پر لگیں اور ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔ ایک حملہ آور کو ان کے ساتھیوں نے موقع پر ہی دبوچ لیا جبکہ دوسرے کو پولیس نے بعد میں گرفتار کیا۔ حملہ آوروں کے نام سچن اور شوبھم بتائے جاتے ہیں۔ پولیس نے ان دونوں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ اویسی نے اس حملہ کو ایک بڑی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اس کی شکایت الیکشن کمیشن اور لوک سبھا اسپیکر سے بھی کی ہے۔ انھوں نے حکومت کی طرف سے دی گئی زیڈ پلس سیکورٹی لینے سے انکار کردیا ہے اور حملہ آوروں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں کہا کہ “اویسی کی جان اخلاق اور پہلو خان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ مجھے سیکورٹی نہیں چاہئے، آپ تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کیجئے۔ جولوگ مذہبی جنون پھیلاتے ہیں، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کیجئے، میں خودبخود محفوظ ہوجاؤں گا۔” یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انتہا پسندوں نے اویسی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے دہلی میں اشوکا روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر کئی بارحملے ہوچکے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے اراکین نے وہاں توڑ پھوڑ مچائی ہے اور سب کچھ تہس نہس کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اب تک پولیس نے قصورواروں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ پولیس کی اسی ڈھیل سے فائدہ اٹھاکر اب انتہا پسندوں نے اویسی کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ ہم آپ کو بتادیں کہ جس کوٹھی میں اسد الدین اویسی مقیم ہیں، اسی میں ان کے والد سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم بھی رہاکرتے تھے۔ اس کوٹھی کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ بابری مسجد بازیابی کی پوری تحریک یہیں سے چلی۔ یہ کل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا مرکزی دفتر تھا اور اس کی تمام میٹنگیں یہیں ہوتی تھیں۔

اسد الدین اویسی پر حملے کے بعد سب سے زیادہ تنقید اترپردیش میں نظم و نسق کی صورتحال پر ہوئی ہے۔ اویسی نے سوال کیا ہے کہ”اترپردیش میں قانون کی حکمرانی ہے یا لاقانونیت کا بول بالا ہے؟ اگر حکومت گن کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہے تو ملک میں قانون کا راج ختم ہوجائے گا۔ “اہم بات یہ ہے کہ اویسی اس حملے سے قطعی خوفزدہ نہیں ہیں اور نہ ہی انھوں نے یو پی میں انتخابی مہم سے ہاتھ کھینچے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ یوپی میں اپنی مہم جاری رکھیں گے اور جب تک زندہ ہیں، حق کی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اویسی پر قاتلانہ حملہ اسی اترپردیش میں ہوا ہے جہاں کے نظم و نسق پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بڑا ناز ہے۔ وہ خود ہی اپنی پیٹھ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ اب اتر پردیش غنڈوں اور موالیوں سے پاک ہوگیا ہے۔ حالانکہ جرائم پیشہ عناصر روز ہی امت شاہ اور یوگی کے اس بیان کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ نظم و نسق کے معاملہ میں اس سے بڑی چوک کیا ہوسکتی ہے کہ یوپی اور دہلی کی سرحد پر ایک ممبر پارلیمنٹ اور پارٹی سربراہ کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا جائے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب اسمبلی چناؤ کی وجہ سے امن و قانون کی مشنری ہائی الرٹ پر ہو۔

یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اسد الدین اویسی نے اترپردیش کے انتخابات میں 80 سے زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں اور وہ ان کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے رائے دہندگان سے رابطہ کررہے ہیں۔ مسلم حلقوں میں ان کی خاصی پذیرائی بھی ہورہی ہے۔وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہرجس انداز میں مسلم مسائل کو اٹھاتے ہیں، اس سے مسلم نوجوانوں میں ان کی قدر و قیمت سب سے زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان کے انتخابی پروگراموں میں امڈی ہوئی بھیڑ کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اویسی سے پریشانی لاحق ہے جو اب تک خود کو اترپردیش میں مسلم ووٹوں کا واحد ٹھیکیدار سمجھتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان پر سب سے بڑا الزام بی جے پی کی ‘بی ٹیم’ ہونے کا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی تقریروں اور گفتگو میں سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی نشانے پر لیتے ہیں۔ اسد الدین اویسی کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ نہ تو کسی قسم کا حفاظتی دستہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اورنہ ہی بلٹ پروف کار استعمال کرتے ہیں۔ وہ زندگی اور موت کا مالک اللہ کو سمجھتے ہیں۔جب ایک ٹی وی چینل نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ حملے کے وقت ڈر گئے تھے تو انھوں نے کہا کہ “نہیں میں نے کلمہ پڑھ لیا تھا کیونکہ مجھے ایسا لگا کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ “پہلی نظر میں ان پر کیا گیا قاتلانہ حملہ منافرانہ سیاست کا نتیجہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو اتر پردیش کئی برس سے فرقہ وارانہ سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے، لیکن جب سے وہاں اسمبلی الیکشن کا بگل بجا ہے، فرقہ واریت کی بہار آگئی ہے۔ بیرسٹر اویسی پر حملہ کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ اسی ڈاسنہ علاقہ میں کیا گیا ہے جہاں ڈاسنہ دیوی مندر ہے اور اس کا پجاری بدنام زمانہ یتی نرسنگھا نند ہے۔ یتی نے اس علاقہ کو مسلم دشمنی کا مرکز بنا رکھا ہے۔ پچھلے سال یہاں مندر میں پانی پینے آئے ایک مسلم نوجوان کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا اس کے بعد ہی یتی نرسنگھا نند سرخیوں میں آیا تھا۔ بعد کو اس نے باقاعدہ مسلم دشمنی کا کاروبار شروع کردیا۔ یتی نرسنگھا نند ہریدوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلان کے بعد سلاخوں کے پیچھے ہے۔ جن لوگو ں نے یتی نرسنگھا نند کے خلاف ہریدوار معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی ہے، ان میں مجلس اتحاد المسلمین کا بھی ایک کارکن شامل ہے۔

گرفتار حملہ آوروں میں ایک نوجوان سچن شرما کا تعلق گوتم بدھ نگر کے بادل پور گاؤں سے ہے۔ اسے اویسی کے ساتھیوں نے ہی پکڑکر پولیس کو سونپا تھا۔ حملہ میں استعمال کی گئی غیرلائسنسی پستول اور ایک سفید آلٹو کار بھی ضبط کی گئی ہے۔ دوسرے حملہ آور شوبھم کو سہارنپور سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سچن شرما کے فیس بک اکاؤنٹ میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ اس کی تصویریں ملی ہیں۔ اس نے یتی نرسنگھانند کا ایک اشتعال انگیز ویڈیو بھی شیئر کیا ہوا ہے۔ شرمانے اپنے فیس بک پیج پرجامعہ میں سی اے اے مخالف مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے رام بھکت گوپال کے ساتھ بھی اظہار یگانگت کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ڈانڈے کہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ اگر پولیس غیر جانبداری اور کسی دباؤ کے بغیر تحقیقات کرے تو وہ اصل مجرموں تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر پولیس نے تحقیقات شروع ہونے سے پہلے جو کچھ کہا ہے، وہ اس کی تحقیقات کا رخ طے کرتا ہے۔ پولیس افسران نے حملہ آور سچن شرما سے ابتدائی پوچھ تاچھ کی بنیاد پر کہا ہے کہ وہ دراصل اویسی کی تقریروں سے ناراض تھا۔ اس معاملے میں خود اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ اگر وہ غیرقانونی تقریر یں کرتے ہیں تو پولیس نے اب تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی ہے۔ انھوں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کام آخری دم تک کرتے رہیں گے۔ اگر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا کوئی جرم ہے تو وہ اس جرم کو بار بار دہرائیں گے۔ بہرحال اسد الدین اویسی پر اس بزدلانہ حملے نے اتنا تو ثابت کرہی دیا ہے کہ اترپردیش میں امن و قانون کی مشنری پوری طرح مفلوج ہے اور الیکشن کے موقع پر بھی وہ صرف حکمراں جماعت کے مفادات پورے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com