وادی سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کی نئی تنظیم کا قیام مسئلہ کشمیر کے حل کو ہندو پاک تعلقات کے تناظر سے الگ کرنے کی ضرورت : کے وی آئی

لندن سے محمد غزالی خان کی رپورٹ 

لندن: ( ملت ٹائمز) وادی سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں نے کل یہاں ایک نئی تنظیم کشمیر وائس انٹر نیشنل (کے وی آئی) کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ 
لندن یونیورسٹی کے بربیک کالج کے ایک ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کے وی آئی کے صدر پروفیسر ایم عبداللہ رینا نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1947 میں جب پورے خطے میں آگ لگی ہوئی تھی کشمیر اس وقت بھی پر امن رہا جسے دیکھ کر گاندھی جی نے کہا تھا کہ کشمیر امید کی آخری کرن ہے۔انھوں نے کہا کہ 1947 کشمیریوں کے لئے ایسا منحوص سال تھا جس میں ہندوستان اور پاکستان کو آزادی اور کشمیر، جو ایک خود مختار ریاست تھی، کو غلامی نصیب ہوئی۔
پروفیسر رینا ریٹائرڈ ماہر تعلیم ہیں اور انھوں نے کئی برس کشمیر اور برطانیہ میں درس و تدریس کے میدان میں کام کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ وہ کشمیر کے مختلف ادوار کے عینی شاہد ہیں اور ماضی اور حال کی بہت سی سرکردہ سیاسی شخصیات سے ان کو قربت حاصل رہی ہے۔
پروفیسر صاحب نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان اور پاکستان میں چند عناصر کی وہ سوچ اور ایک دوسرے کے تئیں وہ نفرت اور شبہ ہے جس کا تعلق تقسیم ہند کے ان حالات سے ہے جن کا اثر کسی طرح ختم نہیں ہو پا رہاہے۔ انھوں نے کہا کہ کے وی آئی مسئلہ کشمیر کیے حل کو ہندو پاک تعلقات کے پس منظر سے الگ کرنے کی کوشش کرے گی۔ 
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ بہت سے نامور غیر مسلم کشمیری کے وی آئی سے منسلک ہیں جن کے ناموں کا اعلان بعد میں کسی وقت کیا جائے گا۔ 
کے وی آئی کے طریقہ کار کے بارے میں پروفیسر رینا نے بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان کے سیاست دانوں ، کشمیریوں، بالخصوص وادی کے رہائشیوں، کے ساتھ بات چیت کی جائے گی اور کشمیریوں کے جزبات کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے گا۔
پروفیسر رینا نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاک و ہند تعلقات میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پورا خطہ اس کے ثمرات سے مستفید ہوگا۔
کشمیر میں مسلسل حالات کی خرابی پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا ، ’’ریاست کی سیاسی حیثیت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا وعدہ وفا نہیں کیا گیا۔ مسئلے کے حل کے تین انتخابات کو کم کر کے دو تک محدود کر دیا گیا اور بعد میں مسئلے کی بین الاقوامی حیثیت کو کم کر کے اسے دو طرفہ معاملہ قرار دے دیا گیا۔‘‘ 
موجودہ حالات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے پروفیسر رینا نے کہا، ’’حال میں حالات نے ایک نیا رخ اختیارکر لیا ہے۔ پیلٹ گنز کے ذریعے اسکولی بچوں سمیت لوگوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیا، ہزاروں لوگوں کو زخمی کر دیا گیا اور جیلوں میں ڈال دیا گیا۔‘‘
پروفیسر صاحب نے مزید کہا ، ’’ہمارے لوگوں نے کئی دہائیوں تک اقوام متحدہ کی تجاویز کے نفاذ کا انتظار کیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، ہندوستان کے آئین کے تحت دی گئی ضمانتیں ختم کر دی گئیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ الحاق کا مطلب ضم کیا جانا نہیں ہوتا۔ کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی اور دھوکے بازی کی گئی اورمایوسی میں مبتلا کر دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلا کیونکہ کوئی بھی اپنے موقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں ہے۔ اور اس سخت گیر رویے کا خمیازہ کشمیریوں کی تین نسلوں کو بھگتنا پڑا ہے۔‘‘
رینا صاحب نے یہ بھی کہا کہ نوجوانوں کی جانب سے نظر آنے والی جارحیت یا شدت پسندی ریاست میں فوج اور انسانی حقوق کی پامالی کا رد عمل میں ہے ورنہ کشمیری عوام طبیعتاً پر امن اور سمجھدار ہیں۔ 
انہوں نے آٹھ نکات یر مبنی ایک فہرست دی جن پر کے وی آئی کام کرے اور جس میں غیر انسانی قوانین کے ہٹائے جانے کی مانگ، قائدین کی سیاسی آزادی اور نظر بندی کا ہٹایا جانا، ایسے ماحول کی فراہمی جس میں پر امن مظاہرے کئے جا سکیں، مذہبی سرگرمیوں پر سے فوری پابندی کے اٹھائے جانے اور انسانی حقوق کی پامالی پر روک لگائے جانے اور مجرموں کو قانو کے کٹہرے میں لانے کے مطالبات شامل ہیں۔
کے وی آئی کے نائب صدر ارشاد ملک، جو پیشے سے وکیل ہیں، اور سکیریٹری جاوید ککرو ، پیشے سے استاد، نے بھی پریس کانفرینس سے خطاب کیا۔
کے وی آئی کی مجلس عاملہ کے دوسرے ارکان میں محمد سلیم (وکیل)، ایم عبداللہ (عالم دین)، الفت ذرغر ( سول سروینٹ)، غلام نبی فلاحی (سول سروینٹ اور عالم دین) اور پروفیسر شاہد اقبال شامل ہیں۔