نئی دہلی: (پریس ریلیز) سابق نائب صدر حامدانصاری نے اردو پڑھنے اوربولنے والوں کی تعداد میں ہورہی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں اردو صحافت کے دو سوسالہ جشن کی پروقار تقریب میں انھوں نے کہا کہ اردو پڑھنے والے بچوں کے لئے اسکولوں اساتذہ نہیں رکھے جارہے ہیں جس کی وجہ سے جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہیں۔افتتاحی پروگرام کی نظامت بذات خود تقریب کے کنوینر سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے کی۔اس موقع پراردو صحافت کی دوسو سالہ تاریخ پر مشتمل ایک دل پذیر دستاویز ی فلم بھی دکھائی گئی۔اس پروگرام میں 80 سال سے زائد عمر کے بزرگ صحافیوں کوان کے کارہائے نمایاں کیلئے’کارنامہ حیات‘ایوارڈ سے بھی سرفراز کیاگیا۔یہ اعزازات اردو صحافت کو وجود بخشنے والے صحافیوں مولوی محمد باقر،پنڈت ہری ہردت،منشی نول کشو،مولانا ابوالکلام آزاد،حسرت موہانی،مولانا محمد علی جوہر،ظفر علی خان،مولانا عبدالماجد دریابادی،محمد عثمان فارقلیط،عبدالوحید صدیقی،حیات اللہ انصاری،جی ڈی چندن اور نشتر خانقاہی سے منسوب تھے۔تقریب میں ایک یادگاری مجلہ کااجراءبھی عمل میں آیا۔ اس موقع پر ہندسماچار گروپ کو ہند سماچار اور دینک جاگرن کو روزنامہ انقلاب کی اشاعت کیلئے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔اس موقع پر جن بزرگ صحافیوں کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ان میں احمدسعید ملیح آبادی، حسن کمال ، محمدوسیم الحق،احمدابراہیم علوی، عارف عزیز،اختریونس قدوائی، مودودصدیقی، اختریونس قدوائی، ایس ایم اشرف فریداور سہیل وحید کے نام شامل ہیں۔افتتاحی کلمات میں پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اردو زبان اور صحافت کے فروغ پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر سید فاروق نے بھی مختصر اظہار خیال کیا۔
تقریب کے مہمان ذی وقار کانگریس کے سینئررہنما اور راجیہ سبھا میں سابق اپوزیشن غلام نبی آزاد نے کہا کہ مولوی محمد باقر پہلے ایسے صحافی تھے جنہیں توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کی ایک وسیع تاریخ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرور ت ہے۔انہوں نے کہا کہ گرچہ اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کو قرار دیا جاتا ہے جس کی اشاعت 1823ءمیں کولکاتہ میں ہری ہر دت نے کی تھی لیکن اس کی تاریخ اس سے بھی قبل کی ہے۔1794 میں ٹیپو سلطان نے’ فوجی اخبار‘ نکالا تھا جس کیلئے انہوں نے اس وقت پرنٹنگ پریس کو بھی لگوایا۔اسی طرح 1910ء میں ’اسلامک فٹرنیٹی‘ کے نام سے بھی اخبار نکلا جواس وقت جاپان،برما،سنگاپور اور دیگر ممالک میں پڑھاجاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ اردو اگر ایک زبان کے طور پر سکڑ رہی ہے تو اس میں ہماری کوتاہیاں بھی شامل ہیں۔جنوبی ہندوستان میں لوگ آج بھی مقامی زبان کے اخبار پڑھتےاور ٹیلی ویڑن دیکھتے ہیں۔محض چند فیصد ایسے افراد ہوں گے جو انگریزی یا دیگر زبان میں اخبار پڑھتے ہوں گے یا چینل دیکھتے ہوں گے۔انہوں نے تقریباً 27سال قبل شہری ہوابازی کے مرکزی وزیر کے طور پر اردو اخبارات کیلئے 10فیصد اشتہارکا کوٹہ مقرر کرنے کا بھی ذکر کیا۔
مہمان خصوصی اور سابق نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری نے کہا کہ اردو صرف ہندوستان یا بر صغیر کی زبان نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی زبان ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر 10سالہ مردم شماری سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہورہاہے لیکن اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوپارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے متعددبات کہا کہ اردو ہماری زبان ہے،لیکن اس کے فروغ کیلئے خود اردو زبان بولنے والوں کو ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ آسٹریلیا سے امریکہ تک بیرون ممالک میں اردو لکھی اور پڑھی جارہی ہے۔انہوں نے اسکولوں میں اردو کی تعلیم پر بھی زور دیا۔سابق نائب صدر نے کہا کہ اردوایک زندہ زبان ہے اور وہ زندہ رہے گی ،لیکن ہمیں اپنے فرض پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔انہوں نے ریختہ کے بانی سنجیو صراف کی کاوشوں کو بھی سراہا۔انہوں نے اردو صحافت کی دو سوسالہ جشن کی تقریب کے کنوینر سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کوانتہائی کامیاب پروگرام منعقد کرنے کے لیے مبارکباد پیش کی ہے۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت ہندسماچار گروپ کے ایڈیٹر وجے چوپڑہ کو کرنی تھی ،تاہم خرابی صحت کے باعث ان کی عدم موجودگی میں کانگریس کے سینئر رہنما وقومی ترجمان وسابق ممبر پارلیمنٹ م۔ افضل نے کی۔انہوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا ہے اردو اخبار نکالنا اپنے آپ میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعدصرف 70اخبارات پاکستان گئے جبکہ 470اخبارات ہندوستان میں رہ گئے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اردوصحافت کا 80فیصد ووٹ ہندوستان کے ساتھ رہا،صرف 20 فیصد ووٹ پاکستان کے ساتھ گیا۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان بنانے کی کوششوں میں کچھ ہمارے اپنے لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد اردو کے ساتھ جو انصافیاں ہوئی ہیں ،وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔انہوں نے کہا ” غلام نبی آزاد 40سال سے اس بات کے گواہ ہیں کہ اردو کے صحافی کے طور پر میں نے اس زبان کیلئے کس طرح سے جد وجہد کی۔“ انہوں نے کہا کہ اردو کے محبین کی کمی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اردو سے محبت رکھنے والے لوگوں کو اس زبان سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ اس تقریب میں متعدد اردو صحافیوں کو ان کی خدمات کیلئے مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔
پروگرام کے دوسرے حصہ میں اردو صحافت کا محاسبہ اور اس کو درپیش چیلنج پر بھی جامع گفتگو کی گئی۔اس کی نظامت سینئر صحافی سہیل انجم نے کی۔پروفیسر شافع قدوائی ،صدر شعبہ صحافت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔سینئر صحافی وبراڈ کاسٹر قربان علی نے اردو زبان وصحافت کی بقا کیلئے اس کو روزگار سے جوڑنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسی تقریب میں متواتر اسی طرح کی باتیں سنتے آئے ہیں ،لیکن اس کیلئے عملی اقدام کرنا ہوگا۔ہندوستان ممبئی کے ایڈیٹر سرفراز آرزو نے اردو اخبارات کو ڈیجیٹل کی طرف لے جانے کا مشورہ دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس سلسلہ میں کوشش کریں تو اردو اخبارات مالی وسائل کی کمی سے باہر نکل آئیں گے۔دہلی یونین آف جرنلسٹ کےاشوک پانڈے نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سینئر صحافی اسد مرزا نے اردو زبان وصحافت کی ترویج کیلئے عملی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گرچہ جنوبی ہندوستان اور مغربی بنگال میں اردو اخبارات کو تجارتوں سے اشتہارات ملتے ہیں لیکن شمالی ہندوستان میں اس کا فقدان ہے۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اپنے خطبہ میں اردو کی زبوں حالی پرافسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ مسلمان جس چیز کو بچانے پر آجائیں تو اس کو کسی بھی قیمت پر بچالیتے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو بازار میں آج تکہ اور کباب کی دکانیں بے شمار ہیں لیکن اردو زبان کی حالت خستہ ہے۔ہماری قوم کا ذہن کی خوراک سے پیٹ کی خوراک تک کا سفر کباب اور تکہ پر ختم ہوتا ہے۔صدارتی خطاب میں روزنامہ آگ کے سابق مدیر احمد ابراہیم علوی نے اردو زبان وصحافت کے بارے میں مقررین کے خیالات سے اتفاق کیا اور کہا ہے کہ ہمیں پہلے اپنے گھر سے ہی اردو شروع کرنی چاہئے۔ کنوینر اور سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کے شکریہ کے کلمات پرتقریب کا اختتام عمل میں آیا۔