گیان واپی مسجد کے نیچے کیا ہے؟

معصوم مرادآبادی

تاج محل کے نیچے مندر تلاش کرنے والوں کو الہ آباد ہائی کورٹ نے آئینہ دکھاکر یہ تو ثابت کرہی دیا ہے کہ اس ملک میں ساون کے اندھوں کے لیے سب کچھ ہرا ہرا نہیں ہے بلکہ اس ملک میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاہ اور سفید میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ لیکن اس دوران بنارس کی ایک عدالت کے حکم پر تاریخی گیان واپی مسجد کی ویڈیو گرافی اور معائنہ کرانے کے حکم نے تشویش کی کچھ لہریں ضرور پیدا کردی ہیں، کیونکہ یہ عمل عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون مجریہ 1991 کے خلاف ہے بلکہ اس عمل سے کشیدگی میں اضافہ کے سوا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ عدالت نے مسلم فریق کے اعتراضات کو ٹھکراکر ویڈیو گرافی جاری رکھنے کا حکم سنایا ہے جس سے فسطائی خیموں میں جشن کا ماحول ہے اور وہ اس تاریخی مسجد کا انجام بھی وہی سوچ رہے ہیں جو بابری مسجد کا ہوا تھا۔گیان واپی مسجد پر تنازعہ کھڑا کرنے والے عناصر بھی وہی ہیں جنھوں نے 90 کی دہائی میں رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کرکے ملک میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا تھا۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور کساد بازاری اپنے عروج پر ہے اور لوگ حکومت سے اپنے بنیادی مسائل پر تیکھے سوال پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان تلخ سوالوں کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انھیں دھرم کی افیم چٹارہی ہے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہرروز ایک گڑھا ہوا مردہ اکھاڑا جارہا ہے اور ملک کا ماحول پراگندہ کیا جارہا ہے۔

کچھ لوگ ایک بیمار ذہن شخص پی این اوک کی ایک کتاب کہیں سے اٹھا لائے ہیں اور اس کے مطابق تاریخی حقائق کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پی این اوک آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آتما ان فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کے وجود میں سرایت کرگئی ہے جو اس وقت ملک میں پوری شدت کے ساتھ سرگرم ہیں اور جن کا ہرقدم اس ملک سے اسلامی تہذیب اور ثقافت کو مٹانے کی طرف اٹھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دورحکومت کی تعمیرشدہ ہرعمارت کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم شباب پر ہے۔ اپنی اس شرانگیز مہم کو پروان چڑھانے کے لیے یہ عناصر عدالتوں کا سہارا لے رہے اور عدالتیں بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کام میں شامل ہوگئی ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں شرنگارگوری مندر کی باقیات تلاش کرنے کے لیے ویڈیو گرافی کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حالانکہ عدالت کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عرضی کو پہلے ہی مرحلہ میں خارج کردینا چاہئے تھا۔

اس کے ساتھ ہی متھرا کی شاہی عیدگاہ کو ہٹاکر اس کی اراضی شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے کا جو مطالبہ کیا گیا ہے، اس پر بھی عدالت میں سماعت جاری ہے۔ اس دوران راجدھانی دہلی میں قطب مینار کے باہر ہنومان چالیسا پڑھ کر وہاں مندر تعمیر کرنے کی مہم چھیڑی گئی ہے۔ یونائٹیڈ ہندو فرنٹ اور راشٹروادی ہندو سینا کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ قطب مینار اصل میں وشنو مندر ہے، لہٰذا اس کا نام ’وشنو استمبھ‘ رکھ دیا جانا چاہئے۔آٹھ سو سالہ قدیم قطب مینار کویونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے اور یہ بھی تاج محل کی طرح دنیا کے عجائبات میں شامل ہے۔لیکن شرپسندوں کی اس پر بھی بری نگاہ ہے۔ اس سے قبل بی جے پی کے مطالبہ پر دہلی کے ایک قدیم گاؤں محمدپور کا نام تبدیل کرکے مادھوپورکردیا گیا ہے۔ دہلی پردیش بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے دہلی کے ایسے چالیس گاؤوں کا نام بدلنے کی سفارش میونسپل کارپوریشن کو بھیجی ہے جو مسلم ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔غرض کہ مسلم حکمرانوں کی تعمیر کی ہوئی ہر عمارت کو نیست و نابود کرنے اور ان کی بسائی ہوئی بستیوں کے نام مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔یہ ان لوگوں کا طرزعمل ہے جن کے پاس تہذیب و ثقافت کے نام پر دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ دنیا میں آج ہندوستان کی جو کچھ بھی تہذیبی اور تمدنی حیثیت ہے وہ مسلم دورحکومت کی شاندار عمارتوں کی وجہ سے ہی ہے۔اس ملک کو درحقیقت ہمارے بزرگوں نے ہی بنایا تھا اور یہاں کی قوموں کو تہذیب وتمدن ان ہی نے سکھایا۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں تہذیب ومعاشرت نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ اس لیے اس ملک کے ساتھ مسلمانوں کا جو جذباتی تعلق ہے وہ کسی اور کا ہوہی نہیں سکتا۔

گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف بھی ایسی ہی شرانگیزیوں کا آغاز ہوچکا ہے جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔ جس وقت بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کی تحریک چل رہی تھی تو اسی وقت یہ نعرہ اچھالا گیا تھا کہ ”یہ تو ایک جھانکی ہے، کاشی،متھرا باقی ہے۔“ لیکن کچھ لوگوں کو یہ اطمینان تھا کہ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے دئیے جانے کے بعد ملک میں مندر مسجد کی سیاست ختم ہوجائے گی، لیکن یہ محض ان کی خام خیالی تھی۔ بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو جو ’فتح‘ ملی ہے اس سے وہ اتنے اتاولے ہوگئے ہیں کہ انھوں نے ہر مسجد کا انجام یہی سوچ لیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف نئی اور زیادہ خطرناک مہم چھیڑدی گئی ہے۔

سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین نے سول جج روی کمار دواکر میں عرضی داخل کرکے اپیل کی ہے کہ انھیں ’شرنگارگوری مندر‘ میں روزانہ پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ شرنگار گوری کی دیوار مسجد کی دیوار سے متصل ہے۔ احتیاطی تدبیر کے طورپر اس میں تالا لگا ہوا اور اسے محض نوراتروں کے دوران کھولا جاتا ہے۔ خود مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شرنگار گوری کے کھلنے سے نظم و نسق کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے مگر عدالت نے اس پہلو کو نظرانداز کرکے نہ جانے کیوں اس مقام کی ویڈیو گرافی کے احکامات جاری کردئیے، جس کے نتیجے میں خاصی کشیدگی پھیل گئی اور امن و امان کے غارت ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیاہے۔واضح رہے کہ بابری مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے بھی شروع میں اسی قسم کی شرانگیزیاں کی گئی تھیں۔ آج ایک بار پھر ملک میں ایسے ہی حالات پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے اور وہ بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور کساد بازاری پر کوئی سوال نہ کھڑا کرسکیں۔

 دوسری طرف متھرا کی شاہی عید گاہ پر بھی شرپسندوں کی بری نظریں ہیں اور وہ اس سمجھوتے کو رد کرانے کی کوششیں کررہے ہیں جو برسوں پہلے قیام امن کے لیے شری کرشن جنم استھان سیوا سمیتی اور شاہی عیدگاہ انتظامیہ کمیٹی کے درمیان ہوا تھا۔ اس سمجھوتے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی ایک وکیل رنجنا اگنی ہوتری سمیت چھ کرشن بھکتوں نے عدالت میں کہا ہے کہ متعلقہ سمجھوتہ اور اس سلسلے میں عدالت کی طرف سے دی گئی ڈگری پوری طرح غیرقانونی ہے کیونکہ مذکورہ کمیٹیوں کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں تھا، لہٰذا اسے مسترد کرکے شاہی عیدگاہ کو اس کی زمین سے ہٹا دیا جائے اور مذکورہ پوری زمین اس کے حقیقی مالک شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو دے دی جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ اب تک دو عدالتوں سے خارج ہوچکا ہے، لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں ضلع جج کی ہی عدالت میں ازسرنو عرضی دائر کی گئی ہے جس پر سماعت مکمل ہوچکی ہے اور عدالت نے فیصلہ 19 مئی تک کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1991میں جب یہ قانون بن چکاہے کہ1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی اور اس میں کسی کو کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ کا حق نہیں ہوگا تو پھر کیوں اس قسم کے مسائل بار بار اٹھائے جارہے ہیں۔لیکن جاننے والے یہ بات بھی جانتے ہوں گے کہ شرپسندوں نے اپنی مہم شروع کرنے سے پہلے اس قانون کو ہی چیلنج کردیا تھا اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ یہ تمام شرانگیزیاں دراصل اقتدار کے گھمنڈ میں چور شرپسندوں کی طرف سے اس لیے کی جارہی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو نیچا دکھائیں اور انھیں ردعمل پر مجبور کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ گیان واپی مسجد کے معاملے میں وہ بابری مسجد والی غلطیاں نہ دہرائیں اور اپنے جذبات کو ہرممکن قابو میں رکھیں تاکہ شرپسندوں کے منصوبے ناکام ہوں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com