موجودہ حالات میں ملت کے لیے لائحہ عمل

مولانا انیس الرحمن قاسمی 

موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوچندچیزوں میں خاص طورپربے خوفی کے ساتھ کام کرتے ہوئے صبرواستقامت کاثبوت دیناچاہیے اور مقاصد کو ہمیشہ نگاہوں میں رکھنا چاہیے:

مقاصد

 اس وقت ملک میں سیاسی، سماجی اور مذہبی بنیادوں پرمنافرت اور تفریق کی فضا سنگین نوعیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

اس لیے صبرواستقامت اورحکمت ودانشمندی کے ساتھ ملکی آئین اور مشترکہ انسانی اقدار کی بنیاد پر اتحاد و اتفاق کی فضا ہموار کرنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہماری اولین ذمہ داری بن جاتی ہے، اس لئے اسے ایک مشن وتحریک کے طور پرعلمی وعملی دونوں محاذوں پر مضبوطی کے ساتھ کام کیا جائے۔

 اللہ تعالیٰ شانہ نے انسان کوقابل تکریم بنایاہے اوراس کی جان ومال،عزت وآبرو،عقل اورنسل ومذہب کے تحفظ کاحق دیاہے، انسانوں کی فطرت میں اخوت وبھائی چارگی ہے،اس لیے موجودہ حالات میں اس کی ضرورت ہے کہ ان امورپرتوجہ دیں:

(۱) انسانوں میں باہمی اخوت وبھائی چارہ اوراحترام وتعاون کاماحول بنایاجائے اور ایک دوسرے کی تحقیروتوہین سے پرہیز کیا جائے۔

(۲) ہرشخص کواپنے مذہب پرچلنے کاحق ہے،اس لیے معاشرے میں مذہب کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کی توہین وتحقیرنہ کی جائے،بلکہ ایساماحول قائم ہوکہ  ہرشخص اپنے مذہب پرعمل کرتے ہوئے کسی دوسرے کے مذہب میں دخل نہ دے اورنہ ہی مذہبی شخصیات اور معبودوں کو برا کہے۔

(۳) قدرِ مشترک کے طورپرانسانی جان،مال،عزت وآبرو،مذہب اوربنیادی حقوق کی حفاظت اورہرمذہب کے بچوں،جوانوں،بوڑھوں اورخواتین کے ساتھ احترام وہمدردی کایکساں رویہ رکھاجائے۔

(۴) نسل انسانی کی حفاظت،نشوونمااورترقی کے ساتھ معاشرتی خرابیوں کی اصلاح کاکام باہمی تعاون سے کیاجائے۔

(۵) ملکی ترقی،وطن کی محبت اورخدمت خلق کوخصوصی اہمیت دیں۔

طریقۂ  کار

 مذکورہ مقاصدکوحاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں۔

 مذہبی رہنماؤں سے ملاقات اور اشتراک عمل

 مذہبی رہنماؤں سے بڑے پیمانے پر تعلقات استوارکیے جائیں اور مضبوط علمی و عملی اشتراک کے ذریعے مختلف ایشوز پر ہمہ جہت انداز میں کام کیا جائے۔

تمام مذاہب بالخصوص ہندو مذہب کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتوں اور نشستوں میں مذہبی بنیادوں پر نفرت و تفریق کی فضا کو ختم کرنے، رواداری کو فروغ دینے اور برادرانہ جذبات کو قائم کرنے میں ان کے اہم رول کی انہیں یاد دہانی کرائی جائے اور ان کے ساتھ مشترکہ طورپر احترام انسانیت اورباہمی رواداری اور سب کے لیے انسانی حقوق کویقینی طورپرحاصل کرنے کے لیے کے کام کیا جائے۔

بین المذاہب سمینارکیاجائے اورآن لائن وآف لائن میٹنگ کی جائے۔

نیز اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں آئے دن جو غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، ان کی حقیقت واضح کرنے کے لئے ان کے درمیان چھوٹے بڑے جلسے منعقد کیے جائیں، ساتھ ہی اسلام کا بنیادی تعارف اور ہندوستان میں مسلمانوں کی روشن تاریخ کے کچھ اہم ابواب پیش کئے جائیں۔

سیاسی افراد سے ملاقات

صدر، وزیراعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ اور دیگر وزراء کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور منصوبہ ساز افراد سے ملاقات کی جائے اوران سے یہ اپیل کی جائے کہ وہ باہمی اتحاد و احترام انسانیت کے موضوع کو عوام میں زیر بحث لائیں اوراتحادواحترام انسانیت کوفروغ دیں،پارلیمنٹ و اسمبلی یااس سے باہر اپنی تقریروں میں اس کو عنوان بنائیں اور اپنے سیاسی منشور میں اس مقصد کو زیادہ واضح انداز میں شامل کریں۔

سماجی وعدالتی شخصیات سے ملاقات واشتراک عمل

جج، وکلاء، ہیومن رائٹس اکٹوسٹس اور صحافیوں، ادیبوں وشاعروں سے بڑے پیمانے پر ملاقات کی جائے، ان کی تنظیموں سے رابطے استوار کئے جائیں اوران کے ساتھ مل کراس موضوع پر سمینارو سمپوزیم منعقد کئے جائیں؛ تاکہ وہ نفرت کے خلاف ایک مضبوط آواز بنیں اور ہم آہنگی و خیرسگالی کے فروغ کے لئے دن رات کوشاں ہوں۔

دلت اور بہوجن سماج کے رہنماؤں سے ملاقات اور اشتراک عمل

 سماجی طور پر دلت طبقہ نفرت کا نشانہ بنتاہے،اس لیے ان کے ساتھ باہمی تعاون و اشتراک کے ساتھ کام کرنے کے لیے چھوٹے بڑے پلیٹ فارمز کا قیام عمل میں لانے اور پہلے سے قائم شدہ پلیٹ فارمز کوفعال بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔

حکومتی اداروں اور پرائیوٹ تنظیموں سے رابطہ

ملک کی ترقی کے لیے باہمی رواداری، احترام اور انسانی حقوق کی حفاظت جیسے مقاصد کے لئے قائم شدہ سرکاری اداروں جیسے ہیومن رائٹس کمیشن، اقلیتی کمیشن اورخواتین کمیشن وغیرہ کے ذمہ داروں سے ملاقات کی جائے اوران کو اس مقصد میں ساتھ لیاجائے، ساتھ ہی مختلف مذاہب کی  پرائیوٹ تنظیموں، این جی اوز اور اداروں سے اشتراک عمل کیا جائے اور مشترکہ پلیٹ فارمز کے قیام اور ان کے فعال استعمال کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔

تعلیمی ادارے

اساتذہ سے مل کر یہ اپیل کی جائے کہ وہ کلاس رومز میں بھی اور درس گاہوں سے باہر بھی ہر ممکن سطح پر طلبہ میں اس تعلق سے بیداری پیدا کریں اور تدریس کے مضامین میں اس کو مختلف حوالوں سے موضوع گفتگو بنائیں۔

طلبہ کوترغیب دیں کہ؛طلبا تنظیموں اور ادبی حلقوں میں اس موضوع پر سمپوزیم اور سیمینارز منعقد کریں۔

مختلف سرکاری وغیرسرکاری تعلیمی بورڈ،مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، سی بی ایس سی بورڈ، یونیورسٹی کے وی سی اورچھوٹے بڑے اداروں کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے اس طرف متوجہ کیاجائے،وہ پنے نظام اورنصاب تعلیم میں رواداری انسانی اتحاد،باہمی احترام اورحقوق انسانی کوداخل کریں اوران موضوعات پر برابر چھوٹے بڑے پروگرام منعقدکیے جائیں۔

نوجوانوں سے رابطہ

مذہبی و عصری تعلیم یافتہ نوجوان اسکالرز میں حالات حاضرہ اور ان کے پیچھے کارفرما سیاسی، سماجی و مذہبی عوامل و محرکات کی سمجھ پیدا کرنے کیلئے مختلف ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے، ساتھ ہی چھوٹے بڑے مدارس اور عصری اداروں سے تعلقات قائم کرکے اساتذہ اور طلباکے اشتراک سے ان موضوعات پر لیکچرز، ورک شاپس اور پروگرامز منعقد کئے جائیں جن میں انسانی محبت، ہمدردی، احترام،آپسی اتحاد اور انسانی حقوق جیسے مسائل زیربحث لائے جائیں اورنفرت وعصبیت کے نقصانات کواجاگرکیاجائے۔

ائمہ و اساتذۂ مدارس

مساجدومدارس تعلیم وعبادت کے مرکز ہیں، لہذا ائمہ کرام واساتذہ مدارس احترام انسانیت اور خدمت خلق کوتحریک کی شکل دیں اور خود بھی عملی طور پر انجام دیں، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، مریضوں کی عیادت،بچوں پر شفقت، خواتین وبوڑھوں کا اکرام، نوجوانوں کی ہمت افزائی کو فروغ دیں، ان کو اس کام کے لیے مرکز بنائیں، مختلف مذاہب اور مقامی ذمہ دار افراد کو مدارس میں بلائیں اور انسانیت و ملکی ترقی کے موضوع پر بات کریں۔

خواتین کے ذریعہ اصلاح

  تربیت اور ذہن سازی میں خواتین کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے، اس لئے اس مشن میں خواتین کو بھی فعال رول ادا کرنے کے لیے تیار کیا جائے اور اس مقصد کے لیے خواتین کی انجمنوں اور اداروں سے مل کر ورک شاپس منعقد کئے جائیں اور خواتین کے خصوصی ونگز بنائے جائیں۔

عوامی ملاقاتوں کاسلسلہ

آپسی دوریوں اورغلط فہمیوں کوختم کرنے اور تمام باشندگان وطن کے مابین برادرانہ جذبات کومستحکم کرنے کے لیے عوام سے ملاقاتوں کاسلسلہ شروع کیا جائے اور مزدوروں،کسانوں اور نوکری پیشہ افراد اور ان کے یونین کے سربراہوں سے خصوصی ملاقات کی جائیں اور ملاقات کے لیے چھوٹی بڑی ٹیمیں تشکیل دی جائیں، باہمی امداد و احسان کو فروغ دیاجائے۔عوامی نمائندے،مکھیا،سرپنچ،وارڈکونسلراورا ن کے مختلف طبقے اس سلسلے میں خصوصی کرداراداکرسکتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا

مشن احترام انسانیت وخدمت خلق کی تکمیل کے لیے ذرائع ابلاغ سے برابرکام لیاجائے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متحرک چینلز اور ویب سائٹس اور الیکٹرانک وپرنٹ میڈیاکے مالکان اوران میں کام کررہے افرادکے ساتھ مضبوط رابطہ کیاجائے۔اورنیزاس کے لیے ایک یوٹیوب چینل اورویب سائٹ بنایاجائے۔

تحقیقی کام

(۱) اعداد و شمار کے ذریعے اس حقیقت کو منظر عام پر لایا جائے کہ مختلف مفادات کی خاطر جس طرح اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کی جارہی ہے، اس سے نہ صرف مسلمانوں کو؛ بلکہ پورے ملک کو شدید نقصان کا سامنا ہے اور تعلیم، روزگار، صحت اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت سے منہ موڑ کرمذہبی و سماجی بنیادوں پر تفریق اور پولرائزیشن کی سیاست ملک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔

(۲) اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ہونے والے اعتراضات کا تسلی بخش جواب فراہم کیا جائے، کتابچے اور پمفلٹ شائع کئے جائیں اور باہمی گفتگو کے ذریعہ غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

(۳) عصبیت والی تنظیموں اورافراد کے لٹریچر اور ان کی مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے۔اوران کاعلمی اندازمیں مناسب جواب دیاجائے۔

(۴) مختلف ادیان کے تعارف اور موجودہ ہندوستانی تناظر میں خدمت خلق کی اہمیت و طریقہئ کار پرمشتمل مختلف کورسز اور محاضرات تیار کئے جائیں اور اس موضوع پر طلبہئ مدارس کو خصوصی ٹریننگ دی جائے اوران سے مقالے لکھوائے جائیں۔

(۵) عوام و خواص میں ہندوستانی تاریخ و تہذیب کا صحیح شعور بیدار کرنے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی روشن تاریخ کو منظر عام پر لانے کیلئے مختلف کورسز بنائے جائیں، کتابیں لکھی جائیں اور بہترین ویڈیوز و ڈاکومنٹریز تیار کی جائیں۔

(۶) یونیورسٹی وریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ان موضوعات پر ریسرچ پیپرز اور ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھوانے کے لئے ماحول سازی کی جائے۔

قانونی کاروائی

 موجودہ حالات میں رام نوی کے موقع پر ملک کی کئی ریاستوں میں ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے اوراس کے پہلے کئی لوگوں نے ملک کے امن وامان کو قتل وغارت گری کا اعلان کرکے خراب کرنے کی کوشش کی،اسی طرح گیانواپی مسجد،متھراکی شاہی عیدگاہ ومسجد،قطب مینار نئی دہلی کے خلاف نئی مہم شروع کی گئی ہے، اس طرح کے ناخوشگوار حالات پر قابو پانے کے لیے قانونی چارہ جوئی ضروری ہے۔قانونی کارروائی کے لیے بیدار رہیں،اورہر وقت کاروائی کریں،مقامی تھانہ اورکورٹ کا سہارا لیں بلکہ ہر ضلع میں اوربلاک سطح پر وکیلوں کی ٹیم بنائیں،جو حسب ضرورت قانونی کارروائی کریں،عوام وخواص میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں اورہرطرح کے غیر قانونی کاموں سے بچیں۔ مستقبل میں قانونی اوردستوری لڑائی اورسخت ہونے والی ہے؛اس لیے ملت کے باشعور طبقہ اس کے لیے آگے آئیں اوراپنے وقت ومال کو پیش کرکے اس مہم کو کامیاب کریں۔

اپیل

ملت اسلامیہ کے عوام وخواص اورنوجوانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مایوسی اوراحساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں،نہ ہی اشتعال میں آئیں، بلکہ اکسانے اورجوش دلانے والوں کے سامنے صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔نیز باہمی اتحاد واخوت کو مضبوط کریں اورہرطرح کی عصبیت وگروہ بندی سے اپنے آپ کودوررکھیں۔موجودہ دورمیں اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لیے قانون کا سہارا لیں اورجمہوری تقاضوں کے مطابق پرامن احتجاج میں بھی قانون کی خلاف وزری سے اپنے آپ کوبچائیں اوربنیادی طورپرایمان وعمل صالح،تعلیم،روزگار،تجارت وغیرہ میں انفرادی واجتماعی طورپرآگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں اورمساجدکوآبادکریں۔اپنے لیے اورپوری انسانیت کے لیے دعاؤں کااہتمام رکھیں

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com